وزیراعظم سے کے سی آر کی ملاقات

مرکزی حکومت کے سربراہ سے جب کسی ریاست کا سربراہ ملاقات کرتا ہے تو ریاستی اُمور کے علاوہ تمام طبقات کی فلاح و بہبود کے بارے میں تبادلہ خیال کرکے مرکزی امداد، فنڈس یا عطیات کی خواہش کی جاتی ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ کے تقاضے بھی کئی اور نئے ہیں۔ یہاں اقتدار حاصل کرنے کی آرزو میں ٹی آر ایس کے لیڈر کے چندرشیکھر راؤ نے انتخابی منشور میں کئی ایک وعدے کئے اور انتخابی جلسوں میں ان وعدوں کی تکمیل کا عہد بھی کیا تھا۔ مگر جب اقتدار حاصل ہوا تو کئی وعدے بھول جانے کی عادت کا شکار بنادیئے گئے۔ ان میں سے ایک وعدہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا تھا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ کو اپنے اس وعدے کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے مگر وہ آئے دن مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے موضوع کو ہی یکسر نظرانداز کرنے کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے موقع پر کے سی آر نے ایس سی زمرہ بندی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ اگر اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے تو مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کی اپنی تجویز اور انتخابی وعدہ کا بھی تذکرہ کرسکتے تھے۔ مگر انھوں نے اس موضوع کو دھیان میں ہی نہیں لایا۔

مرکز سے ریاستی مسائل کے بارے میں بات چیت کرنا ایک روایتی عمل ہوتا ہے اور اس وقت مرکز میں آر ایس ایس نظریات کی حامل بی جے پی کی حکمرانی ہے تو تلنگانہ جیسی سیکولر ریاست کے چیف منسٹر کو مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے بارے میں اس اچھے موقع کو ضائع ہونے نہیں دینا چاہئے تھا۔ کسی بھی عمل کے لئے خلوص نیت کا دخل زیادہ ہوتا ہے۔ اگر چیف منسٹر خلوص کے ساتھ ریاستی مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دیں تو بلاشبہ 12 فیصد تحفظات کو یقینی بنانے میں انھیں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے تمام دستوری قانونی اور عدلیہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کرنے میں کوئی مانع حائل نہیں ہوگا۔ جب چیف منسٹر کی جانب سے تشکیل کردہ سدھیر کمیشن کی رپورٹ کو تیار کرنے میں ہی تاخیر کردی جائے تو پھر اس طرح کے حربوں کے پیچھے حکومت کی نیت آشکار ہوجاتی ہے۔ ویسے چندرشیکھر راؤ نے بحیثیت چیف منسٹر ریاست تلنگانہ کی ترقی کے لئے کئی اقدامات کا عالان کرتے آرہے ہیں۔ مگر ان میں کامیابی اُس وقت ملے گی جب ان اعلانات کو عملی شکل دی جائے۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کے لئے بھی تمام قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر پسماندگی کی بنیاد پر دیگر پڑوسی ریاستوں کے خطوط پر فوری قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ دستور میں کسی طبقہ کو مذہبی بنیاد پر کوٹہ دینے کی مخالفت کی گئی ہے مگر پسماندگی کی بنیاد پر کوٹہ کے لئے بعض اصول بنائے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی ان کی پسماندگی کی بنیاد پر ہی تحفظات دیئے جانے کی باتیں ہورہی ہیں۔

مسلمانوں کی پسماندگی کے تعلق سے اب تک کئی کمیشنوں اور کمیٹیوں نے اپنی رپورٹس پیش کی ہے اور یہ رپورٹس مرکز و ریاستی حکومتوں کے پاس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے بھی سدھیر کمیشن تشکیل دیا تھا تاکہ نئی ریاست تلنگانہ نے مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب و علل معلوم کرسکے۔ ضلع واری سطح پر جانچ پڑتال اور سروے کے ذریعہ یہ رپورٹ تیار کی جائے کہ مسلمانوں میں پسماندگی کی شرح کتنی ہے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیشن نے اپنی سفارشات میں مسلمانوں کی پسماندگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے اسباب بھی بتائے ہیں لیکن  مذہب کی بنیاد پر تحفظات دینے کی مخالفت میں آوازیں اُٹھنے لگتی ہیں۔ جب مسلمانوں کی پسماندگی کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے تو اس پر شوروغل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن فرقہ پرستی اور فرقہ پرستانہ سیاسی ذہنیت نے ہمیشہ مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلنے کا کام کیا۔ نئی ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کو کئی توقعات وابستہ تھیں مگر ان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح نئی ریاست تلنگانہ میں بھی دھوکہ دکھائی دے رہا ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ کی ہمدردیاں واقعی میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں تو پھر تحفظات کا وعدہ پورا کرنے میں خاموشی اختیار کرلینا مناسب نہیں۔ سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کی شرح تعداد کا بھی چیف منسٹر کے پاس ریکارڈ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ہمت کریں اور فرقہ پرستوں کے شور کو خاطر میں نہ لائیں۔ اس مرتبہ وزیراعظم سے ملاقات میں مسلمان یاد نہیں رہے تو آئندہ خاص مسلمانوں کے تعلق سے بات چیت کے لئے وزیراعظم سے ملاقات کرسکتے ہیں۔