وعدے تو بہت دیکھے ہیں سرکار کے ہم نے

رشیدالدین

ڈائیلاگ بازی نہیں ۔ وعدوں پر عمل ضروری
طلبہ کی غرقابی کا سانحہ ۔ مرکز و ریاستوں کی سردمہری

صرف ڈائیلاگ بازی اور زبانی جمع خرچ سے مسائل کی یکسوئی ممکن نہیں، اس کے لئے تو عزم و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اُترنا پڑے گا ۔ بزرگ افراد اکثر کہا کرتے ہیں کہ صرف باتوں سے کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ان دنوں وزیراعظم نریندر مودی اپنی فنکاری صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ موقع محل کے اعتبار سے کبھی جذباتی تو کبھی نرم گوئی عاجزی و انکساری پر مبنی مکالموں کے ذریعہ بھلے ہی وہ ایک مخصوص دانشور طبقہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوں لیکن عام آدمی کو مایوسی ہوئی ہے ۔ مہنگائی کے خاتمہ اور ترقی جیسے خوش کن نعروں کے ذریعہ بھولے بھالے عوام کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرنے والے نریندر مودی اقتدار کے حصول کے بعد کسی منجھے ہوئے بالی ووڈ اداکار کی طرح ڈائیلاگ ڈیلیوری میں مصروف ہوچکے ہیں۔ مکالمے کی ادائیگی کے انداز کو دیکھ کر شاید ہندی فلموں کے نامور اداکار بھی خود کو کمتر محسوس کرتے ہوئے منہ چھپانے لگ گئے ہیں۔ نریندر مودی کو یہ جان لینا چاہئے کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی 3 گھنٹے کی تفریحی یا ایکشن فلم کی طرح نہیں۔ جس دن سے نریندر مودی نے حلف لیا ہے آج تک سماج کے کسی طبقہ کو راحت ، رعایت اور خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ بڑھتی مہنگائی سے نجات کی اُمید کے ساتھ مودی کو اقتدار عطا کرنے والے عوام کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔ قیمتوں میں کمی تو کجا مودی کی حلف برداری کے بعد دو مرتبہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔

جس کا راست اثر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر پڑتا ہے ۔ غربت کے خاتمے اور ترقی کے بلند بانگ نعرے لگانے والے مودی اپنی پسند کے صنعتکاروں کی ترقی اور غربت کے بجائے غریبوں کے خاتمہ کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے صدرجمہوریہ کے خطاب اور پارلیمنٹ میں نریندر مودی کی تقریر میں عوام کو وہی خواب دکھائے گئے جوکہ بی جے پی نے انتخابی مہم میں دکھائے تھے۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سے ایک بھی شئے کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی ۔ برخلاف اس کے وزیراعظم کی ساری توجہ خارجی اُمور پر مرکوز ہے ۔ غریبوں کی حکومت کا دعویٰ کرنے والے بڑے صنعتکاروں کے مفاد کی تکمیل میں ساری توانائیاں صرف کرتے دکھائی دیئے۔ دیگر ممالک سے بہتر تعلقات یقینا ضروری ہیں لیکن اندرون ملک عوام کو مسائل میں گھرا چھوڑکر پڑوسیوں سے دوستی بڑھانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران مودی بیک وقت مختلف رنگوں میں دیکھے گئے۔ کبھی مدبر تو کبھی دانشور ، کبھی عوامی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار قائد تو کبھی اپنے غرور و تکبر کو چھپاتے ہوئے انکساری کا مظاہرہ الغرض اُن کی تقاریر کا جو بھی اسکرپٹ رائٹر اور ڈائرکٹر ہے وہ یقینا کوئی ماہر استاد ہی ہوگا ۔ بی جے پی کے برسراقتدار آتے ہی قیمتوں میں کمی کے سلسلے میں عوام نے جو توقعات وابستہ کی تھیں انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حکومت اپنے پہلے ہی امتحان میں ناکام ہوگئی ۔ زبانی دعوے اور ہمدردی کو عوام عملی سانچہ میں ڈھلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت کا یہ استدلال بھی قابل غور نہیں ہوسکتا کہ حکومت کو آئے ابھی چند دن ہی تو ہوئے ہیں ۔

سنجیدگی اور دیانتداری ہو تو حکومت کے لئے کئی دن نہیں چند گھنٹے کافی ہیں۔ نریندر مودی نے مہنگائی پر قابو پانے کے مسئلہ پر ایک جائزہ اجلاس بھی نہیں کیا۔ پھر یہ دعویٰ کہ حکومت غریبوں کی ہے ۔ کیا اس طرح پانچ سالہ میعاد مکمل کرلی جائے گی ؟ نریندر مودی کے ترقی کے دعوے اُس وقت کھوکھلے ثابت ہوئے جب دارالحکومت دہلی تاریکی میں ڈوب گیا۔ دہلی زبردست برقی بحران کی گرفت میں ہے اور اہم شخصیتوں کے علاقے بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے ۔ جب دارالحکومت دہلی کا یہ حال ہے تو ملک کی ترقی کا کیا ہوگا ۔ دہلی میں تاریکی چراغ تلے اندھیرا نہیں بلکہ نریندر مودی حکومت کی ناک کے نیچے اندھیرا ثابت ہوا۔ بقول کانگریس ترجمان راشد علوی ’’ہر ہر مودی ، گھر گھر مودی کا نعرہ اب گھر گھر موم بتی میں تبدیل ہوچکا ہے ‘‘۔ اندرون ملک یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف مودی حکومت چین سے تعلقات کے استحکام میں سرگرداں ہے۔ اب یہ انکشاف بھی ہوا کہ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے مودی نے 4 مرتبہ چین کا دورہ کیا تھا۔ کیا چین ، اروناچل پردیش پر اپنی دعویداری سے دستبردار ہوچکا ہے ؟

کیا اُس نے ہندوستان کے مقبوضہ حصوں کی واپسی سے اتفاق کرلیا؟ اروناچل پردیش میں انتخابی مہم کے دوران مودی نے چین کے بارے میں جو کچھ کہا تھا اُس کا ویڈیو دیکھیں تو بہتر ہوگا۔ حلف برداری تقریب میں نواز شریف کی شرکت کو یقینی بنانے ، سارک کے تمام رکن ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پس پردہ اپنے ایک قریبی صنعتکار کے مفادات کی تکمیل ہے جس نے انتخابی مہم میں بھاری فنڈنگ کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی سرحد سے متصل گجرات کے علاقہ کچھ میں وہ صنعتکار برقی پراجکٹ قائم کرنے جارہے ہیں، جہاں سے پیدا ہونے والی برقی پاکستان خریدے گا۔ کیا پاکستان کی جانب سے کشمیر میں دراندازی کے مسئلے کو بھلا دیا گیا ہے جوکہ انتخابی مہم میں بی جے پی کا اہم موضوع تھا ۔ دراصل ملک کے مفادات سے زیادہ بعض صنعتی گھرانوں کے مفادات کی تکمیل مودی کو عزیز ہے ۔ پڑوسیوں سے بہتر تعلقات اُس وقت یاد کیوں نہیں آئے جب بنگلہ دیش سے گزشتہ یو پی اے حکومت کے معاہدوں کو منسوخ کیا جارہا تھا ۔ شاید مودی سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کے مفادات بنگلہ دیش سے نہیں ہیں۔ آپ اپنے تائیدی صنعتی گھرانوں کیلئے ایسے ممالک سے تعلقات بہتر بنانے میں تیزی دکھارہے ہیں جن سے سرحدی تنازعات ہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ دیرینہ حل طلب متنازعہ مسائل کی یکسوئی کے ساتھ تعلقات کے استحکام کی مساعی کی جاتی ۔ افسوس کہ ملک کی سالمیت اور سلامتی پر صنعتی گھرانوں کے مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے پھر ساتھ ہی دیش بھکتی کا دعویٰ بھی برقرار ہے ۔

ملک کے چوکیدار کی حیثیت سے خدمت انجام دینے والے کیا یہ نہیں جانتے کہ جب چوکیدار نگرانی کے فرائض بھلاکر سوجائے تو کیا ہوگا ؟ اب تو نریندر مودی کے بیرونی دوروں کے پروگرام بھی منظرعام پر آنے لگے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بیرونی ممالک سے پہلے وہ ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کرتے ہوئے عوامی مسائل کا جائزہ لیتے جس طرح انتخابی مہم میں ووٹ کے حصول کیلئے طوفانی دورے کئے گئے ۔ مودی کی کامیابی کے بعد اُن کے حامی صنعتکاروں کی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ صنعتکار اب میڈیا اداروں کی خریداری میں مصروف ہوچکے ہیں تاکہ مستقبل میں کوئی بھی چینل نریندر مودی کی مخالفت نہ کرے۔ خاص طورپر ایسے چینلس کو خرید لیا گیا جنھوں نے انتخابی مہم کے دوران غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ میڈیا اداروں کی خریدی کے ساتھ ہی مخالف مودی ذہن رکھنے والے نامور صحافیوں کو طویل چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے ۔ کیا یہی جمہوریت اور آزادی صحافت ہے جس پر نریندر مودی عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مودی کی مخالفت کرنے والے اصول پسند اور بیباک صحافیوں سے بدلہ کے طورپر یہ کارروائی کی گئی اور اس کیلئے صنعتی گھرانوں کو استعمال کیا گیا۔

تعلیمی تفریح کے لئے ہماچل پردیش جانے والے حیدرآبادی طلبہ کے ساتھ پیش آیا واقعہ یقینا کسی قومی سانحہ سے کم نہیں ۔ تابناک مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے 24 سے زائد طلبہ منالی کی ندی میں غرق آب ہوگئے جن کے والدین بچوں کی بحفاظت واپسی کے منتظر تھے ، اُن کے گھر لخت جگر کی نعش پہونچی ۔ اس واقعہ کو ہوئے چھ دن گذر گئے لیکن ابھی تک تمام نعشیں برآمد نہیں ہوئیں۔ جس طرح انڈونیشیا کا طیارہ مسافرین کے ساتھ سمندر میں لاپتہ ہوگیا تھا اُسی طرح یہ طلبہ بھی لاپتہ ہوگئے ۔ اس سانحہ نے تلنگانہ اور آندھراپردیش ہی نہیں بلکہ سارے ملک کو غم کے ماحول میں ڈبودیا ہے لیکن حکمرانوں کی سردمہری کا یہ عالم ہے کہ اسے معمول کے حادثہ کی طرح دیکھا جارہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی خود ہماچل پردیش پہنچ جاتے اور بچاؤ و راحت کے کاموں کی نگرانی کرتے ۔ چونکہ ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے لہذا نریندر مودی نے ہماچل کا رخ نہیں کیا تاکہ وہاں کی حکومت کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے اور اُس کی بدنامی ہو۔ وزیراعظم نے اپنا کوئی نمائندہ تک ہماچل روانہ نہیں کیا ۔ عوامی بھلائی کے دعویدار مودی نے پارلیمنٹ کی تقریر میں اس سانحہ کا ذکر نہیں کیا۔ کیا ہلاک ہونے والے نوجوان ہندوستان کے سپوت نہیں تھے ؟ سانحہ کی صبح جب کہ تلنگانہ کا ہر دردمند دل رورہا تھا نومنتخب عوامی نمائندوں کو اسمبلی کی رکنیت کی حلف برداری کی فکر لاحق تھی اور وہ ایوان میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کررہے تھے ۔ حالانکہ جس کالج سے ان طلبہ کا تعلق ہے

وہ دارالحکومت حیدرآباد میں واقع ہے ۔ کسی رکن نے یہ نہیں کہاکہ حلف برداری بعد میں پہلے مہلوکین کیلئے تعزیتی قرارداد پیش کی جائے اور متاثرہ خاندانوں سے اظہارہمدردی کیا جائے ۔ اس سانحہ کے بعد تلنگانہ اور آندھراپردیش حکومتوں نے نعشوں پر سیاست شروع کردی اور بچاؤ اور راحت کے کاموں میں مسابقت کا آغاز ہوگیا۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو جو ایک تجربہ کار سیاستداں بھی ہیں انھوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر مرکزی حکومت کی مدد سے نعشوں کی منتقلی میں اہم رول ادا کیا ۔ اُن کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے ساتھ ساتھ تلنگانہ عوام کی واہ واہی حاصل کرنا تھا ۔ دوسری طرف طلبہ کے تلنگانہ سے تعلق کے باوجود تلنگانہ حکومت نے صرف ضابطہ کی تکمیل کے طورپر وزیرداخلہ کو منالی روانہ کردیا ۔ وزیر داخلہ جو خود اس موقف میں نہیں کہ آزادانہ طورپر چل پھر سکیں وہ کس طرح بچاؤ و راحت کاموں کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ تلنگانہ کی حکومت نے ابھی تک متاثرہ خاندانوں کے لئے ایکس گریشیاکا اعلان بھی نہیں کیا جبکہ چندرابابو نائیڈو اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے ۔ تعلیمی تفریح کے نام پر اس طرح کے سانحات کو روکنے کیلئے حکومت کو قانون سازی کرنی چاہئے اور متعلقہ کالجس کو جوابدہ بنایا جائے ۔ نریندر مودی کے عوام سے وعدوں پر عام آدمی کا تبصرہ اس شعر کی طرح ہے ؎
وعدے تو بہت دیکھے ہیں سرکار کے ہم نے
سانچہ میں عمل کے انھیں ڈھلتے نہیں دیکھا