واجپائی جی میں ہندوستان کو آگے لے جانے کی بے چینی تھی : ایس ایم خاں 

جناب واجپائی جی سے میرا تعارف اس وقت سے تھا جس وقت میں ۱۳؍ سال کی عمر میں نویں کلاس کا طالب علم تھا ۔ میں اپنے آبائی شہر خورجہ میں تھا اوروہ ہمارے مسکن پر آئے تھے ۔ میرے تایا مرحوم آفتاب محمد خان شہر کے باوقار سماجی او رسیاسی شخصیت تھے انہوں نے ان کو چائے پر مدعو کیاتھا ار ان کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیاگیا تھا ۔ جس میں ۵۰۰؍ زائد وطن کی مایہ ناز شخصیات شریک ہوئیں ۔ واجپائی جی ا س دن اترپردیش اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جن سنگھ کے امید وار کا اعلان کرنے آئے تھے اور ان کی جذباتی تقریر ہوئی تھی جس میں میں بھی شامل تھا ۔ اس پروگرام کی وضاحت میں اس لئے کررہا ہو ں کہ اسی دن واجپائی جی ہمارے گھر میں گولیار کے اسکول کے استاد ماسٹر ریاض الدین سے کافی دنوں بعد ملے ۔

جنہوں نے ان کو گوالیار کے اسکول میں ریاضی پڑھایا تھا ۔ ماسٹر صاحب دراصل خورجہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت وہ گوالیار سے خورجہ آئے تھے ۔ واجپائی جی کو یہ نہیں بتایا کہ ماسٹر ریاض الدین بھی وہاں موجود ہوں گے ۔ مجھے آج بھی وہ لمحہ یاد ہے کہ جب واجپائی کی ماسٹر صاحب سے روبرو ہوئے جو ان کے لئے ایک حیران کن لمحہ تھا انہوں نے فوری ماسٹر صاحب کے پاؤں چھوئے او رکہا کہ آپ یہاں ! اس کے بعد انہوں نے لمبی گفتگو ماسٹر صاحب سے کی ۔ میں جب ۱۹۸۳ء میں مرکزی حکومت کی خدمت میں دہلی آیا تو واجپائی جی سے ملا اور ان کا آشیر واد لیا لیکن مسلسل رابطہ جب ہوا جب میں نے ۲۰۰۲ء میں میں نے صدر جناب اے پی جے عبد الکلام کا پریس سکریٹری مقررہوا ۔

میری تقرری کے دوسرے ہی دن مسٹر واجپائی جناب کلام سے ملنے صدارتی محل آئے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ ’’ سی بی آئی سے راشٹر بھون ‘‘۔مسٹر واجپائی کے ڈاکٹر کلام سے بہت قریبی تعلقات تھے ۔