ورنگل میں ’’ہاتھ‘‘ ٹوٹا ’’کنول‘‘ مرجھایا

ٹی آر ایس کے حوصلے بلند، حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات پر توجہ مرکوز

محمد نعیم وجاہت

ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخاب کا فیصلہ ٹی آر ایس کے حق میں یکطرفہ ثابت ہوا۔ عوامی ناراضگی کے باوجود حکمراں ٹی آر ایس نے ریکارڈ اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے اپوزیشن جماعتوں کی نیند اُڑا دی۔ اس کامیابی کے بعد ٹی آر ایس کے حلقوں میں جشن کا ماحول ہے اور اپوزیشن کے خیموں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ مقامی اداروں کی 12 کونسل نشستوں کے انتخابات اپوزیشن جماعتوں کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ ٹی آر ایس کے 16 ماہی دور اقتدار میں لوک سبھا میدک اور ورنگل کے ضمنی انتخابات ہوئے، میدک میں چیف منسٹر کے سی آر کے استعفی کی وجہ سے ضمنی انتخاب ہوا تھا، جہاں ٹی آر ایس امیدوار نے 3 لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس حلقہ میں کانگریس امیدوار نے اپنی ضمانت بچالی تھی، جب کہ بی جے پی امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی، تاہم گریجویٹ حلقہ حیدرآباد، رنگاریڈی اور محبوب نگر کے انتخابات میں تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے دیوی پرساد کو بی جے پی امیدوار نے شکست دی تھی۔
ٹی آر ایس حکومت کو عوامی ناراضگی دیکھنے کو ضرور ملی، تاہم ٹی آر ایس کی کار (انتخابی نشان) نے کانگریس کے ہاتھ اور بی جے پی کے کنول کے پھول کو روندتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اپوزیشن بالخصوص کانگریس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ دراصل جمہوریت میں سروں کی گنتی ہوتی ہے، جو جیتا وہی سکندر کہلاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹی آر ایس دور حکومت میں زرعی شعبہ بحران کا شکار ہے، ایک ہزار سے زائد کسان خودکشی کرچکے ہیں، مسلمانوں اور قبائلی طبقات کو 12 فیصد تحفظات نہیں ملے، دلت طبقات کو تین ایکڑ اراضی نہیں ملی، کے جی تا پی جی مفت تعلیم پر عمل آوری نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تاہم ورنگل لوک سبھا انتخاب سے قبل حیدرآباد میں 300 غریب افراد میں ڈبل بیٍڈروم کے فلیٹس ضرور تقسیم کئے گئے۔

انتخابی مہم کے دوران ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری پر کمریا نامی کسان نے چپل پھینک کر اپنے غصہ کا اظہار کیا، چیف منسٹر کے جلسہ عام میں برقعہ پوش مسلم خواتین نے 12 فیصد مسلم تحفظات کا پوسٹر بتاکر وعدہ پورا کرنے اور مادیگا طبقہ کی خواتین نے اے بی سی ڈی زمرہ بندی کا مطالبہ کیا۔ علاوہ ازیں آشا ورکرس نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے وزراء، ٹی آر ایس ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی سے ملاقات کرتے ہوئے مسلمانوں نے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے لئے یادداشتیں پیش کیں۔ ابتداء میں ٹی آر ایس حلقوں میں بھی ناراضگی دیکھی گئی، لیکن کامیاب حکمت عملی کے ذریعہ ٹی آر ایس نے اپوزیشن کی تدابیر کو ناکام بنا دیا۔

یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابی میدان میں 23 امیدوار تھے، لہذا ناراض ووٹوں کی تقسیم نے ٹی آر ایس امیدوار کو فائدہ پہنچایا، کیونکہ تمام 22 امیدواروں کو مجموعی طورپر چار لاکھ ووٹ بھی حاصل نہیں ہوئے، جب کہ ٹی آر ایس امیدوار کو جملہ 6,15,403 ووٹ حاصل ہوئے، جس نے 4,59,092 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور مد مقابل سارے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ اس حلقہ میں اصل اپوزیشن کانگریس کو ایک لاکھ 56 ہزار ووٹ حاصل ہوئے، لیکن کانگریس امیدوار بھی اپنی ضمانت نہیں بچا سکا۔
مقامی ادارہ جات کی 12 کونسل نشستوں کے لئے انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے اور 27 دسمبر کو رائے دہی مقرر ہے۔ علاوہ ازیں کسی بھی وقت گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے لئے بھی اعلامیہ جاری ہو سکتا ہے۔ ورنگل میں کامیابی کے بعد ٹی آر ایس کیڈر کے حوصلے بلند ہیں۔ ضلع کھمم کے ایک میونسپل کارپوریشن کی صدر نشن اور 20 کانگریس ایم پی ٹی سیز ارکان نے حکمراں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرکے کانگریس کو ایک اور جھٹکا دیا ہے، جب کہ حیدرآباد کے بشمول تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں بھی کانگریس اور دوسری جماعتوں کے قائدین کی ٹی آر ایس میں شمولیت کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔

ورنگل میں ابتداء ہی سے کانگریس پارٹی مسائل کا شکار تھی۔ سرسلہ راجیا کی قیامگاہ پر حادثہ کے بعد لمحۂ آخر میں کانگریس نے امیدوار تبدیل کرکے سابق مرکزی وزیر سروے ستیہ نارائنا کو اپنا امیدوار بنایا، اس طرح نتائج کے ذریعہ کانگریس حکمت عملی کی ناکامی کا ثبوت ملا، یعنی منصوبہ بندی اور عوامی روابط میں کانگریس ناکام ہو گئی۔ عوامی ناراضگی دیکھ کر کانگریس نے رائے دہی سے قبل اپنی کامیابی کو یقینی سمجھ لیا تھا، لیکن حد سے زیادہ خود اعتمادی کانگریس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئی اور کانگریس قائدین کے درمیان پائی جانے والی گروپ بندی سے ٹی آر ایس نے فائدہ اٹھایا۔ تلنگانہ کے کانگریس قائدین نے دس دن تک ورنگل میں کیمپ کرتے ہوئے کانگریس کے حق میں انتخابی مہم چلائی، مگر عوام کے دِلوں کو فتح کرنے میں ناکام ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کانگریس قائد کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، جب کہ ٹی آر ایس قائدین اندرونی اختلافات اور عوامی ناراضگی دور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

مقامی اداروں کی 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے ٹی آر ایس میدان میں اُترچکی ہے۔ اضلاع میں کانگریس اور تلگودیشم کے ٹکٹوں پر کامیاب ہونے والے قائدین حکمراں ٹی آر ایس میں شامل ہو رہے ہیں اور کئی قائدین حکمراں جماعت سے رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ کے سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، جب کہ کانگریس پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی بجائے روایتی سیاست پر اب بھی قائم ہے، یعنی پرچہ جات نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ تک اپنے امیدواروں کا اعلان کرتی ہے، لہذا کانگریس امیدوار کم وقت میں رائے دہندوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی کا حصول سیاسی جماعتوں کے لئے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے، جب کہ کوئی بھی جماعت تنہا مقابلہ کرتے ہوئے میئر کا عہدہ حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ شہر میں ٹی آر ایس کا موقف کمزور ہے، لیکن تلگودیشم، کانگریس اور بی جے پی کے سابق کارپوریٹرس کو اپنی جماعت میں شامل کرکے اپنے طاقتور ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے 24 اسمبلی حلقوں میں سے ایک حلقہ پر بھی کانگریس کا قبضہ نہیں ہے۔ تلگودیشم اور بی جے پی کے درمیان اتحاد ہے اور 2014ء کے عام انتخابات میں دونوں جماعتوں نے بہتر مظاہرہ بھی کیا۔ دونوں جماعتوں میں تال میل کا فقدان ہے، تاہم ایک دوسرے سے اتحاد دونوں جماعتوں کی سیاسی مجبوری ہے۔
پرانے شہر میں مجلس کے سواء کوئی دوسری جماعت طاقتور نہیں ہے اور نہ ہی کسی جماعت نے پرانے شہر میں مجلس کا متبادل بننے کی کوشش کی ہے۔ صرف انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں پرانے شہر میں نظر آتی ہیں اور پھر اس طرح غائب ہو جاتی ہیں، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جب تک کانگریس برسر اقتدار تھی، مجلس کانگریس کے ساتھ تھی، لیکن اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی مجلس نے ٹی آر ایس سے مفاہمت کرلی۔ میونسپل انتخابات میں کانگریس نے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے، مگر اب تک وہ اپنی حکمت عملی تیار نہیں کرسکی۔