نیک بندوں کی آزمائش

محمد ظہیر الدین بابر

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے ’’ہم اپنے متقی پرہیزگار اور صالح مؤمن بندوں کو دین کی راہ میں ان پانچ امتحانات میں آزماتے ہیں‘‘۔ وہ پانچ امتحانات حسب ذیل ہیں:
(۱) انتہائی خوف (۲) انتہائی بھوک (۳) مال کا نقصان (۴) جان کا نقصان اور (۵) امتحان میں اچھے نتائج نظر نہ آنا۔ حقیقی امتحان صبر بتایا گیا ہے اور ہر غور کرنے والے پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ دنیا میں شہید ہونے والا ان پانچ امتحانوں میں کامیاب ہوئے بغیر شہید ہو جائے تو وہ شہادت کا نہ کمال حاصل کرسکتا ہے اور نہ کامل شہید کہلا سکتا ہے۔ چوں کہ کامل کتاب کی کامل تعلیم صبر کی عملی تفسیر سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم محسوس نہیں کرتے اور ضرور ہم تم کو آزمائیں گے انتہائی خوف اور انتہائی بھوک میں اور پھلوں کے نقصان سے اور نتیجوں سے اور بشارت ان صابروں کو جب کبھی ان پر مصیبت آجائے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔ اسی لئے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت اللہ تعالیٰ کی نظروں اور دنیا کی نظروں میں بے انتہاء ہے۔ آپ نے دین اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے ایک فاسق و فاجر شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور بیعت کرنا پسند نہیں کیا اور مع اہل و عیال ۷۲ رفقاء کے ساتھ اسلام کے نام پر شہید ہو گئے، جس کی مثال دنیا آج تک نہیں پیش کرسکی۔ بقول مولانا محمد علی جوہر:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم مسلمانوں کو اسلام کے لئے کام کرنے کے راستے بتائے ہیں۔ اگر ہم وقت آنے پر بھی لاپرواہی سے کام لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے تو بروز قیامت پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیارے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟۔