وزیراعظم مودی کو آرٹیکل 370 کی وضاحت کے بعد بی جے پی خاموش

سرینگر، 8 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) ممتاز قانون داں رام جیٹھ ملانی نے آج کہا کہ آرٹیکل 370 جو جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دیتا ہے، دستور ہند کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے، جسے ’’کوئی بھی نہیں چھیڑ سکتا‘‘ اور دعویٰ کیا کہ بی جے پی اب اس بارے میں ’’خاموش‘‘ ہوگئی ہے کیونکہ انھوں نے اس کی اہمیت کی بابت وزیراعظم نریندر مودی کو وضاحت کردی ہے۔ ’’آرٹیکل 370 دستور کے بنیادی خدوخال کا حصہ ہے کیونکہ ہم نے اسے جموں و کشمیر کی اُس وقت کی دستور ساز اسمبلی کی خواہشوں کی مطابقت میں شامل کیا ہے۔ یہ اب قطعی آرٹیکل ہے جسے کوئی بھی چھیڑ نہیں سکتا ہے۔ یہ کشمیر کمیٹی کا ادراک ہے کہ اس قسم کی بات (آرٹیکل 370 کی تنسیخ) خارج از سوال ہے،‘‘ صدرنشین کمیٹی جیٹھ ملانی نے یہاں میڈیا کے نمائندوںکو یہ بات بتائی۔ تاہم راجیہ سبھا ایم پی نے کہا کہ جموں و کشمیر کی متواتر ریاستی حکومتوں نے اس آرٹیکل میں وقفے وقفے سے کی گئی تبدیلیوں پر کبھی کوئی اعتراضات نہیں کئے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’آرٹیکل 370 پر کوئی تبدیلیوں پر کبھی کسی جے کے گورنمنٹ کی طرف سے اعتراضات نہیں ہوئے ہیں۔ اگر آپ کوئی ترامیم کو پسند نہ کرتے ہیں تو اس کا اظہار کیجئے، مگر جمہوری طور پر‘‘۔ سابق بی جے پی لیڈر جنھیں پارٹی سے مئی میں خارج کیا گیا، انھوں نے کہا کہ وہ آرٹیکل 370 کی اہمیت وزیراعظم مودی پر واضح کرچکے ہیں اور بی جے پی نے تب سے ’’خاموشی اختیار کرلی‘‘ ہے۔ جیٹھ ملانی نے کہا، ’’بی جے پی ہمیشہ آرٹیکل 370 کے تعلق سے بات کرتی رہی ہے، اُن میں سے بعض تو سرے سے دستورِ ہند کو ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ مودی پر آرٹیکل 370 کی اہمیت واضح کردی گئی اور یہ کہ اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ یہ بی جے پی والوں پر واضح کردیں کہ اس تعلق سے بات نہ کیا کریں۔ بی جے پی نے خاموشی برقرار رکھی ہے۔

بدبختی سے جب وہ اقتدار پر آئے، ایک وزیر نے جن کا تعلق جموں سے ہے، اس کی تنسیخ کے تعلق سے بات کی اور برائے کرم نوٹ کرلیں کہ مودی نے انھیں ڈانٹ پلائی اور انھیں کہہ دیا کہ پھر کبھی اس تعلق سے بات نہ کریں۔ انھوں نے تب سے اس تعلق سے بات نہیں کی ہے‘‘۔ جیٹھ ملانی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام ’’ہندوستان کے دستور کے تحت نہیں جی رہے ہیں بلکہ اُن کا اپنا دستور ہے اور ایک طرح سے انھیں استصواب رائے عامہ کا حق حاصل ہے‘‘۔ عمومی بات یہی ہے کہ ہندوستان نے وعدہ کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی استصواب رائے عامہ کے ذریعہ معلوم کی جائے گی۔ اقوام متحدہ قرارداد کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ ’’یہ صحیح ہے کہ یو این نے استصواب عامہ کا حکم دیا لیکن یہ تب ہونا تھا جب سارے جموں و کشمیر بشمول وہ حصہ جو آج ہمارے زیرقبضہ نہیں، وہاں بھی پاکستان کی طرف سے کوئی درانداز نہ رہے۔ وہ چیز کبھی نہیں ہوئی ہے۔ استصواب رائے عامہ ہندوستانی پرچم کے تحت ساری ریاست میں منعقد کیا جانا تھا۔ ہندوستان نے جموں و کشمیر کے آبادیاتی پہلو میں تبدیلی کی اجازت نہ دینے کا وعدہ نبھایا ہے۔