وطن کو بیچنے والے ثبوت مانگتے ہیں

رشیدالدین

7 نریندر مودی… ترقی سے فرقہ پرست ایجنڈہ تک
7 مسلمان پاکستان کیوں جائیں…اڈوانی کیوں نہیں ؟

ملک میں عام انتخابات کی رائے دہی کے فیصلہ کن مرحلہ میں بی جے پی کے چہرہ سے نقاب اترنے لگی ہے۔ ترقی کے گجرات ماڈل کے نام پر انتخابی مہم کا آغاز کرنے والی بی جے پی نے فیصلہ کن مرحلہ میں جارحانہ فرقہ پرستی کی لائن اختیار کرلی۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گجرات سے شروع ہوا ترقی کا سفر ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر تھم گیا ۔ ترقی کے نام پر شروع کی گئی انتخابی مہم کی تان ناگپور پہنچ کر ٹوٹ گئی۔ ملک میں عام انتخابات کی رائے دہی کے پانچ مرحلے مکمل ہوچکے ہیں اور چھٹویں مرحلہ سے عین قبل بی جے پی اور سنگھ پریوار کی زہر افشانی کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی پانچ مراحل کی رائے دہی کے رجحان سے مایوس ہے۔ لہذا آخری مراحل میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو اختیار کرلیا گیا تاکہ رائے دہی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیا جائے۔ بی جے پی نے مرکز میں تشکیل حکومت کیلئے 272 نشستوں کا جو نشانہ مقرر کیا ہے اس کی تکمیل کے آثار کم ہیں۔ حالانکہ نریندر مودی نے اپنی شبیہ سدھارنے کیلئے ترقی کو اہم انتخابی موضوع بنایا۔ اتنا ہی نہیں خود کو سیکولر ظاہر کرنے مسلم اقلیت کی پسماندگی پر مگرمچھ کے آنسو بہائے تاکہ بھولے بھالے اقلیتی رائے دہندے ان کے دام فریب میں گرفتار ہوجائیں ۔ پانچ مرحلوں میں 232 لوک سبھا حلقوں کیلئے رائے دہی مکمل ہوگئی اور چھٹے مرحلہ کے تحت 24 اپریل کو مزید 117 حلقوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ رائے دہندوں نے ووٹنگ مشینوں میں بند کردیا۔ پانچ مرحلوں کی رائے دہی کی تکمیل اور چھٹے مرحلہ سے عین قبل بی جے پی اور سنگھ پریوار قائدین کی اشتعال انگیزی محض اتفاق نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ منصوبہ بند سازش کا حصہ دکھائی دے رہی ہے۔ گجرات کے ترقی کے ماڈل پر ناگپور کا زعفرانی رنگ کا چھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ کل تک کسی بھی جماعت کی تائید کے بغیر تشکیل حکومت کا دعویٰ کرنے والے بی جے پی قائدین کا لہجہ نرم پڑ چکا ہے۔ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے والے نریندر مودی جن کے تیور کل تک جارحانہ تھے، اور میڈیا سے ملاقات کو کسر شان سمجھتے تھے۔ آج چینلس اور اخبارات کو بلا بلا کر انٹرویو دے رہے ہیں تاکہ عوام میں اعتدال پسند قائد کی حیثیت سے شناخت بنے۔ آخر اس تبدیلی کا راز کیا ہے ؟ اگرچہ الیکشن کمیشن نے اگزٹ پول پر آخری مرحلہ کی رائے دہی تک پابندی لگادی ہے لیکن میڈیا گھرانوں نے ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کو کمزور مظاہرہ کی رپورٹ حوالہ کردی۔ بی جے پی نے جب یہ محسوس کرلیا کہ ترقی کا نعرہ اسے اقتدار تک نہیں پہنچاسکتا

تو اس نے جارحانہ فرقہ پرستی کے اصل ایجنڈہ کو تازہ کرنے پراوین توگاڑیہ ، گری راج سنگھ، امیت شاہ اور شیوسینا قائد رام داس کدم کو میدان میں اتارا۔ ان حالات میں نریندر مودی کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ تلنگانہ میں انتخابی مہم کے دوران مودی نے سقوط حیدرآباد اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جانب سے آپریشن پولو کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص زخم دینے کا ماہر ہو اس کے لئے زخموں کو کریدنا معمولی بات ہے۔ مودی نے ریاست حیدرآباد اور مملکت آصفیہ کے انڈین یونین میں انضمام کا سہرا سردار پٹیل کے سر باندھتے ہوئے ریمارک کیا کہ اگر سردار پٹیل نہ ہوتے تو حیدرآباد میں قدم رکھنے ویزا کی ضرورت پڑتی۔ آخر سردار پٹیل سے مودی کا کیا تعلق ؟ کیا مودی ان کے وارث ہیں ؟ جو کہ ہمیشہ خود کو وقت کے سردار پٹیل کی حیثیت سے پراجکٹ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی انتخابی مہم کے سلسلہ میں جموں و کشمیر بھی گئے تھے لیکن انہوں نے وہاں اس طرح کا جملہ ادا کرنے کی ہمت نہیں کی۔ حالانکہ وہاں کی صورتحال بھی حیدرآباد کے مماثل تھی۔ کشمیر کے راجہ ہندو تھے اور وہ بھی انڈین یونین میں انضمام کیلئے تیار نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی راجہ نہیں چاہے گا کہ اس کی انفرادیت ختم کرتے ہوئے تخت و تاج چھین لیا جائے ۔ ان کی سوچ میں کوئی برائی نہیں لیکن صرف نظام دکن کا حوالہ دینا مودی کی فرقہ پرست ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے۔ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کو ملک دشمن کی حیثیت سے پیش کرنے والے دراصل انڈین یونین پر ان کے احسانات کو بھول گئے ۔ اگر نریندر مودی حب الوطن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو نظام حیدرآباد ان سے زیادہ محب وطن تھے۔ اگر وہ ملک دشمن ہوتے تو انضمام کے بعد انہیں راج پرمکھ کے اعزاز سے کیوں نوازا گیا ؟ مودی کے ریمارک کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ہندو ووٹ متحد کرنا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ 2014 ء عام انتخابات نے اس سلسلہ میں تاریخ رقم کی ہے۔ 2009 ء انتخابات میں اس طرح کی 33 شکایات درج کی گئی تھیں لیکن 2014 ء انتخابات میں ابھی تک الیکشن کمیشن کو 124 شکایات ملی ہیں اور ریکارڈ تعداد میں قائدین کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے۔

وشوا ہندو پریشد کے پراوین توگاڑیہ نے ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو جائیدادیں خریدنے سے روکنے کا ہندوؤں کو مشورہ دیا۔ بی جے پی قائد گری راج سنگھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی کے مخالفین کو پاکستان منتقل ہوجانا چاہئے ۔ ان کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔ بی جے پی نے دونوں بیانات سے بظاہر دوری اختیار کرنے کی کوشش کی جو کہ اس کی مجبوری ہے ورنہ الیکشن کمیشن کی کارروائی کی زد میں بی جے پی بھی آجاتی۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ان دونوں قائدین کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا ہے ۔ نریندر مودی نے قائدین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن وہ تلنگانہ میں سلطنت آصفیہ کے خلاف اپنے ریمارک پر کیا کہیں گے ؟ دوسروں کو اشتعال انگیزی سے بچنے کا مشورہ دینے والے نریندر مودی اس وقت کیوں خاموش تھے جب ان کی موجودگی میں شیوسینا لیڈر رام داس کدم نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ۔ کدم نے کہا کہ مودی برسر اقتدار آنے پر ان مسلمانوں کو نہیں بخشیں گے جنہوں نے 2012 ء میں ممبئی کے آزاد میدان پر احتجاج کیا تھا۔ مودی نے شیوسینا لیڈر کو اسٹیج پر کیوں نہیں روکا ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیوسینا نے بھی اپنے لیڈر کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ اشتعال انگیز بیانات کی حوصلہ افزائی اور پھر لاتعلقی محض دکھاوا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ گری راج سنگھ کو کیا یہ بتانا پڑے گا کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سیکولر ہندوؤں کی اکثریت بھی مودی کی مخالف ہے۔ مودی کی مخالفت کو پاکستان سے جوڑنا از خود مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی شر انگیزی ہے۔

مودی کی مخالفت کے ساتھ پاکستان کو جوڑنے کا جہاں تک سوال ہے پاکستان نے آج تک نریندر مودی کو ویزا دینے سے انکار نہیں کیا، حالانکہ وہ ایک مسلم مملکت ہے اور مودی گجرات میں 3500 سے زائد بے قصور مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ برخلاف اس کے پاکستانی چیمبر آف کامرس نے گجرات ترقی کے ماڈل کے پروپگنڈہ سے متاثر ہوکر مودی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ گجرات فسادات کے مسئلہ پر مودی کو ویزا دینے سے انکار تو امریکہ نے کیا ہے اور آج بھی وہ اپنی پالیسی پر قائم ہے۔ گری راج سنگھ کو کہنا یہ چاہئے تھا کہ مودی کے مخالفین کو امریکہ چلے جانا چاہئے ۔ چونکہ گری راج سنگھ کے نشانہ پر مسلمان ہیں اسی لئے پاکستان کا نام لیا گیا۔ کیا گری راج سنگھ کو پاکستان نے ہندوستانیوں کیلئے ویزا جاری کرنے کی اتھاریٹی دیدی ہے، جس کی بنیاد پر وہ اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں اور اس پر قائم بھی ہیں۔ اگر واقعی مودی کے مخالفین کو ہندوستان سے جانا پڑے تو پاکستان نہیں بلکہ خود ہندوستان میں ایک علحدہ مملکت وجود میں آسکتی ہے جس کی آبادی تقریباً 80 تا 90 کروڑ ہوگی۔ جہاں تک مودی کی مخالفت کا سوال ہے ، ملک کے دستور اور قانون نے ہر شہری کو اظہار خیال کی آزادی دی ہے۔ مودی گجرات کے چیف منسٹر کے ساتھ ملک کے ایک عام شہری ہیں اور وہ تنقید سے بالاتر نہیں۔ قانون کے مطابق ملک، دستور اور دستوری سربراہ صدر جمہوریہ پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔

اس کے برخلاف وزیراعظم سے لیکر ’’چوکیدار‘‘ تک کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں۔ گری راج سنگھ کا بیان نفرت انگیز تقاریر میں اب تک کا سنگین معاملہ ہے۔ لہذا صرف ان پر مقدمہ کافی نہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ایسے افراد کو انتخابات لڑنے کے نااہل قرار دیں۔ مودی کے مخالفین کو پاکستان منتقل کرنے کی بات کرنے والے گری راج سنگھ کو چاہئے کہ مسلمانوں سے پہلے اپنی پارٹی کے سینئر قائد ایل کے اڈوانی کو پاکستان بھیج دیں کیونکہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ شدت کے ساتھ اڈوانی نے مودی کی مخالفت کی ہے ۔ مودی کی مخالفت بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں بھی کچھ کم نہیں۔ ایل کے اڈوانی نے ایک سے زائد مرتبہ مودی کے خلاف آواز اٹھائی، اس اعتبار سے سب سے پہلے پاکستان منتقلی کے حقدار اڈوانی ہوں گے، ویسے بھی پاکستان ان کا آبائی مقام ہے۔ جسونت سنگھ ، مرلی منوہر جوشی کے علاوہ اور بھی سینئر قائدین مودی کے مخالفین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ کیا گری راج سنگھ ان قائدین کو بھی پاکستان منتقل کردیں گے۔ لاہور کا راستہ مسلمانوں سے زیادہ اٹل بہاری واجپائی جانتے ہیں، جنہوں نے لاہور تک نہ صرف سفر کیا بلکہ باقاعدہ بس سرویس شروع کی۔ خود کو سردار پٹیل کا وارث اور مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے مودی اور ان کے ساتھی شاید تاریخ سے واقف نہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ قیام پاکستان کو قبول کرنے والی اولین شخصیتوں میں سردار پٹیل شامل تھے جبکہ مسلمانوں کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے آخری سانس تک تقسیم ہند کو قبول نہیں کیا۔ ایسے وطن پرست قائدین کی پیروی کرنے والے مسلمانوں پر انگشت نمائی شرمناک ہے۔ اب گری راج سنگھ اور ان کے حامی خود یہ طئے کرلیں کہ کسے ہندوستان میں رہنا ہے اور کسے پاکستان منتقل کیا جائے ؟ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم اہل دل سے ہماری وطن پرستی کا
وطن کو بیچنے والے ثبوت مانگتے ہیں