وفاقی محاذ کیلئے جوش و خروش

مجبور ہو کے ترک ملاقات کے لئے
پھر دل میں آرزوئے ملاقات لے چلے
وفاقی محاذ کیلئے جوش و خروش
علاقائی پارٹیوں کو یکجا کرکے ایک وفاقی محاذ بنانے کی مشق میں مصروف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے گزشتہ روز ڈی ایم کے لیڈر کروناندھی سے چینائی میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد کانگریس نے کے سی آر کی ان سرگرمیوں کو سراسر غیرکانگریس محاذ بناکر بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی درپردہ سازش کرنے کا الزام عائد کیا۔ کے سی آر نے بظاہر اب تک جن پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی، یہ تمام پارٹیاں کانگریس کی حلیف سمجھی جاتی ہیں۔ قومی سطح پر فرنٹ بنانے کی آرزو رکھنے کے پس پردہ جو بھی عزائم ہوں، اس سے اگر ملک کے سکیولر کردار کو نقصان پہونچتا ہے تو پھر اس طرح کی کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ سیاسی حلقوں میں اب تک کے سی آر کے تعلق سے یہی حیرانی پائی جاتی ہے کہ وہ جہاں قدم رکھتے ہیں، وہاں مٹی کا رنگ بدل جاتا ہے۔ کبھی یہ رنگ سرخ ہوجاتا ہے تو یہ رنگ گلابی ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو اسے زعفرانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹی آر ایس پلینری سیشن میں کے سی آر کا رنگ بھرپور گلابی دکھائی دیا حالانکہ ٹی آر ایس اب ایک بڑی طاقتور سیاسی علاقائی پارٹی بن گئی ہے مگر اس کے سربراہ کی سیاسی آرزوؤں کی رفتار بڑھتی جارہی ہے، چینائی میں کروناندھی، کولکتہ میں ممتا بنرجی، جھارکھنڈ رانچی میں ہیمنت سورین، اڈیشہ میں نوین پٹنائک، کرناٹک میں ایچ ڈی دیوے گوڑا سے کے سی آر کی ملاقاتیں علاقائی اتحاد کا سماں باندھنے کے لئے کافی سمجھی جارہی ہیں تو پھر قومی سطح پر علاقائی پارٹیوں کا طاقتور گروپ ابھرنے میں اب رکاوٹ کس بات کی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنی حصہ کی کوشش کی ہے۔ ان کی حالیہ تقاریر لاجواب رہیں۔ انہوں نے علاقائی مسائل کی بھی بات کی ہے اور قومی رویہ پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔ عوام اور علاقائی پارٹیوں کے قائدین کو حوصلہ بھی دیا ہے۔ لوگوں کو جگایا بھی ہے۔ چیف منسٹر جن سے بھی مل رہے ہیں، تلنگانہ میں ان کی حکمرانی کی خوبیاں بیان کی ہیں، آندھرائی لٹیروں کی بات کی ہے اور خود کو انصاف پرست ثابت کرنے کا بھی مظاہرہ کررہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ان علاقائی مدھم چراغوں کے درمیان اپنی امید و آرزوؤں کا دِیا کب تک جلائے رکھیں گے، کیونکہ علاقائی طاقت کے لئے سب کا ساتھ ہونا یقین ہے۔ چینائی میں کے سی آر نے جنوبی ہند کے فلم اسٹارس رجنی کانت اور کمل ہاسن سے بھی ملاقات کا پروگرام بنایا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ڈی ایم کے لیڈر کنی موذھی نے ان سے ملاقات کرکے ان کی کوششوں کی ستائش کی لیکن اپنی پارٹی کی جانب سے ان کے قومی عزائم کا ساتھ دینے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا۔ کنی موذھی نے صرف اتنا کہا کہ علاقائی پارٹیوں کو ملک اور ریاستوں کی ترقی کے لئے متحد ہوکر کام کرنا چاہئے۔ کے سی آر نے اپنے علاقائی جذبہ کا اظہار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ ہر چھوٹے بڑے لیڈر کے سامنے علاقائی پارٹیوں کو مضبوط بنانے کی بات کررہے ہیں۔ وفاقی جذبہ کو پروان چڑھاکر وہ 2019ء عام انتخابات کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کشادہ فکری کے ساتھ ایک ایسا محاذ بنانا چاہتے ہیں جس میں بھلا کس کا ہوگا، غیرواضح ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو واقعتاً ایک قومی طاقت بنانے کی کوشش کا بڑا پیغام دیا ہے۔ اقتدار کی یہ کوشش اگر واقعی وفاقی مسائل کی یکسوئی کے لئے ہے تو اس میں کامیابی ملے گی۔ صرف خود کو نمایاں کرنے کے لئے ہے تو پھر تمام دوڑ دھوپ فضول ثابت ہوگی۔ عوام کو خبر ہے کہ علاقائی پارٹیوں کے قائدین نے قومی سطح کے خواب دکھاکر ملک اور ریاستوں کے بجائے اپنی ذاتی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ نہیں چلے گا کیوں کہ عوام پہلے ہی سے بہت دھوکے کھاچکے ہیں اور وہ کام اور اہلیت دیکھ کر ہی ووٹ دیں گے۔ کانگریس قائدین کے ان الزامات کے درمیان کہ کے سی آر نے صرف موافق کانگریس علاقائی پارٹیوں کو اپنے محاذ کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کانگریس کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی ہے تو اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ کے سی آر خفیہ طور پر بی جے پی کی مدد کرنے جارہے ہیں۔ اب تک کے سی آر نے جن پارٹیوں کے سربراہوں اور قائدین سے ملاقات کی ہے وہ تمام یو پی اے کا حصہ رہ چکی ہیں۔ ایسے میں غیربی جے پی اور غیرکانگریسی وفاقی محاذ بنانے کی کوشش آیا کھرے سکے کو کھوٹے سکے بنادے گی۔ بہرحال یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں کے کہ کے سی آر کی سیاسی دوڑ دھوپ کا یہ مکس آچار کیا رنگ لاتا ہے۔ سردست تلنگانہ عوام ان کے وعدوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو اب تک پورے نہیں کئے گئے ۔