وارانسی کی سیٹ پر سب کی نگاہیں کیجریوال سے کرشمہ کرنے کی امیدیں

نافع قدوائی
اترپردیش کے وارانسی اور لکھنو پارلیمانی سیٹوں پر تمام سیاسی پنڈتوں کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں ۔ وارانسی سے نریندر مودی الیکشن کے میدان میں ہیں جب کہ لکھنؤ سے بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ انتخابی میدان میں ہیں ۔ راج ناتھ سنگھ گزشتہ الیکشن میں غازی آباد سے کامیاب ہوئے تھے ان کا اس مرتبہ لکھنؤ سے الیکشن لڑنے کو کئی طرح کے معنی پہنائے جارہے ہیں ۔ بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر پیش کیا ہے اور بی جے پی کے برسراقتدار آنے پر مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہیں ۔ یہ دیکھ کر راج ناتھ سنگھ نے لکھنؤ کی خوش قسمت سیٹ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ چونکہ نریندر مودی ایک سخت گیر ہندو وادی لیڈر ہیں اس لئے وہ این ڈی اے کی تمام اتحادی جماعتوں کے لئے قابل قبول وزیراعظم نہیں ہوسکتے اس لئے آخر وقت میں وزیراعظم کی کرسی پر قضیہ کھڑا ہوسکتا ہے اور اس وقت عین ممکن ہے کہ بی جے پی مودی کی جگہ اپنے کسی دوسرے لیڈر کو وزیراعظم کے طور پر پیش کرے ۔ ایسی صورت میں راج ناتھ سنگھ کے لئے سنہرا موقع ہوسکتا ہے ۔ راج ناتھ سنگھ ایک سنگھی لیڈر ہیں وہ مودی کی طرح ہی مسلمانوں کے دشمن بدخواہ ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ راج ناتھ سنگھ اپنی مسلم دشمنی کا اس طرح سے اظہار نہیں کرتے جس بے جگری کے ساتھ مودی کرتے ہیں

ورنہ راج ناتھ سنگھ اور مودی میں کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ بعض سیاسی علماء نہ جانے کس مغالطہ میں ہیں کہ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ راج ناتھ سنگھ مسلمانوں کے لئے وزیراعظم کے طور پر قابل قبول ہوسکتے ہیں جب کہ راج ناتھ سنگھ بی جے پی کے ایسے لیڈر ہیں جو ہر ہر قدم پر مودی کی مدافعت کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ راج ناتھ سنگھ کبھی نہیں چاہتے ہیں کہ مودی نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کی جو نسل کشی کرائی تھی اس کے لئے مودی یا بی جے پی معافی مانگے ۔ راج ناتھ سنگھ کی قیادت والی بی جے پی نے جو انتخابی منشور جاری کیا ہے وہ خالص آر ایس ایس اور ہندو راشٹر کے ایجنڈے پر مبنی ہے ۔ انتخابی منشور مسلمانوں کے تعلق سے زہریلا ہے اور اگر بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے تمام منصوبوں ، اسکیموں کو بروئے کار لایا جائے گا اس لئے مسلمانوں کے لئے مودی جس قدر قابل نفریں اور ناقابل قبول ہیں اسی طرح سے راج ناتھ سنگھ بھی ناقابل قبول ہیں ۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنی شبیہ بہتر بنانے کے لئے گزشتہ دنوں لکھنؤ کے سیاسی علماء سے راز و نیاز کیا ۔ راج ناتھ سنگھ کے واقف کاروں کے بموجب راج ناتھ سنگھ ایک بہت ہی گہرے ، شاطر سیاستداں ہیں ان کی شاطرانہ چالوں کو بڑے بڑے سیاسی پنڈت تک نہیں سمجھ پاتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ الیکشن کے بعد چھپے رستم کے طور پر مودی کے مقابلے میں سامنے آسکتے ہیں اس لئے سیاسی پنڈتوں کی نظریں لکھنؤ سیٹ پر لگی ہوئی ہیں ۔

وارانسی سیٹ اس لئے بے حد اہم ہے کیونکہ اس حلقہ سے پہلی مرتبہ کسی دوسری ریاست کا کوئی لیڈر الیکشن لڑرہا ہے اور الیکشن لڑنے والا کوئی اور نہیں بی جے پی کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں دہلی کے سابق وزیراعلی عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال ہیں یوں تو وارانسی میں کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار ہیں لیکن وارانسی کے عوام کی پسند اروند کیجریوال ہیں ۔ وارانسی میں مودی کا کیجریوال سے راست مقابلہ متوقع ہے ۔ اس حلقہ کے ڈھائی لاکھ سے زائد مسلم ووٹ کسی بھی امیدوار کی جیت و ہار میں بے حد اہم رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ ووٹ متحد ہو کر اروند کیجریوال کو ملتے ہیں تو پھر مودی کے لئے وارانسی ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہوسکتا ہے اور اروندجی یہاں بڑی سیاسی الٹ پھیر کرکے ملک کی سیاست کی ریاضی کو الٹ سکتے ہیں ۔

اترپردیش میں اگرچہ گزشتہ الیکشن میں کانگریس کا موقف حیرت انگیز طور پر بہتر رہا تھا اور پارٹی نے 80 میں سے 21 سیٹیں جیتی تھیں لیکن اس مرتبہ کانگریس کے خلاف نہرو گاندھی کنبے کے خلاف جس قدر معاندانہ ، جھوٹا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کانگریس اورنہرو گاندھی کے کنبے کی سیاسی گرفت سے آزاد کرانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں اس سے کانگریس کے قائدین کی فکرمندی سوفیصد درست ہے ۔ پرینکا گاندھی نے جو اگرچہ ابھی تک سیاست کے میدان میں باقاعدہ سرگرم نہیں ہوئی ہیں انھوں نے اپنے کو صرف اپنے والدہ سونیا گاندھی ، بھائی راہول گاندھی کے حلقہ انتخاب تک محدود رکھا ہے لیکن پرینکا گاندھی کی اس مرتبہ کے الیکشن میں سیاسی دلچسپی بہت بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ ماضی میں پرینکا گاندھی رائے بریلی اور امیٹھی کے عوام سے اپنی والدہ اور بھائی کے لئے ووٹ مانگتی تھیں اب کی مرتبہ پرینکا گاندھی نے حزب مخالف بالخصوص نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو کرارا جواب دینا بھی شروع کردیاہے ۔ پرینکا گاندھی نے اپنے چچازاد بھائی ورون گاندھی کی بی جے پی میں شمولیت اور بی جے پی کے فلسفے کو اپنائے جانے پر عوامی سطح پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرکے یہ چتادیا ہے کہ اب پرینکا گاندھی اپنی چچی مینکا گاندھی اور بھائی ورون گاندھی کے نہرو گاندھی خاندان کی جڑوں کوکھودنے کی اجازت نہیں دیں گی ۔ بی جے پی ، نریندر مودی اور ان کے قبیلے کے لیڈر جس طرح سے سونیا گاندھی ، راہول گاندھی ان کے شوہر رابرٹ وڈیرا کی سیاسی کردار کشی کررہے ہیں وہ اب پرینکا گاندھی کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا ہے ۔ انہوں نے رائے بریلی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنے اس دکھ کا برملا اظہار کرکے سب کو حیران کردیا ۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ سیاسی حملوں کے لئے ان کے شوہر رابرٹ وڈیرا کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے وہ بہت دکھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب ٹی وی کھولو ان کے خاندان کے خلاف باتیں ہوتی نظر آتی ہیں ۔ اس لئے نہیں کہ کوئی میرے خاندان کا مذاق اڑارہا ہے یا عوام کو سچائی نہیں بتارہا ہے اس لئے نہیں کہ روز مجھے اپنے بچوں کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ بالآخر سچائی کی جیت ہوگی ، مجھے دکھ اور افسوس اس کا ہے کہ ملک میں آج سیاست کس معیار کی ہورہی ہے۔ میرے کنبے کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے ، میرے شوہر کے بارے میں کیا کیا بولا جارہا ہے ۔ میری دادی اندرا گاندھی کہتی تھیں کہ جتنا ذلیل و رسوا کیا جائے گا اتنی ہی مضبوطی سے ہم لڑیں گے ۔ پرینکا گاندھی کے اس جوابی حملے سے جہاں بی جے پی کے حلقوں میں ایک طرح کی گھبراہٹ سے ہونے گلی ہے دوسری پرینکا گاندھی کے اس جارحانہ بیان سے کانگریس کے حلقوں میں پرینکا گاندھی کے سرگرم سیاست میں حصہ لینے کی باتیں تیزی سے سنائی دینے لگی ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پرینکا گاندھی کانگریس پارٹی میں سرگرم ہوتی ہیں تو یقیناً اس کا پورا فائدہ سونیا گاندھی ، راہول گاندھی کے ساتھ ساتھ پوری کانگریس پارٹی کو مل سکتا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرینکا گاندھی ابھی خود کو کتنے دن عملی سیاست سے دور رکھتی ہیں ۔

بی جے پی ، نریندر مودی یو پی میں کانگریس ، یو پی اے اور سماج وادی پارٹی کو تو نشانے پر لئے ہوئے ہیں ، کوئی موقع ان پارٹیوں کی مخالفت کا نہیں چھوڑتے ہیں ۔ مودی ملک سے کانگریس اور اترپردیش سے سماج وادی پارٹی کے صفائے کی بات کرتے ہیں ۔ مودی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی تو اترپردیش میں باپ بیٹے (ملائم ۔ اکھلیش) کی حکومت کو بھی چلنے نہیں دیا جائے گا ۔ مودی اکھلیش حکومت اور ملائم سنگھ یادو سے تو ہر قسم کے سوال جواب کررہے ہیں لیکن وہ اترپردیش کی بڑی سیاسی طاقت رکھنے والے بہوجن سماج پارٹی کی قائد مایاوتی کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں ۔ نریندر مودی اور ان کی پارٹی کا بی ایس پی ، مایاوتی کے تئیں اس نرم گوشے کے کئی طرح کے سیاسی مطلب نکالے جارہے ہیں اور یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ کہیں مودی اور ان کی پارٹی کی بی ٹیم بی ایس پی ، مایاوتی ہیں اس لئے اس پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی جارہی ہے ۔ اگر چہ مایاوتی نریندر مودی اور ان کی پارٹی پر نکتہ چینی کرنے میں ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو سے کسی طرح کم نہیں ہیں لیکن مایاوتی کی تمام نکتہ چینیاں بی جے پی خاموشی سے کیوں سہہ رہی ہے ؟ اس کا سیاسی پنڈتوں کے پاس بھی کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہے ۔ اس مرتبہ کے الیکشن میں ابھی تک جو خاص بات دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ کہ بی ایس پی کی ریالیوں میں اتنی زبردست بھیڑ نہیں دکھائی دے رہی ہے جو ماضی میں مایاوتی کی ریالیوں میں ہوا کرتی تھی ۔ مایاوتی خود کو مسلمانوںکا سب سے بڑا ہمدرد بتانے میں جٹی ہوئی ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت ان سے متفق نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بی ایس پی کے تمام بڑے لیڈروں کی مسلمانوں کے معاملات میں کبھی بھی نیت صاف نہیں رہی ہے ۔ ووٹ کے علاوہ بی ایس پی لیڈر مسلمانوں کو زیادہ منہ نہیں لگاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بی ایس پی سے قیادت کی امید نہیں لگائی ۔

الیکشن کمیشن نے سماج وادی پارٹی کے شعلہ بیان مقرر ریاستی وزیر محمد اعظم خان پر اشتعال انگیز تقاریر کے معاملے میں ان کی انتخابی سرگرمیوں پر جس طرح سے روک لگائے رکھنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے اس سے الیکشن کمیشن کی معتبریت پر سوال اٹھنے لگے ہیں اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتے جانے کے رویے کا بین ثبوت ہے ۔ ایک ہی طرح کے معاملے میں الیکشن کمیشن نے امیت شاہ کے جواب سے مطمئن ہو کر ان پر سے پابندی ہٹالی جب کہ محمد اعظم خاں کے جواب سے کمیشن ابھی تک مطمئن نہیں ہوا اور اعظم خاں پر بدستور پابندی لگی ہوئی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اس جانبدارانہ رویے کے خلاف ملائم سنگھ یادو ، اکھلیش یادو ، رام گوپال یادو وغیرہ نے صدائے احتجاج بھی بلند کیا ہے لیکن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے ۔ محمد اعظم خاں کی انتخابی سرگرمیوں پر روک سے سماج وادی پارٹی کو نقصان نہیں الٹا فائدہ ہی ہوا ہے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو سماج وادی پارٹی سے ناراض تھا وہ بھی اعظم کی مظلومیت کی بنا پر اب سماج وادی پارٹی کو ووٹ دینے کو تیار ہوگیا ہے ۔ یو پی کے مسلمان چونکہ مودی برانڈ کے جذبے سے الیکشن میں دلچسپی لے رہے ہیں اس جذبے کا فائدہ بھی سماج وادی پارٹی کو ہی زیادہ ملتا نظر آرہا ہے کیونکہ بیشتر پارلیمانی حلقوں میں سماج وادی پارٹی اور بی جے پی میں راست مقابلہ ہے ۔ نریندر مودی اگر وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ کس طریقہ سے کام کریں گے اس کا عندیہ انھوں نے اپنی انتخابی تقاریر میں دے دیا ہے ۔ انھوں نے صاف کردیا ہے کہ وہ آمرانہ طریقہ سے حکومت کرنے کے قائل ہیں ۔ وہ منتخب حکومتوں کو محض اس بنا پر گرادیں گے کیونکہ ان حکومتوں نے ان کے دہلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی تھیں ۔ مودی نے صاف کہا ہے کہ الیکشن کے بعد یو پی کے باپ بیٹے حکومت کی بھی خیر نہیں ہے ۔ مودی نے الیکشن کمیشن کو بھی آگاہی دی ہے کہ وہ محاسبہ کے لئے تیار رہے ۔ میڈیا چاہے جتنی مودی لہر پیدا کرے لیکن عملاً اترپردیش میں ابھی تک اس قسم کی کوئی لہر دکھائی نہیں پڑتی ۔ یہ ایک ایسی لہر ہے جو میڈیا کو دکھائی دے رہی ہے لیکن عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔