وطن کی شان سے کیا اُن کو مطلب

رشیدالدین
کوئی بھی حکومت عام طور پر کسی ایک محاذ پر ناکام دکھائی دیتی ہے اور دوسرے محاذوں پر اسے گرفت ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوجائے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ داخلی اور خارجی محاذ یکساں طور پر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ داخلی سطح پر حکومت ناکام رہے تو اس کا اثر راست طورپر عوامی زندگی پر پڑتا ہے لیکن اگر خارجی سطح پر پالیسی کمزور ہو تو ملک کی داخلی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت دونوں محاذوں پر ناکام ہوچکی ہے اور اقتدار کے تین برسوںکی تکمیل سے قبل عوام کو 2014 ء کی انتخابی مہم میں دکھائے گئے تمام سبز باغ اور سنہرے خواب بکھرنے لگے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قومی صدر امیت شاہ نے کہہ دیا کہ اچھے دن کیلئے 25 سال کی مدت درکار ہے۔ کاش انتخابی مہم کے دوران اچھے دن کیلئے مدت کی صراحت کردی جاتی تو عوام بی جے پی کو اقتدار پر لانے کی غلطی کبھی نہ کرتے۔

فطرت انسانی بھی یہی ہے کہ وہ جلد اور کم مدت میں نتائج کی امید کرتا ہے اور خوش کن وعدوں کا آسانی سے شکار ہوجاتا ہے ۔ اس کمزوری کا بی جے پی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اب جبکہ ہر محاذ پر وعدوں کی تکمیل میں ناکامی ہورہی ہے تو بھوپال میں پارٹی کیڈر کو امیت شاہ نے اچھے دن کی مدت سے واقف کردیا۔ داخلی اور خارجی سطح پر عوام وعدوں کو بھولے نہیں ہے۔ نریندر مودی نے سرحدوں کی حفاظت اور پاکستان کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا تھا لیکن آج پاکستان کے ساتھ کیا رویہ ہے، عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب تو معاملہ ہی الٹ گیا۔ داخلی سطح پر مسائل کی یکسوئی میں تاخیر ہو تو عوام کچھ مدت کیلئے تکالیف برداشت کرسکتے ہیں لیکن ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو ، ایسے کسی معاملہ پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ملک کے اتحاد اور استحکام سے جڑا مسئلہ ہے۔ ہندوستان کو داخلی سلامتی سے متعلق چیلنجس کا سامنا اکثر و بیشتر پاکستان اور کبھی کبھار چین سے ہے لیکن دونوں خطرات سے نمٹنے میں نریندر مودی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ صرف اقتدار کی برقراری کیلئے ملک کی سلامتی سے سمجھوتہ ناقابل معافی جرم ہے، جو بی جے پی حکومت ملک کے ساتھ کر رہی ہے ۔ بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سرحد پار دراندازی نہیں بلکہ فوجی کیمپس پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوگیا۔

کشمیر کی صورتحال کی سنگینی دنیا پر عیاں ہے۔ 20 دن گزرنے کے باوجود وہاں حالات معمول پر آنے کا نام نہیں لیتے۔ جب کبھی کرفیو میں نرمی دی جاتی ہے تو سیکوریٹی فورسس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہورہی ہیں۔ چین جو اب تک اروناچل پردیش پر اپنا حق جتاتے ہوئے اس کے علاقہ کو گھر آنگن کی طرح استعمال کر رہا تھا، اب اس نے اتراکھنڈ کے علاقہ میں بھی دراندازی شروع کی ہے۔ ایسے وقت اور خاص طور پر کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کے رویہ میں عدم تبدیلی کے باوجود وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ آئندہ ہفتہ 3 اگست کو پاکستان جارہے ہیں ۔ سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے وہ داخلی سلامتی کا جائزہ لیں گے۔ حیرت اور مضحکہ خیز پہلو راجناتھ سنگھ کے دورہ کا یہ ہے کہ چند دن قبل کشمیر میں راجناتھ سنگھ نے موجودہ صورتحال کے لئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور پارلیمنٹ میں بھی بیان دیا لیکن اب اسی ملک کے دورہ پر جانے کی تیاری میں ہیں۔ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان نے واضح کردیا کہ ہندوستان سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر راجناتھ سنگھ اسلام آباد میں پاکستانی عہدیداروں سے کیا موسم کی تبدیلی پر بات کریں گے؟ سارک کا وجود ہندوستان اور پاکستان کے بغیر ادھورا ہے اور تمام رکن ممالک کی داخلی سلامتی کا انحصار ان دونوں پر ہے۔ راجناتھ سنگھ ایسے ملک میں اور ایسے ملک سے داخلی سلامتی پر بات چیت کیلئے جارہے ہیں جو خود کشمیر میں بدامنی کیلئے ذمہ دار مانا جاتا ہے ۔ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ سفارتی غلطی نہیں تو اور کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہان مملکت کے سمٹ میں اپنی شرکت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے جگری دوست نواز شریف سے ملاقات کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ اس بہانے نواز شریف کی قلب کی سرجری کے بعد ان کی عیادت بھی ہوجائے گی ۔ نواز شریف نے آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل نریندر مودی کو فون کرتے ہوئے دعائیں لی تھیں، جس کا انہیں مودی سے شکریہ بھی ادا کرنا ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ غیر شادی شدہ افراد کی دعا جلد قبول ہوتی ہے اور مودی ابھی تک غیر شادی شدہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نومبر کے دورہ کے بہانے اسلام آباد اور پاکستان کے تفریحی مقام مری کی بھی سیر و تفریح کا مودی کو موقع مل جائے گا۔

قلب کی سرجری کے بعد کیا واقعی نواز شریف کا دل ہندوستان اور نریندر مودی کے بارے میں نرم ہوا ہے، اس کا اندازہ راجناتھ سنگھ کے دورہ کے موقع پر ہوجائے گا۔ نواز شریف بھلے ہی مودی کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن کشمیر کے بارے میں ان کے موقف میں اور بھی سختی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ نریندر مودی کہاں ہے جنہوں نے انتخابات سے قبل منموہن سنگھ حکومت سے کہا تھا کہ پاکستان کو ’’لو لیٹر‘‘ لکھنا بند کریں ۔ دراندازی اور حملوں کے اس قدر واقعات کے باوجود ایک بھی موقع پر مودی سرکار نے پاکستان کی زبان میں جواب نہیں دیا۔ برخلاف اس کے نواز شریف نے ایسا کیا جادو کردیا کہ مودی ان کے وارے  نیارے ہورہے ہیں۔ پٹھان کوٹ حملہ کے بعد جبکہ قوم میں غم و غصہ کی لہر تھی ، مودی اپنے دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکت کیلئے بن بلائے مہمان اچانک لاہور پہنچ گئے۔ مودی کے اس اقدام سے ان جوانوں کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی جنہوں نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی۔ کشمیر میں دراندازی، دہشت گرد کارروائیوں اور وادی میں صورتحال بگاڑنے کے خلاف ہندوستان کو احتجاج درج کرانے کا یہ سنہری موقع تھا۔ دنیا بھر کے سامنے پاکستان کی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا جاسکتا تھا۔ سابق میں ہندوستان نے معتمدین خارجہ کے مذاکرات سے خود کو صرف اس لئے علحدہ کرلیا تھا کہ مذاکرات سے قبل پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت قائدین کو ڈنر دیا تھا۔ صرف حریت قائدین سے ملاقات پر مذاکرات سے دوری لیکن اب سنگین صورتحال کے باوجود راج ناتھ سنگھ کا دورہ برقرار ہے جبکہ اجمل قصاب کی طرح ایک اور درانداز کو کشمیر میں فوج نے زندہ پکڑا ہے جو پاکستان کی کارستانیوں کا زندہ گواہ ہے۔ دہشت گردی، دراندازی اور پاکستان کے ساتھ نرم رویہ پر نریندر مودی قوم کو جواب دیں۔ وہ عوام سے من کی بات تو کرتے ہیں لیکن کشمیر ان کے من میں ابھی تک نہیں سما سکا۔ پاکستان ، کشمیر حتیٰ کہ چین کی دراندازی پر مودی خاموش ہیں۔

راجناتھ سنگھ کا مجوزہ دورہ پاکستان دراصل پٹھان کوٹ حملہ کے بعد کسی ہندوستانی اہم شخصیت کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار مختلف مواقع پر مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیتا رہا ہے لیکن آج ان کے تربیت یافتہ بی جے پی قائدین ہی پاکستان کا بار بار دورہ کر رہے ہیں۔ سنگھ کے قائدین اب خود اس بات کو طئے کریں کہ دیش بھکت کون ہے ؟ سنگھ پریوار اور بی جے پی ہمیشہ ہندوستان کے وقار کی بات کرتی ہے لیکن پاکستان سے دوستی پر وہ قوم کو کیا جواب دے گی۔ دراندازی کے واقعات کے باوجود راجناتھ سنگھ کا مجوزہ دورہ پاکستان کیا ہندوستان کی شان اور مرتبہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ اس کا فیصلہ عوام کریںگے ۔ راجناتھ سنگھ کو پاکستان سے قبل اتراکھنڈ کا دورہ کرنا چاہئے جہاں چینی افواج نے نیا چیلنج پیدا کیا۔ جس طرح اروناچل پردیش میں چین کی دراندازی عام ہے، اب اتراکھنڈ نیا ٹارگیٹ دکھائی دے رہاہے ۔ وزیر دفاع نے چینی دراندازی کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے استدلال پیش کیا کہ یہ دراندازی نہیں بلکہ سرحد کی خلاف ورزی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ دراندازی اور سرحد کی خلاف ورزی میں کیا فرق ہے؟ ہندوستان کا کہنا ہے کہ چینی افواج کو جب یہ بتایا گیا کہ یہ ہندوستانی علاقہ ہے تو وہ واپس ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کی سرحد ہے یا پھر کسی زمین کی غیر مجاز پلاٹنگ؟ چین نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی پریڈ اور مشقوں کا بھی اہتمام کیا ہے۔ چین سے ہندوستان کی مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی فوج کو ہندوستانی چوکیوں تک آنے کی اجازت دی جاتی ہے

لیکن یہی دراندازی کشمیر میں ہو تو صرف شبہ کی بنیاد پر فائرنگ کردی جاتی ہے۔ اگر ہندوستان کا بس چلے تو چینی فوجیوں کو گلدستے دیکر واپس کریں گے۔ آخر ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کیوں ؟ خود کو سردار پٹیل کی طرح اپنے وقت کا مرد آہن قرار دینے والے نریندر مودی نے اپنی لفاظی اور ڈائیلاگ ڈلیوری سے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کو بھی نہیں چھوڑا ۔ راشٹرپتی بھون کی ایک تقریب میں مودی نے پرنب مکرجی کو اپنا سرپرست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی مسائل پر پرنب مکرجی نے انگلی پکڑکر ان کی رہنمائی کی۔ مودی کے یہ الفاظ محض محفل میں منہ دیکھی بات کرنا اور خوشامد پسندی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر مودی فلم انڈسٹری میں ہوتے تو مکالمہ نگاری میں انہیں آسکر ایوارڈ بھی مل سکتا تھا ۔ صدر جمہوریہ کی جانب سے اہم مسائل میں رہنمائی سے متعلق بیان پر کئی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ کیا مودی نے آج تک جو بھی کام کئے وہ صدر جمہوریہ کی منظوری سے کئے گئے۔ جمہوریت میں وزیراعظم کا انحصار صدر جمہوریہ پر نہیں ہوتا۔ مودی کوئی ’’امول بے بی‘‘ تو نہیں کہ انگلی پکڑ کر چلانا پڑے ۔ ویسے مودی کو اہم مسائل پر انگلی پکڑ کر اگر کسی نے چلایا ہے تو وہ سنگھ پریوار ہوسکتا ہے۔ شاید مودی الفاظ کی ادائیگی کے وقت راشٹرپتی بھون کے بجائے کوئی اور مقام سمجھ بیٹھے۔ الفاظ کی ادائیگی کے وقت ان کے پیش نظر کوئی اور رہے ہوں گے۔ یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو مرکز نے لاء کمیشن سے رجوع کیا۔ کیا یہ صدر جمہوریہ کے مشورہ سے تھا؟ پرنب مکرجی کٹر سیکولر نظریات کے حامل ہیں اور ملک میں عدم رواداری کی لہر کے خلاف سب سے پہلے انہوں نے بحیثیت صدر جمہوریہ آواز اٹھائی تھی۔ پرنب مکرجی نے کب انگلی پکڑ کر مسائل پر رہنمائی کی ، اس کی حقیقت تو عہدہ سے سبکدوشی کے بعد سامنے آئے گی جب وہ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں مودی حکومت کے حقائق منظر عام پرلائیں گے۔ حیدر علوی نے کیا خوب کہا ہے  ؎
وطن کی شان سے کیا اُن کو مطلب
اُنہیں دِکھتی وطن کی شان کب ہے