محمد ریحان
شفاعت یار جنگ لکھنو کے پرانے نوابوں میں سے تھے ۔ ان کی حویلی میں پورب اور پچھم دونوں کی تہذیب ساتھ ساتھ مل کر پروان چڑھی تھی ۔ جس کی جیتی جاگتی مثال نازنین تھی ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو بے انتہا لاڈ و پیار سے پالا تھا ۔ کونسی ایسی خواہش کونسی ایسی ضد جو انہوں نے پوری نہ کی ہو ۔ نازنین بچپن ہی سے ضدی ، خود سر ، اپنی بات کو منوانے کی ماہر تھی ۔ بچپن ، لڑکپن کی ضد اور ہٹ دھرمی تو ماں باپ بے جا محبت اور لاڈ پیار میں پوری کرتے رہے لیکن اس کی یہ ضد وہ کبھی پوری نہیں کرسکتے تھے ۔ کیسے وہ جانتے بوجھتے اپنی بیٹی کو کسی ایسے شخص کو سونپ سکتے تھے جو کسی طور پر بھی ان کی برابری نہیں کرسکتا تھا ۔ نہ خاندان ، نہ اسٹیٹس ، نہ تعلیمی قابلیت… صرف صورت شکل سے کیا ہوتا ہے ۔ اب شفاعت صاحب کو پچھتاوا ہورہا تھا کہ انہوں نے بیٹی کو کچھ زیادہ ہی آزادی دے رکھی تھی۔ نازنین نے اپنی طرف سے دلیلوں کی بارش کردی ۔ وہ کسی طور بھی ماں باپ کی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی ۔ وہ ہر طرح سے اپنی امی جان کو ہی قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
’’میری اچھی امی جان ! آپ سمجھنے کی کوشش تو کریں میں نے توفیق رضا سے پیار کیاہے اور پیار کوئی گناہ نہیں۔ ہماری محبت پاکیزدگی اور سچائی پر قائم ہے اور پھر ہمارے خدا اور رسول نے بھی تو اپنا شریک حیات پسند کر نے کا حق ہمیں دیا ہے ۔ امی جان آپ تو ایک ماں ہیں۔ بیٹی کی ہر خواہش ہر خوشی اور ہر پسند سے واقف ہیں۔ ماں تو اپنی بیٹی کی ہر دھڑکن کو محسوس کرسکتی ہے؟‘‘۔’’بیٹی! تم نے ٹھیک کہا ۔ میں ایک ماں ہوں اور ماں سے بڑھ کر بیٹی کا خیرخواہ کون ہوسکتا ہے اسی لئے میری جان میں اپنی آنکھیں موند کر تمہیں اس فیصلہ کا حق کیسے دے سکتی ہوں جس کے بعد ساری زندگی ایک عذاب ، ایک پچھتاوا بن کر رہ جائے ۔ تم ٹھہریں آج کی جوان، جلد باز نسل جسے کل کی کوئی فکر لاحق نہیں۔ تم ایک روشن چراغ ہو جسے بے شمار دولت کے تیل میں ڈبو کر منور کیا گیا ہے ۔ ہم تمہارے رکھوالے ہیں۔ ہر رکھوالا آندھی طوفان سے اس چراغ کو بچاکر رکھنا چاہتا ہے ۔ تم جس لڑکے کو اپنا ہم سفر بنانا چاہتی ہو وہ چار قدم تمہارا ساتھ دے کر تمہاری دولت بٹور کر تمہیں چھوڑ جائے گا‘‘۔
’’نہیں امی جان ۔ وہ ایسے نہیں ہیں وہ تو میری محبت میں اپنے ماں باپ کو تک چھوڑنے تیار ہیں ‘‘۔ ’’ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو نازنین ، جس نے تمہاری خاطر اپنے والدین کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا وہ کسی اور کی خاطر تمہیں نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ شاکرہ بیگم نے بڑی ہمدردی سے سمجھایا۔ نازنین ٹھہری بے حد آزاد خیال کی پرھی لکھی ضدی لڑکی اور جب کسی حسین اور کمسن لڑکی کے ہاتھ میں دولت کی مضبوط لاٹھی آجائے تو اس کی سرکشی حد پار کر ہی جاتی ہے۔ یہی اس کے ساتھ بھی ہوا۔ ا سے اپنی ضد منوانی آتی تھی… کہنے لگی۔
’’آپ لوگوں نے میری ہر خواہش پوری کی ہے، میری یہ آرزو بھی پوری کریں۔ میں توفیق رضا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اگر آپ لوگوں نے ضد کی تو مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا‘‘۔
اور یہ نازنین کا آخری فیصلہ تھا جس کے آگے والدین مجبور ہوگئے تھے ۔ پھر شفاعت یار جنگ نے ایک فیصلہ سنادیا کہ اگر نازنین نے توفیق رضا سے شادی کی تو وہ اپنی ساری دولت کسی ٹرسٹ کو دے دیں گے۔ ان کے اس فیصلہ پر نازنین تو خوش ہی تھی کیونکہ اسے توفیق رضا مل رہا تھا مگر توفیق کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ اس نے تو صرف دولت کی خاطر ہی چاہت کا ڈھونگ رچایا تھا لیکن پھر بھی اسے ایک آس تھی کہ شادی کے بعد شفاعت یار جنگ قبول کر ہی لیں گے اور جائیداد بھی مل ہی جائے گی ۔ اسی جھوٹے بھرم کے ساتھ توفیق رضا نے نازنین سے شادی کرلی۔ اس کا حسین بھرم تو اس وقت ٹوٹا جب شادی کے آٹھویں دن شفاعت صاحب نے اسے اپنے پاس بلا کر کہا…’’برخوردار توفیق۔ آپ کی شادی تو ہوگئی ، اب نازنین آپ کی ذمہ داری ہے ۔ شادی کے بعد لڑکی اپنے گھر ہی بھلی لگتی ہے ۔ آپ اپنے فلیٹ میں منتقل ہوجائیں اور حسن و خوبی سے اپنے فرائض انجام دیں ۔ اب ہم حج بیت اللہ کو جائیں گے‘‘لیکن توفیق کو یقین تھا کہ شفاعت صاحب اس کا امتحان لینے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک ہونہار داماد کی طرح اپنے فلیٹ میں نازنین کے ساتھ شفٹ ہوگیا ، وہ بہت خوش تھی کیونکہ وہ اس کا اپنا گھر تھا۔
ایک مہینے بعد ہی شفاعت صاحب اپنی بیگم کے ساتھ حج کو چلے گئے اور جاتے ہوئے اپنی حویلی اور تمام بزنس اپنے بھائی کو سونپ گئے ۔ توفیق کا ہر خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ اب نازنین اسے زہر لگنے لگی ۔ اس کے اس طرح رنگ بدلنے پر نازنین حیران رہ گئی ۔ تب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ غلطی اس نے خود کی تھی ۔ سزا بھی اسے ہی ملنی تھی ۔ ا یک دن تو انتہا ہوگئی کہ جب ایک چھوٹی سی غلطی کے لئے نازنین کو گھر سے نکل جانے کو کہا۔ یہ اس کی غیرت پر زبردست طمانچہ تھا ، اس کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا ۔ برداشت کی ساری حدیں ختم ہوگئیں۔ اس نے اس پل توفیق کے گھر کو ہمیشہ کیلئے چھوڑدیا اور اپنی سہیلی انیسہ کے گھر چلی گئی ۔ انیسہ اور اس کے والدین نے اسے بے پناہ محبت دی ۔ ان سب کے سمجھانے اور ہمت دلانے پر اس نے اپنی ادھوری پڑھائی پھر سے شروع کردی اور جی توڑ محنت کے بعد آئی اے ایس پاس کر کے ایس پی بن گئی ۔ یہ کتنابڑا سچ تھا کہ جس مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے وہیں ایک عورت کی کامیابی کے پیچھے ہمیشہ مردوں کی بے وفائی اور جفا کا ہاتھ رہا ہے۔ ایسے میں کمزور کون ٹھہرا مرد یا عورت۔ مرد تو ہر شئے چاہے باپ ہو یا بھائی ہو یا بیٹا ۔ عورت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا رہا ہے اور جس پل عورت اپنی خودی کو پالیتی ہے کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں۔ اگر توفیق بے وفائی نہیں کرتا تو وہ نازنین سے ایس پی نازنین نہیں بنتی۔
نازنین اپنے کام میں جی جان سے لگ گئی ۔ ایک دن اچانک توفیق مجرم بناکر اسکے روبرو پیش کیا گیا ، وہ ڈرگس کی اسمگلنگ میں ملوث تھا ۔ یونیفارم پہنے ایس پی کے کیبن میں وہ بڑی شان سے بیٹھی تھی اور اس کے روبرو توفیق قانون کا نہیں اس کا بھی مجرم تھا اور قدرت نے آج اسے کٹگھرے میں پیش کر رہی دیا ۔ نازنین نے طنز آمیز لہجے میں کہا ۔
’’دیکھو توفیق ! میں وہی نازنین ہوں جسے تم نے بڑی حقارت سے ایسے دوراہے پر چھوڑا تھا جہاں سے میرے لئے سارے راستے بند تھے ۔ جہاں عورت کا سائبان اس کا شوہر ہوتا ہے لیکن تم ایک ایسے محافظ تھے جس نے ایک رہزن بن کر میری زندگی کی ساری خوشیوں کو لوٹ لیا ۔ آج تم اپنا مستقبل دیکھو ۔ جہاں جیل کی تنگ اور اندھیری کوٹھریاں ہیں ۔ میں تم سے اپنا انتقام کیا لوں گی خدا نے تم سے انتقام لے لیا‘‘۔
توفیق بالکل خاموش تھا اور نازنین بڑی شان و شوکت سے اس کی نظروں سے دور ہوتی چلی گئی ۔ جاتے جاتے اس کی خاموش نگاہوں نے کہہ دیا کہ دیکھو آج میں تمہارے بنا بھی زندہ ہوں ، خوش ہوں اور بہت کچھ ہوں ۔ توفیق کی آنکھیں خود بخود شرمندگی اور بے چارگی سے جھکتی چلی گئیں۔ بالکل ان ٹیڑھی میڑھی راہوں کی طرح جو کبھی منزل کو نہ پاسکتیں۔