محمود شام، کراچی (پاکستان)
دو روز پہلے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تو اندرونی ذرائع سے یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ مسلم لیگ کے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ زیادہ تر فوجی آپریشن پر زوردے رہے ہیں۔ پھر یہ خبر آئی کہ طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ یہ گلہ کیا جارہا تھا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں نہیں آتے ہیں۔ ان تمام خبروںکے جھرمٹ میں منگل کی رات پاکستانی قوم کو یہ خوشخبری دی گئی کہ پارلیمنٹ کی طاقت سے یہ بڑا منصب حاصل کرنے والے وزیر اعظم پارلیمنٹ پر یہ کرم فرمائیںگے کہ بدھ کی صبح اپنے درشن کروائیںگے۔ پھر ہم سب خوش قسمت پاکستانیوں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے اپنے وزیراعظم کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے پایا اور انتہائی اہم اعلان سامنے آیا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس سے ملنے والے تاثر کے بر عکس وزیر اعظم نے آپریشن کی بجائے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ سنایا اور ایک چار رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی جو طالبان سے رابطہ کر کے مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرے گی ۔
کمیٹی میں دو صحافی شامل ہیں دونوں کا تعلق جنگ گروپ سے ہے، جو وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔ جنہوں نے پہلے مشرف پھر زرداری حکومت کو ختم کروانے میںمرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ایک ہیں جنگ اخبار کے کالم نگار عرفان صدیقی جو سابق صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری تھے۔ پھر میاں نواز شریف کی تقریریں بھی لکھتے ر ہے ہیںاور اپنے کالموں میں ہمیشہ میاںصاحب کے لئے کھلم کھلا جانبداری کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ دوسرے ہیں سینئر ایڈیٹر انتہائی محترم رحیماللاہ یوسف زئی جو جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز پشاور کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کی رائے کو اہم مانا جاتا ہے۔ تیسرے ہیں سفارتکاررستم شاہ مہمند جو افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ مختلف چینلوں پر خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ چوتھے رکن بڑی دلچسپ شخصیت اور شہرت کے مالک ہیں اور ان کو کمیٹی میں شامل کرکے وزیراعظم نے انتہا پسندوں سے اپنی قربت کا اشارہ دے دیا ہے۔
سابق میجر عامر کسی زمانے میں آئی ایس آئی کے انتہائی اہم اور فعال افسر مشہور تھے۔ سوات میں تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ صوفی محمد کے قریبی عزیز ہیں۔ بینظیر بھٹو کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی بدنام زمانہ سازش مڈنائٹ جیکالز کے دو اہم فوجی کرداروں میں سے ایک ۔پی پی پی کے کٹر دشمنوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ لیکن عام طور پر مذاکرات کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اگرچہ ساتھ ساتھ ان کی کامیابی پر یقین نہیں کیا جارہا ہے۔ کیونکہ طالبان کا اب تک جو رویہ رہا ہے، اس کی روشنی میں کم لوگوں کو امید ہے کہ طالبان سنجیدگی سے مذاکرات میں شریک ہونگے۔ قوم کی طرف سے زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے لئے کوئی ٹائم فریم بھی طے کیا جائے اور دائر ہ کار بھی۔ یہ نہ ہو کہ بات چیت غیر معینہ عرصے تک چلتی رہے اور اس میں دنیا بھر کے مسائل زیر غور آتے رہیں۔ طالبان کی طرف سے حملوں اور دھماکوں کے سلسلے بند کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا جائے۔ یہ بھی ضمانت دی جائے کہ ملک کے کسی حصے میں بھی کسی کو دھمکی دی جائے گی نہ زبردستی چندہ وصول کیا جائے گا۔
پی پی پی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پی پی کے رہنما سید خورشید شاہ نے تو وزیراعظم کی تقریر کے فوری بعد تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن پارٹی کے سرپرست اعلی بلاول بھٹو نے اس پر تنقید کردی۔ ایم کیو ایم نے بھی اس اعلان کو مبہم قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ نے اگرچہ اس پیش رفت کے ذریعے گیند طالبان کے کورٹ میں پھینکنے کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گیند حکومت کے کورٹ میں ہی رہے گی۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا موقف انتہا پسندی کے معاملے میں واضح نہیں ہے۔ اکثر سیاسی تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اندر سے طالبان ہی ہے۔ انتہا پسندی مذہبی شدت پسندی کی بنیاد جنرل ضیاء کے دور میں رکھی گئی۔ اسی دور میں میاںنواز شریف کا سیاسی جنم بھی ہوا جنرل ضیاء کی قبر پر کھڑے ہو کر میاں صاحب نے ان کے مشن کو جاری رکھنے کا عہد کیا تھا۔ ہندوستان سے اچھے تعلقات کی پالیسی کے علاوہ ان کی کوئی پالیسی آگے بڑھنے والی نہیں کہی جاسکتی ۔
عین جس وقت وزیر اعظم پارلیمنٹ میں طالبان سے مذاکرات کے اعلان کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے اسی دورا ن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آگے پیچھے تین دھماکے شہر میں امن اور آپریشن کیلئے بلائے ہوئے رینجرز کے اڈوں پر کئے گئے اس میں کچھ ہلاک بھی ہوئے اور زخمی تو کافی تعداد میں ہوئے۔ پھر طالبان نے جلدی سے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ اب لوگ پریشان ہیں کہ کیا طالبان کی کمان کسی ایک ہاتھ میں ہے یا یہ الگ الگ گروپ ہیں۔ پنجابی طالبان کی طرف سے اعلان کا خیر مقدم سب سے پہلے کیا گیا ۔
فوجی اور سنجیدہ حلقوں کی رائے میں آپریشن کے لئے ماحول اور موسم سازگار ہے اور اس کے لئے تیاریاں بھی ہو رہی تھیں۔ سردیاں ختم ہونے والی ہیں۔ برف پگھل رہی ہے دہشت گرد خوف زدہ تھے کہ اب فوج کو کارروائی میں برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لئے انہوں نے مذاکرات میں پناہ لینے کو ترجیح دی ہے۔ اس سے انہیں اپنی طاقت کو از سر نو منظم کرنے کا موقع مل سکے گا۔
مذاکرات کے ایسے اعلانات پہلے بھی ہوئے ہیں۔ عام پاکستانی کو اگرچہ طالبان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن وہ بھی امن کو ایک موقع دینا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں فوج کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ مگر اس کی کوئی تائید نظر نہیں آتی۔ طالبان واضح طور پر کہتے ہیںکہ پاکستانی فوج امریکہ کی یعنی کافروں کی امداد کر رہی ہے۔ اس لئے اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا عین شرع کے مطابق ہے۔ جب عقیدے کی شدت یہ ہو تو پیچھے کیسے ہٹا جاسکتا ہے۔ حکومت کوطالبان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے امریکہ سے اتحاد ختم کرنا ہوگا۔ یہ خسارے کا سودا ہوگا۔ کیونکہ اس جنگ میں ساتھ دینے کے لئے باقاعدہ کوالیشن سپورٹ فنڈ ملتا ہے۔ کیا ہم یہ قربانی دینے کو تیار ہو سکتے ہیں۔ ہماری اقتصادی حالت کمزور ہے۔
سب کی آزمائش کا وقت آگیا ہے، طالبان کا بھی امتحان ہے، فوج کا بھی، سیاسی پارٹیوں کا بھی ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ صرف وقت کا زیاں ہوگا مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے کیونکہ پاکستان جس آئینی نظام کے تحت چل رہا ہے اور حکومت جس آئین کے تحت قائم ہے، طالبان اس کو نہیں مانتے وہ کھلم کھلا یہ کہتے بھی ہیں۔ پہلی شرط یہی ہونی چاہئے کہ طالبان ایک تو دھماکے بند کرنے کا اعلان کریں دوسرے پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں۔ مذاکرات کو آئینی اور قانونی حیثیت اسی صورت میں میسر آسکے گی۔ طالبان اس عرصے کو اپنی قوت منظم کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔
بیچارے پاکستانی ایک دو ماہ بعد پھر وہی دھماکے اور نعشیں دیکھ رہے ہونگے۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800