غضنفر علی خان
2014 ء کے عام انتخابات کے نتائج نے ہر درد رکھنے والے ہندوستانی شہری کے دل و دماع میں ڈر و حوف کا احساس پیدا کردیا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کا بول بالا ہوگیا ہے۔ سیکولرازم کو جو خطرات لاحق تھے جن اندیشوں کا اظہار کیا جارہا تھا وہ کم و بیش صحیح ثابت ہوئے ۔ سیکولرازم آخری سانسیں لے رہا ہے اور ہندوستان کے اس چہرے کو مسخ کرنے کی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں جس کو اپنی فکر صحیح سے ملک کے بزرگ لیڈروں پنڈرت جواہر لال نہرو، مولانا آزاد ، آنجہانی شاستری نے اپنا خون جگر دے کر تراشا تھا ۔ جیسے جیسے انتخابی نتائج سامنے آتے گئے تصویر صاف ہوتی گئی ۔ پہلے تو اگزٹ پول نے کمر توڑ دی اور اب نتائج نے ملک کے سیکولرازم کو مفلوج کردیا ہے ۔ طاغوتی طاقتیں دندناتی ہوئی پھر رہی ہیں۔ ان پر فتح کا نشہ چڑھتا جارہا جو سب سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ مودی اتراتے ہوئے اپنی کامیابی کا سہرا خود اپنے ہی سر باندھ رہے ہیں، اس صورتحال کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس ہے ۔ کانگریس کا سانحہ یہ ہے کہ اس نے آزادی کے صرف 20 برس تک سیکولرازم کا بڑے زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا ، اس کے بعد یہ پارٹی اور اس کے بیشتر لیڈر ’’جنگ زرگری‘‘ میں مبتلا ہوگئے۔ سیکولرازم کا سکہ کھوٹا ہوتا چلا گیا ۔ کانگریس نے اس کی کبھی فکر نہ کی بلکہ یہ غلطی بھی کی کہ اپنے اس کھوٹے سکہ کو ہمیشہ ’’سکہ رائج الوقت سمجھتی رہی۔
دوسری پارٹیوں کے سیکولرازم کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ خود کبھی ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ یو ں تو قومی رہنما مہاتما گاندھی کے قتل کے ساتھ ہی فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے وجود کی منادی کردی تھی ۔ ناتھو رام گوڈسے آر ایس ایس کے رکن تھے جنہوں نے گاندھی جی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا تھا ۔ یہ پہلا اشارہ تھا کہ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کی واحد نمائندہ تنظیم آر ایس ایس اس ملک سے جمہوریت اور سیکولرازم کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ کانگریس کو صرف اپنا اقتدار عزیز تھا ۔ اس بات پر توجہ نہیں تھی کہ ملک میں کونسی طاقتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ آج آزادی کے 67 برس بعد یہی طاقتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ ملک کے سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ا یک اور سانحہ یہ رہا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹیاں بھی رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئیں۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور تریپورہ تک سمٹی ہوئی سیکولر کمیونسٹ پارٹیاں بھی شکست و ریخت کی شکار ہوئی تھیں اور مغربی بنگال میں 30 سالہ اقتدار کے بعد جب پچھلے اسمبلی چناؤ میں مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی کو ممتا بنرجی ترنمول کانگریس نے شکست دی تو کمیونسٹوں کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوگیا۔
کمیونسٹ پارٹیوں کا زوال بھی ملک کے سیکولرازم کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ بائیں بازو کی ان طاقتوں میں اتنا دم خم تھا کہ وہ فرقہ پرستوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان کا مقابلہ کرسکتی تھیں جس کا ثبوت یہ تھا کہ 1990 ء کے دہے میں جب اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی جس سے بہت زیادہ خون خرابہ ہوا تو مغربی بنگال کے مارکسٹ چیف منسٹر آنجہانی جیوتی باسو نے کہا تھا ’’بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس کی ایک اینٹ بھی مغربی بنگال کی سرحد میں نہیں لایا جاسکتی، سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر جس قدر نقصان اس ازم کو کانگریس نے پہنچایا کسی اور جماعت نہیں پہنچایا ۔ اس دوران شمالی ہند میں علاقائی طاقتوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ لالو پرساد یادو ، ملائم سنگھ یادو اور بعد میں مایاوتی نے بہار اور اترپردیش میں اپنا سکہ جمالیا اور ان دو بڑی ریاستوں سے کانگریس کا صفایا ہوگیا ۔ اگر ابھی تک بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر اقتدار نہیں مل سکا تو اس کی وجہ ان کا دو ریاستوں میں سیکولر طاقتوں کا وجود تھا ۔ جنوبی ہندوستان میں کیرالا ، کرناٹک ، آندھراپردیش اور ٹاملناڈو میں بھی علاقائی پارٹیوں نے اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ کانگریس جنوبی ہند میں بھی اپنا لوہا منوانے کے لائق نہیں رہی، پھر بھی شمالی ہندوستان کے مقابلہ میں جنوبی ریاستوں میں کانگریس کا دھندلایا ہوا چہرہ آج بھی (ان انتخابات میں بھی) بڑی تک برقرار رہا لیکن ٹاملناڈو میں یہ صورتحال نہیں رہی ۔ اس ریاست میں تو کانگریس کا عملاً صفایا ہوچکا ہے ۔ شمالی ریاستوں میں ، اترپردیش، مدھیہ پردیش ، راجستھان، اتراکھنڈ، جھارکھنڈ میں کانگریس بی جے پی کے مقابلہ میں ’’بی ٹیم‘‘ کی طرح انتخابات لڑتی رہی جس کے نتیجہ میں آج ان ریاستوں سے بھی کانگریس کا صفایا ہوگیا ۔ کانگریس کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ملک میں اور بھی سیکولر طاقتیں ہیں، صرف کانگریس ہی ’’ٹھیکہ داری‘‘ کرتی رہی
اور کبھی اپنی کوتاہیوں پر نظر نہیں کی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس غفلت نے کانگریس کی تبا ہی ڈبو دی۔ آج 108 سالہ قدیم پارٹی صرف چند سیٹ حاصل کرتی ہے۔ جو کانگریس کیلئے باعث عبرت ہے ۔ کیا ان انتخابات کے بعد سیکولرازم ، رواداری ، مذہبی جذبات کے باہمی احترام کو ہندوستان نے خیرباد کردیا ہے ۔ کیا ملک کی تہذیب اس کا کلچر ختم ہورہا ہے، کیا ا قلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم ہونا پڑے گا۔ اندیشے تو یہی ہیں۔ اس لئے کہ ان انتخابات میں کانگریس پارٹی نے سارے ملک میں سماج کے تمام طبقات کا اعتماد متزلزل کردیا ہے ۔ شہری علاقوں کے علاوہ دیہی علاقوں تک کانگریس کا ووٹ بینک ختم ہوگیا ہے۔ کمزور طبقات، محروم طبقات میں بھی کانگریس کی مقبولیت میں ایک محتاط اندازہ کے مطابق 50 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے ۔ برخلاف اس کے متذکرہ بالا تمام طبقات میں بی جے پی کی مقبولیت میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ ہندوستان کے سماجی طبقات کی بھاری اکثریت نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے ۔ انتخابی مہم کی ابتداء ہی سے اندازہ ہورہا تھا کہ کانگریس بی جے پی سے جم کر مقابلہ نہیں کر رہی ہے ۔ میڈیا میں بھی بی جے پی نے اتنی بھاری سرمایہ کاری کی کہ کانگریس میڈیا میں بھی دوسرے درجہ کی پار ٹی بن گئی ۔ حالانکہ کانگریس کے پاس فنڈس کی کمی نہیں۔
پارٹی نائب صدر راہول گاندھی نے ساری مہم کے دوران ’’معذرت خواہی‘‘ کا رویہ اختیار کیا جبکہ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی ، جارحانہ تیور اختیار کئے تھے ۔ میڈیا پروپگنڈہ اس قدر کیا کہ آخر کار وہ کامیاب ہوگئے۔ اس سے بڑا یہ نقصان بھی ہوا کہ اب دوبارہ کانگریس کو اپنی لیڈرشپ بنانے میں کافی وقت لگے گا اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ریاستی سطح پر کانگریس پارٹی کے پاس کوئی مضبوط قیادت نہیں رہی۔ تیسری وجہ یہ رہی کہ کانگریس کا کیڈر اتنا مستعد نہیں تھا جتنا کہ بی جے پی کا تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی کے لئے جس کیڈر نے کام کیا وہ آر ایس ایس سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے نظریات میں انتہائی سخت اور غیر لچکدار ہوتا ہے ۔ اس کیڈر کی وجہ سے بھی بی جے پی اور مودی کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ اب کانگریس کیلئے اپنی تنظیم جدید کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے تنظیمی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے اور دوسری سیکولر طاقتوں کو ساتھ لیکر یا خود ان کے ساتھ ہوکر کام کرنا پڑے گا۔ ایک بات تو طئے شدہ ہے کہ تنہا کانگریس ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کانگریس کو اگر وطن عزیز کی اس کے سیکولرازم کی فکر ہے تو پھر ان ہی باتوں پر غور کرنا پڑے گا۔