غضنفر علی خان
انسانی حقوق کی آزادی، مذہب عقیدہ تمدن کی ساری تاریخ میں اپنی ثابت قدمی، اپنے عقل و دانش کے اعتبار سے ہمارا ملک منفرد مقام رکھتا ہے۔ کے میل ملاپ کی تاریخ میں ہر ذی شعور جانتا ہیکہ ہندوستان کو مغلوں نے ایک عظیم ملک بنادیا اور جو اس حقیقت کو جانتا نہیں وہ ہندوستان کی صدیوں قدیم تاریخ سے ناواقف ہے۔ یہ بھی ایک عجیب دور ہیکہ کچھ ناعاقبت اندیش عناصر ہندوستان کی صد رنگی کو ختم کرکے اس کو بے رنگ و بو ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی اور کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے ہندوتوا یا ہندو دھرم پر چلنے والی ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں بے روح قسم کی جمہوریت کے ذریعہ ہندو دھرم کی ہمارے ملک پر چھاپ لگے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ قدیم تاریخ کو سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کسی طرح آج عارضی طور پر انہیں اقتدار بھی مل گیا ہے کیا ہندوستان کی تہذیب اور مذہبی رواداری کو یہ چند افراد بدل سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب کی حکمرانی ہو ۔ کچھ لوگ صدیوں قدم ملک میں ساری تاریخ کو فراموش کرکے اس کی تکثیریت کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ آیا وہ کبھی کامیاب ہوئے ہیں۔ آئندہ کوئی نئی ہسٹری لکھنا چاہتے ہیں۔ صرف 70 سال کی حکمرانی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس منصوبہ کو اجاگر کردیا گیا۔ تاریخ ایک ایک صفحہ پر ان کا ذکر ملتا ہے۔ ہندوستان میں دھرم کے اساس پر حکمرانی نہیں ہوسکتی۔ اس کیلئے صدیوں کی جدوجہد ساتھ ہونی پڑتی ہے۔ ایک نظریہ چل پڑا ہے مختلف گوشوں سے یہ کہ بی جے پی کا دعویٰ کہ سینکڑوں برس تمام باتیں اب سمجھ میں آرہی ہیں۔ مغل جب ناکام ہوئے تو انگریزوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور حکومت چلاتے رہے۔ یہ ظلم و استبداد کی آخری کڑی تھی۔ قومی رہنما گاندھی جی نے گذشتہ ہندوستان کی آزادی کا نعرہ دیا تھا لیکن گاندھی جی نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہندوستان ایک ایسا ہندو دھرم پر چلنے والا ملک ہوگا۔ گاندھی جی کے دل و دماغ میں کبھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہندو مذہب کو اس ملک میں فوقیت حاصل ہوگی۔ گاندھی جی کا ساتھ آزادی کے لئے کام کرنے والوں میں ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو گاندھی جی کے خیال کو بہتر انداز میں سمجھا۔ 15 اگست 1947ء میں انہوں نے اس کشمکش کو اس نئی راہ سے واقف کرایا جس میں تمام مذاہب، عقیدہ کو ایک ہی وطن میں ساتھ مل جل کر ترقی پر چلنا پڑے گا۔ یہاں پر بھی کسی رہنما نے ہندوستان کوایک آزاد اور خودمختار ملک کی طرح آگے بڑھنے کے عمل کو مستحکم کیا۔ یہ ساری دنیا جانتی ہیکہ آج دھرم کے نام پر ہندوتوا کا راگ الاپنے والوں کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ آج ہندوتوا کو ایک طاقتور تحریک کی شکل دینے والے تمام فرقہ پرست طاقتوں نے تحریک آزادی میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ یہی خود ساختہ وطن دشمن لوگ تھے جو رات اندھیروں میں اپنے برطانوی آقاؤں کا ساتھ دے رہے تھے۔ اگر آج بھی وزیراعظم یا بی جے پی کا کوئی لیڈر کوئی ایک نام بتا سکتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ کوئی لیڈر تحریک آزادی میں حصہ لیا ہو۔ یہ سب انگریزوں کو ہی اس ملک کا اصل حاکم سمجھ رہے تھے کیوں بی جے پی کا یا ہندوتوا کا یہ نہیں کہتا کہ ہم نے بھی انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی۔ یہ تمام باتیں اب سے صرف 72 سال کی ہیں۔ تحریک آزادی میں ہر ہندوستانی مسلمانوں، ہندو، سکھ، پارسی اپنی جانیں قربان کردیں۔ بے حد و حساب انگریز کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے اور اپنے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال کر آزادی کیلئے کام کیا۔
اس لحاظ سے سبھی انتہاء پسند فرقہ پرستوں نے انگریزوں کے لئے کام کیا۔ اقتدار پر آنے کے بعد مسلمانوں کی ان تمام قربانیوں کو فراموش کردیا حالانکہ تحریک آزادی میں بڑا رول مسلمانوں ہی کا تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اب تو مسلمان کا نام لیتے ہوئے بڑی کراہت سے مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر ان لیڈروں بشمول نریندر مودی کبھی نام بھی لیتے ہیں تو منہ بگاڑ کر لیتے ہیں۔ حکومت میں مسلمانوں کو حصہ دار بنانے سے انکار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی تحریک آزادی میں حصہ لینے کی بات تک نہیں کرتے ہیں۔ ان عناصر کی نظر میں مسلمان آزادی کے بعد اب دوسرے درجہ کے شہری ہیں حالانکہ وہ سیاسی لیڈر جو تحریک میں حصہ لیا اور جو غیرمسلم تھے آزادی کے لئے بہت کچھ کھودیا۔ اس مسلم دشمنی میں وہ اپنی حد کو پہنچ چکے ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور نہ جن کے لوگوں میں آزادی کی تمنا خون بن کر ابھرتی ہے انہیں تو سب کچھ گاندھی جی، نہرو، مولانا آزاد کا شکرگذار ہونا چاہئے تھا کہ ان قدیم لیکن قربان کردینے والوں کی بدولت ملک کی آزادی ملی ہے۔ مسلمانوں نے تو وطن عزیز کیلئے اپنی جانیں قربان کردی۔ ریشمی رومال جیسی تحریک چلائی۔ علم و فن کی درسگاہوں میںچھپ کر نہیں بیٹھے تھے۔ میدان عمل میں اتر آئے تھے۔ دورحاضر کے بعض مورخین کا تو یہ بھی کہنا ہیکہ جدوجہد آزادی میں نئی جان ڈالنے اور کو تااختتام باقی رکھنے کا کام تو ہندوستانی مسلمانوں نے کیا۔ آج ان کے شہری حقوق تک ختم کردینے کا بھی موجودہ حکومت نے طئے کرلیا ہے۔ آزادی جیسی نعمت کی قدردانی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو ناکارہ اور بیکار سمجھنے لگے ہیں۔ ان مسلمانوں کو معمولی سرکاری یا نجی شعبہ میں تک کام کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ وہ بے یار و مددگار سمجھا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کے بعد ہر شعبہ میں مسلمان کو مساوی حقوق ملنے چاہئے تھے۔ مسلمانوں سے یہ بغض و عداوت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اپنے ملک کی فوج میں بھی انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔ وقت کا تقاضہ ہیکہ ایک اقلیت ہونے کے ناطے ہر شعبہ میں ان کو اس اعتماد سے شامل کرنا چاہئے کہ یہ کبھی مخالف حکومت کام انجام نہیں دیں گے۔ فوج میں سکھ اقلیت کو شامل رکھا جاسکتا ہے تو پھر اہم شعبے میں عزت و توقیر سے مسلمان کو شامل کرکے حکومت کو اپنے تعلق سے بدگمانیوں کو دور کرنا چاہئے۔