وعدہ کر کے سو گئے سب اچھے دن رات

مودی حکومت کے تین سال … گائے محفوظ ، انسان غیر محفوظ
ہندو راشٹر کا خواب … مسلمانوں کی بے حسی

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کے تین سال مکمل ہوگئے۔ بی جے پی اسے کامیاب اور ترقی کی سمت گامزن دور قرار دے رہی ہے۔ جو پارٹی اقتدار میں ہو، ظاہر ہے کہ وہ اپنی حکومت کی تعریف ضرور کرے گی اور کارنامے بھی بیان کرے گی لیکن جب تک عوام کی رائے حاصل نہ کی جائے اس وقت تک تمام دعوے ادھورے رہیں گے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ، عوام کیلئے حکومت اور عوام کی منتخب کردہ حکومت کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن حکومت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ حکومت کے بارے میں عوام کے احساسات کیا ہیں؟ دولت مند اور خوشحال طبقات سے زیادہ غریب اور متوسط طبقات کی رائے پر حکومت کی کارکردگی کو پرکھنا ہوگا ۔ اس سے بہتر اور کوئی کسوٹی نہیں ہوسکتی کیونکہ غریب کی خوشحالی اور ترقی ہی کسی بھی حکومت کی اصل کامیابی ہے ۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی پر تجزیہ کا آغاز بی جے پی صدر امیت شاہ کے اس بیان سے کرتے ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 70 برسوں میں حکومتوں نے جو کچھ نہیں کیا ، مودی حکومت نے تین برس میں وہ کر دکھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ تین برس میں 106 نئی اسکیمات کا آغاز کیا گیا۔ امیت شاہ جو مودی کے وزیر باتدبیر ہیں، ان کے دعوے سے ہمیں بھی اتفاق ہے۔ شاہ نے جو کچھ کہا وہ سچائی کے عین مطابق ہے اور حقیقت بیانی پر ہم ان کی سراہنا کرنا چاہتے ہیں۔ انسان بھلے لاکھ برا ہو، کبھی نہ کبھی سچائی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ امیت شاہ جن 70 برسوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، ان میں اٹل بہاری واجپائی کا دور بھی شامل ہے لیکن امیت شاہ کو پارٹی کی نہیں بلکہ شخصیت کی تعریف مقصود ہے۔ یقیناً 70 برسوں میں کسی بھی حکومت نے تانا شاہی فیصلوں سے عوام کیلئے اس قدر مشکلات پیدا نہیں کئے جتنے کہ نریندر مودی حکومت نے تین برسوں میں کئے ہیں ۔ نوٹ بندی کے ذریعہ عوام کو سڑکوں پر کھڑا کرنا ، 150 سے زائد افراد کی بینک کی قطاروں میں موت ، اے ٹی ایم میں رقم نہ ہونے سے عوام کو کیاش لیس اور کنگال بنانا صرف اور صرف مودی حکومت کا کارنامہ ہے ۔ آج تک بھی عوام اس صورتحال سے ابھر نہیں پائے ہیں ۔ غریب اور متوسط طبقات کی معیشت تباہ کرنے کا کام مودی سرکار نے کیا اور آج تک بھی تاجر برادری اور تنخواہ یاب ملازمین اور محنت کش طبقات پریشان ہیں ۔ 70 برس میں مودی کو اعزاز حاصل ہے کہ دو برسوں میں 40 سے زائد ممالک کا دورہ کیا لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس قدر دوروں کے باوجود ہندوستان میں سرمایہ کاری اور دیگر ممالک سے باہمی تعاون کے شعبہ میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ امیت شاہ نے صحیح کہا کیونکہ 70 سال میں کبھی بھی پڑوسی ممالک سے رشتے اس قدر کشیدہ نہیں تھے۔ پاکستان سے گزشتہ تین برسوں میں تعلقات ہر لمحہ کشیدہ برقرار ہیں۔ سرحد پر تناؤ اور ہندوستانی سپاہیوں کے سر قلم کرنے کے واقعات سابق میں کبھی پیش نہیں آئے۔ 70 سال میں مذہبی جنون کا اس قدر مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ کے باعث عدم رواداری کے ماحول نے انصاف کیلئے آواز اٹھانے والوں کو دہشت کا شکار بنایا۔ نریندر مودی کے تین سالہ دور پر صرف ایک جملہ میں تبصرہ کیا جائے تو بس یوں کہنا پڑے گا کہ تین سال میں قوم پرستی کے نام پر ہندوتوا  ایجنڈہ پر عمل آوری اور ہندو راشٹر کے قیام کی سمت پیشقدمی کی گئی۔ اس سے بڑھ کر مودی حکومت کا اور کیا کارنامہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان اور دلتوں کے خون کی ہولی سے تین سال کی تکمیل کا جشن منایا جارہا ہے ۔ سہارنپور میں اعلیٰ طبقات کی جانب سے دلتوں کا خون بہایا گیا اور مظالم کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ 70 برسوں میں یقیناً یہ بھی پہلا موقع تھا جب جانوروں کے تحفظ کے نام پر انسانوں کا خون بہایا گیا ۔ 70 برسوں میں شائد کسی وزیراعظم نے نفرت کے پرچارکوں اور سماج کو بانٹنے کی کوشش کرنے والوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہو۔ 70 سال میں شائد ہی کسی حکومت نے رمضان المبارک  میں دعوت افطار کی روایت کو ختم کیا ہے اور وزیراعظم نے مسلم قائدین کی جانب سے پیش کردہ ٹوپی قبول کرنے سے تک انکار کردیا۔ 70 برسوں میں کسی بھی حکومت نے شریعت میں مداخلت کی کوشش نہیں کی اور شرعی قوانین کو بحث کا موضوع نہیں بنایا۔ یہ تو صرف چند کارنامے ہیں ، جنہیں ملاحظہ اسباب بھی کہا جاسکتا ہے۔ یوں تو تین سالہ دور کی چارج شیٹ کافی طویل ہے اور مودی کے ’’کارناموں‘‘ کا احاطہ صرف ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے  کہ مودی برسر اقتدار آتے ہی ہندوتوا طاقتیں بے لگام ہوگئیں۔ آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈہ کو نافذ کرتے ہوئے سیکولر انڈیا کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھا گیا۔ ملک بھر میں ہر سطح پر نفرت کے ماحول کو ہوا دی جارہی ہے اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ایسے عناصر کی حمایت اور سرپرستی کر رہی ہیں ۔ مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ محض کاغذ تک محدود ہوگیا ۔ کیا اچھے دن یہی ہے کہ اخلاق سے لیکر پہلو خاں تک بے قصور مسلمانوں کو بیف کے نام پر سفاکانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کیا یہی ہے کہ لوو جہاد کے نام پر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جائیں، ان کی حب الوطنی اور وطن پرستی پر شک کرتے ہوئے انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا جائے۔ سب کا ساتھ کا مطلب مسلمانوں کے لئے ترقی کے مواقع تنگ کرنا اور انہیں تاریخ سے دور کرنے نصابی کتب میں تحریف کی کوشش ہے۔

نریندر مودی نے اپنے کارناموں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تین سال کی تکمیل سے عین قبل اترپردیش کو یوگی ادتیہ ناتھ کی شکل میں تحفہ دیا ہے۔ ملک میں استاد ہی کیا کم تھے کہ اترپردیش میں شاگرد نے عہدہ سنبھالتے ہی مسلمانوں کی دل آزاری کا آغاز کردیا۔ میلاد النبیؐ کی تعطیل کی برخاستگی پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ سرکاری اسکیمات میں مسلمانوں کو حاصل 20 فیصد تحفظات کو بھی ختم کردیا۔ یوگی جو اپنے استاد کے شاگرد خاص سمجھے جاتے ہیں ، مسلمانوں کو بابر ، اکبر اور اورنگ زیب کے بجائے ہندو راجا مہاراجاؤں کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا۔ اترپردیش میں ایک بھی مسلمان کو بی جے پی نے اسمبلی کے لئے ٹکٹ نہ دیتے ہوئے واضح پیام دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ گری راج سنگھ ، سنجیو بلیان ، سادھوی نرنجن جیوتی اور ساکشی مہاراج کو کھلی چھوٹ دیدی گئی اور وزیراعظم نے کبھی بھی ان کی سرزنش نہیں کی ۔ سہارنپور میں دلتوں کا قتل اترپردیش میں امن ضبط کی ابتر صورتحال کا ثبوت ہے۔ دلتوں پر حملوں کے ساتھ ہی مرکز اور ریاستی حکومتیں متحرک ہوگئیں اور مجسٹریٹ سمیت ایس پی کو معطل کردیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلتوں کے معاملہ میں اس قدر مستعدی کیوں؟ اترپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے واقعات پیش آئے لیکن آج تک خاطی آزاد گھوم رہے ہیں۔ مظفر نگر کے فسادات کے ملزم مرکزی کابینہ میں ہے جبکہ اخلاق کی ہلاکت کا ذمہ دار زعفرانی بریگیڈ آزاد گھوم رہا ہے ۔ حکومت چاہے کسی کی ہو جب کبھی مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو کارروائی نہیں کی جاتی۔ کیا دلت کا خون ، خون ہے اور مسلمان کا خون پانی ہے ؟ دلتوں نے اپنے اتحاد کے ذریعہ اپنی سیاسی طاقت کو منوالیا جس کے نتیجہ میں امیت شاہ کو تلنگانہ میں دلت کے گھر میں کھانا کھانے کا ڈرامہ کرنے پڑا۔ اترپردیش اور بی جے پی زیر قیادت دیگر ریاستوں میں مسلمان اور دلتوں کو منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ دلتوں کا معاملہ آتے ہی سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہوجاتی ہیں کیونکہ دلت ان کا مضبوط ووٹ بینک ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے دور میں کئی فسادات ہوئے لیکن خاطیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اب جبکہ سہارنپور میں دلت طبقہ نے اعلیٰ طبقات کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا ہے ، مرکزی حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے یوگی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ مودی کے تین سالہ دور کے بارے میں صرف شکوہ کرنا کافی نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئے ۔ گزشتہ تین برسوں میں مسلم قیادت بھلے وہ سیاسی ہو یا مذہبی ان کی کارکردگی کیا رہی؟ ایسے وقت جبکہ بی جے پی مرکز میں این ڈی اے کے نام پر اپنے خفیہ ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے، مسلم قیادت کے دعویدار مزاحمت میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ قیادتیں مسلمانوں اور شریعت کے تحفظ کیلئے کس حد تک چوکس ہیں۔ ہم تو مسلم جماعتوں کے نام بھی لینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں کئی گوشۂ گمنامی میں جاچکی ہیں۔ شریعت اور مسجد کے حساس معاملات میں بھی قیادت کے دعویدار حکومت پر اثر انداز ہونے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ تین برسوں میں ایک بھی مرحلہ ایسا نہیں ہے جب قیادت نے حکومت کو اپنے کسی فیصلہ کو واپس لینے پر مجبور کیا ہو۔ حد تو یہ ہوگئی کہ قیادتوں نے متحدہ طور پر حکومت کے خلاف ایک بھی علامتی مظاہرہ تک نہیں کیا۔ حقوق کے بارے میں مسلمانوں میں شعور بیداری کے بجائے قیادتیں اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس صورتحال نے عام مسلمان کو مزید بے حس بنادیا ہے ۔ اگر بے حسی کا تسلسل اسی طرح جاری رہا تو یہ فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔ خود مسلمانوں کو بھی اپنی قیادتوں سے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں حساب لینا ہوگا۔ مودی حکومت کے تین سال کی تکمیل پر ندا فاضلی کا یہ شعر صادق آتا ہے    ؎
گم سم گنگا گھاٹ ہے چپ چپ ہے گجرات
وعدہ کر کے سو گئے سب اچھے دن رات