سید ساجد پیرزادہ
حکومت کے ارادے اور فیصلوں میں فرق کیوں ہوتا ہے ۔ ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریت ہے جس پر ہر ہندوستانی کو ناز اور فخر ہے ۔ جمہوریت میں حقوق کی حفاظت اور ہر طبقے کے لیے یکساں سلوک اور انصاف جمہوریت کی طاقت ہوتی ہے ۔ ریاست تلنگانہ ایک جدید ریاست ہے ۔ ریاست تلنگانہ کے حصول کے لیے بڑی زبردست جدوجہد کی گئی گذشتہ چھ دہوں سے تلنگانہ کے ساتھ کبھی انصاف اور نا انصافی کے دور آتے گئے ۔ لیکن حصول تلنگانہ کے لیے جدوجہد برابر جاری رہی اور آخر کار تلنگانہ کا سنہرا خواب حقیقت میں بدل ہی گیا ۔ ریاست تلنگانہ جمہوری ہندوستان کی جدید ریاست قرار پائی اور اس طرح خواب حقیقت میں بدل گیا ۔ اس کے ساتھ ہی تقریبا 4 کروڑ سے زیادہ باشندگان تلنگانہ کی امیدیں اور آرزوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جو کہ ایک واجبی اور ہر انصاف پسند جمہوریت میں رہنے والے کا حق ہے ۔ تلنگانہ میں رہنے والے ہر انسان نے اپنے لیے ایک نئی زندگی کی شروعات کا خواب دیکھا تھا وہ اپنے خواب کی تکمیل دیکھنا چاہتا تھا ۔ تلنگانہ جو کہ گنگا جمنی تہذیب اور اس علاقہ کی سنہری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کے لیے وجود میں آیاتھا ۔ اس جمہوری نظام کو رائج کرنے اور اس کو مزید استحکام دینے کے لیے اس کے رہنے والے لوگوں نے اپنے جمہوری حق کا زبردست استعمال کرتے ہوئے نئی تاریخ لکھی اور جمہوری نظام کے ایک ایک اینٹ کو مضبوطی بخشی اور جب ریاست کے انتخابات کا وقت آیا تب جوق در جوق تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے حق میں اپنا فیصلہ کن ووٹ ڈالا ۔ اس طرح نئی ریاست تلنگانہ کے نئی نئی شاندار مسند پر بیٹھنے کا موقع تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو دے کر اس کے وعدوں ، ارادوں اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا بھر پور موقعہ دیا ۔
اس خیال سے ہٹ کر کے اکثر حکومتیں اپنے وعدوں کو جلد بھلا دیتی ہیں اور وہ تمام وعدے کو دوران انتخاب کیے جاتے ہیں وہ بے جان بے آواز ردی کی ٹوکری میں پھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں ۔ کچھ اس طرح کے وعدے دوران انتخابات مسلمانوں سے کئے گئے تھے کہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دئیے جائیں گے اور جدید ریاست کا نائب وزیر اعلیٰ مسلمانوں میں سے ہوگا ۔ وعدہ تو آدھا پورا ہوا آدھا ادھورا ہے ۔ جس وعدے کا زور و شور سے دوران انتخابات زبردست ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا وہ ، حکومت قائم ہونے کے بعد بے آواز بے جان ہوگیا ۔ یا تو وہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا یا پھر وہ مثل (فائیلس ) گرد آلود ہوگئی ۔ مگر واہ واہ بہت خوب بہت خوب ایک جریدہ ایک تحریک ایک آواز ایک للکار کو گذشتہ 7 دہوں سے مسلمانوں کے حق میں بلند ہورہی ہے ۔ وہ کبھی جدوجہد بن کر کبھی تحریک بن کر کبھی جریدہ بن کر للکارتی ہے اور اتنی زبردست قوت بن کر اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے کہ جمہوری ادارے حکومتیں اس کو دبا نہیں سکتی بلکہ اس طوفان سے ٹکرانے کے بجائے اس طوفان سے اٹھنے والی موجوں پر توجہ دینے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ تحفظات کے حق میں جو جدوجہد روزنامہ سیاست سے طوفان بن کر ریاست تلنگانہ کے کونے کونے میں سیلاب کی شکل اختیار کررہی ہے وہ ایک زبردست قوت اپنے اندر سمو لیے ہوئے ہے ۔ یہ قافلے کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی ۔ جو کسی بھی وقت زبردست انقلاب بن کر فخر و تکبر و غرور کو نیچا دکھانے کا اعلان کرسکتا ہے ۔ یہ تحریک اپنی منزل اور مقصد کی طرف پوری قوت اور طاقت سے رواں دواں ہے جو ہر حال میں اپنے مقصد کو پالے گی ۔ اس لیے کہ اس میں آنے والے نسلوں کی بھلائی کامیابی کامرانی چھپی ہوئی ہے ۔ یہ وہ کوہ نور کی طرح ہے جب اس کو وقت کا سربراہ اپنے سر کے تاج میں لگائے گا تو اس کا سر فخر اور شکر سے اونچا ہی رہے گا اور زمانہ صدیوں تک اس کو دعائیں دیتا رہے گا ۔
آواز کی بھی پرواز ہوا کرتی ہے
نادانوں انقلاب کی آواز کم ہوتی ہے
سرزمین دکن تلنگانہ زرخیزی دیکھئے کہ اس زمین سے نکلنے والے کوہ نور کو آج بھی اور صدیوں سے ملکہ برطانیہ بڑے فخر اور مسرت کے ساتھ اپنے تاج میں سجائے ہوئے ہے گویا ہماری مٹی کی تاثیر اتنی چکاچوند کرنے والی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہے لیکن ہائے ستم ہائے افسوس یہ صرف ایک شخص ایک خاندان کا خزانہ بن گیا ۔ لیکن لیکن کیا تحریک تحفظات وہ کوہ نور سے ہزاروں گنا زیادہ قیمتی نہیں ہے جو اگر ایک مرتبہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا تب اس سے صدیوں تلک ہزاروں خاندان لاکھوں غریب مفلس بے یار و مددگار کمزور مجبور انسانوں کو علم کی روشنی سے منور کرے گا ۔ جس کی روشنی انسانیت کا بھلا ہوگا انسانیت سرخرو ہوگی اور وقت کے سربراہ کو دعائیں دے گی ۔۔