غضنفر علی خاں
جسکی جماعت اور نظریات میں زہر افشانی ہوتی ہے وہ کبھی اس کے اظہار کی توقع نہیں کرتے۔ ابھی کچھ دنوں قبل کی بات ہے کہ وشوا ہندو پریشد وی ایچ پی کے سینئر لیڈر ہنس دیواچاریہ نے سری نگر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بابری مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں یا اس کے لئے کوشاں ہیں وہ ملک چھوڑ کرچلے جائیں ۔ ہنس دیواچاریہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی حمایت میں بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے صدر ہیں ۔ انہوں نے اپنی اس انتہائی دل آزار تقریر میں ہندو بھائیوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ہر ہندو کو 5 بچے پیدا کرنا چاہیئے اور یہ کہ ہر بچے کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمادیں۔ ملک میں قتل و غارت گری کا بازار کرنے کی ہنس دیواچاریہ جی یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ کسی لیڈر کی زبان سے ایسے الفاظ کا نکلنا کتنا سنگین جرم ہے۔ اگر ان دنوں مرکز میں بی جے پی کی حکومت نہ ہوتی تو ان کے خلاف غداری اور سازش کرنے کے جرم میں انہیں گرفتار کرتی اور قانون کے مطابق سزا دیتی۔ لیکن ابھی صورتحال ایسی ہے کہ مرکز کی مودی حکومت خود جو کچھ کہنا چاہتی ہے وہ ہنس دیوچاریہ جیسے غیر ذمہ دارلیڈروں کی زبان سے کہلواتی ہے۔ اب ایسے لیڈروں کو بھلا قانون اور سزا کا کیا ڈررہ جاتا ہے۔ کیونکہ اس قماش کے لیڈر تو سمجھتے ہییں کہ انہیں حکومت کی تائید حاصل ہے۔سیاں بھی کوتوال ہمیں ڈر کاہے کا، جیسی صورتحال ہے۔ ہندو بھائی کتنے بچے پیدا کرے یہ ان کا اختیار تمیزی ہے اور پھر یہ بے حد غیر قانونی مشورہ دینا کہ بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تمھادیں تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ ایسی غیر ذمہ دار تقریرکوئی ملک دشمن ہی کرسکتا ہے۔ خود مودی جی کی بات لیجئے ان کا خصوصی نعرہ ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ ہے۔ اگر کسی ملک کی اکثریتی آبادی کا کوئی لیڈر اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دینے کی بات کہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا باغیانہ خیال ہوسکتا ہے۔ اچاریہ تو سری نگر میں دھرم سبھا میں زہر اگل کر چلے گئے لیکن اگر فی الواقعی اکثریتی طبقہ کی کثیر آبادی میں صرف 2فیصد لوگ بھی ان کی رائے سے اتفاق کریں تو سوچئے کہ ملک کے حالات کیا ہوںگے۔بابری مسجد کی اسی مقام پر تعمیر کے مسلمان ہی نہیں بلکہ جمہور یت اور سیکولرازم پر ایقان رکھنے والے لاکھوں کروڑوںغیر مسلم بھائی بھی شامل ہیں۔کیونکہ ان کی اس تقریر کا مطلب یہ لیا جائے کہ ملک کی آبادی کی ایک قابل لحاظ تعداد بھٹکا رہے ہیں۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ہندوستانی مسلمانوں نے واضح موقف اختیار کیا ہے مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے اور بورڈ نے کئی مرتبہ واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کو مسلمان تسلیم کریں گے اوراب بات کورٹ کے فیصلہ پر منحصر ہے۔ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہی وشوا ہندو پریشد نے خودکو عدالت سے بالاتر سمجھ رکھا ہے اور با الفاظ دیگر وہ سمجھتی ہے کہ فیصلہ مندر کی تعمیر کے حق میں ہوگا یا وشوا ہندو پریشد اور اس جیسی تنظیمیں ہیں جن کو بی جے پی حکومت اور آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل ہے وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا عدلیہ کچھ نہیں گاڑ سکتا۔ یہ رویہ اگر صاف طور پر باغیانہ نہیں ہے اور ہندوستانی قوم میں پھوٹ ڈالنے کے مصداق نہیں ہے تو اور کیا چیز بغاوت پیدا کرتی ہے لیکن حکومت نے ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور نہ حکومت (مرکزی ) کبھی کوئی نوٹس لے گی۔ ایسے وطن دشمن عناصر بار بار زہر افشانی کرتے رہیں اور ملک میں نظم و نسق کی حالت ابتر ہوتی جائے گی ۔ مرکزی وزیر داخلہ نے بھی ہنس دیواچاریہ کی تقریر کا کوئی نوٹ نہیں لیا اور وشوا ہندو پریشد نے یہ سمجھ لیا کہ کچھ بھی کہنے کی اس کو آزادی ہے اور اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ قانونی حکومت ہوتی تو فورا اس زہریلی تقریر کے بعد انہیں گرفتار کرلیتی۔ ایسے لوگوں کو جو کھلی چھوٹ بی جے پی کے دور حکومت میں مل رہی ہے وہ آئندہ سارے ملک کے لئے ایک ٹائم بم جیسی ہے، انہیں لگام دی جانی چاہیئے۔ کسی مسلمان نے اگر نفرت انگیز تقریر کی تو اس کو قانون کے تحت فوری گرفتار کیا جاتا اور چند ہی دنوں میں سزا بھی دی جاتی۔ قانون شکنی کوئی بھی کرے سب کے ساتھ ایک ہی سلوک کیا جانا چاہیئے۔ایک گروپ کو کھلی چھوٹ اور دوسرے گروپ پر قانونی شکنجہ کسنے کا عمل غیر جمہوری ہے کیونکہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ کوئی بھی ہو اگر وہ عوام میں نفرت پھیلائے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے۔ بابری مسجد کی اسی جگہ پر تعمیر کرنے کا مطالبہ جو مسلمان اور معقولیت پسند دیگر ابنائے وطن کرتے ہیں ان کو ملک چھوڑکر چلے جانے کا مشورہ کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ان کی فکر کی آزادی اور مذہبی تحمل پسندی، باہمی الزام کا حامل ہے۔
ابھی بھی موقع ہے کہ مرکزی حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو اور ملک کی دن بہ دن بگڑتی ہوئی حالت پر سنجیدگی سے غور کرے ۔ اگر اس وقت چند ایک فرقہ پرست ہندو تنظیمیں زہر اگل رہی ہیں تو ان کے خلاف قانون قانونی کارروائی کرے اور یہ کسی ایک پارٹی کی ذمہ داری نہیں، ہر سیاسی پارٹی کو ملک کے اتحاد و یکجہتی برقرار رکھنے کیلئے ایسی تمام نتظیموں کے خلاف صف آرا ہونا چاہیئے۔بی جے پی کو بھی ہوش کے ناخون لینا چاہیئے کہ کس طرح فرقہ پرست طاقتیں من مانی کررہی ہیں، جو چاہے کہہ رہی ہیں۔ اس ملک میں اگر قانونی حکمرانی برقرار رکھنی ہو تو پھر قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کیاجانا چاہیئے۔ ایسے عناصر کو یہ سبق سکھایا جائے کہ قانون سے کھلواڑ کی سزا انہیں بہر حال ملے گی۔ اگر مسلم تنظمیں کوئی ایسا عمل کرتی ہیں تو ان کو بھی قانون کے تحت سزا ملنی چاہیئے لیکن ایسا نہیں ہوگا نفرت کی سیاست مسلم طبقہ نے کبھی نہیں کی ۔ اس لئے زعم سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر یکا دکا کسی غیر شریف مسلم لیڈر نے نفرت انگیز سیاست کی یا ایسی باغیانہ تقریر کی کہ اپنی نئی نسلوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی ہے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ مسلمان امن پسند شہری ہیں،انہیں خون خرابہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اگر نفرت پر مبنی سیاست کا سلسلہ جاری رہے تو مسلمان دیگر امن دوست اکثریتی طبقہ کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزما ہوجائے گا۔کیونکہ ملک کی پُرامن فضاء ہر ہندوستانی کی ضرورت ہے۔ہماری ہر سانس اسی دعاپر ختم ہوتی ہے کہ اللہ کی زمین پر فتنہ و فساد پیدا کرنے والوں کویہ توفیق عطا فرما کہ وہ راہ راست پر آجائیں ۔ ایسی دعا کرنے والے کبھی اللہ کی زمین پر فساد نہیں پھیلاسکتے ۔ دونوں طبقات کو فکر صحیح سے کام لیتے ہوئے ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے دل و جان سے تیار رہنا چاہیئے۔