پرافل بدوائی
نیپال اور اس سے متصلہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے علاقوں میں آنے والی آفت کی انسانی مصیبت اور شدت سے متاثر نہ ہونا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ۔ 25 اپریل کو 7.9 شدت کے اس زلزلہ میں ہلاکتوں کی تعداد پہلے ہی 6 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے ۔ پوری دنیا خاص طور پر ہندوستان کو زلزلہ کے متاثرین کی مدد کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
یہ آفت سماوی اس بات کی سنجیدہ یاد دہانی ہے کہ جنوبی ایشیا کے وسیع علاقے آفات سماوی جیسے زلزلوں ، سونامیوں ، طوفان باد وباراں ، سیلابوں اور زمین کھسکنے کے واقعات وغیرہ کے اعتبار سے کتنے مخدوش ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقہ کے معاشرے ان آفات سے نمٹنے کے لئے کیسے تیار نہیں ہیں اور حکومتیں ان کے اثرات کا ازالہ کرنے سے حسب معمول کتنی قاصر ہیں اور ان کا استدلال ہے کہ ان کی پیش قیاسی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ عذر لنگ ہے ۔ کوئی بھی زلزلہ کا درست سال تک نہیں بتاسکتا ۔ لیکن سائنسداں اس علاقہ کے ان علاقوں سے اچھی طرح واقف ہیں جو زلزلہ کے اعتبار سے مخدوش ہیں چنانچہ وہ اس پیش قیاسی کے قابل ہوں گے کہ زلزلہ زیادہ شدت کا ہوگا یا اوسط شدت کا اور چند دہائیوں میں اس کے آنے کا اندیشہ ہے ۔ اس سے پالیسیوں کے تعین کی کافی بنیاد حاصل ہوتی ہے اور آفات سماوی کا سامنا کرنے کی تیاری میں مدد مل سکتی ہے ۔ آفات سماوی کی شدت کا سامنا کیا جاسکتا اور امکانی نقصانات کو روکنے کا انتظام ہوسکتا ہے ۔
بالکل درست طور پر کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ حکومتیں خطروں کی شناخت ہیں کرسکتیں اور تیاری کے اقدامات نہیں کرتیں جس کی وجہ سے آفات سماوی سماجی آفات میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ زلزلے ان کی وجوہات کی بنا پر ہی آفت سماوی ہوتے ہیں ۔ ان کے اثرات کا سماجی اعتبار سے تعین کیا جاتا اور معاشروں اورحکومتوں کے انتظامات کے ذریعہ ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے ۔ حسب ذیل پر غور کیجئے۔امریکہ اور مغربی یوروپ زلزلوں کے اعتبار سے مخدوش ہیں اس کے باوجود گذشتہ صدی میں وہاں ایسے زلزلے نہیں آئے جن میں دس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ ایسے زلزلے صرف تیسری دنیا کے ممالک میں آئے ہیں ۔ چند مستثنیات بھی سامنے آئے ہیں جیسے انتہائی مخدوش ملک جاپان
2010 میں ہائتی میں 7 شدت کے زلزلہ سے تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔ یہ تاریخ کا سب سے زیادہ ہلاکتوں والا زلزلہ تھا ۔ اسی سال 8.8 شدت کا زلزلہ چلی میں آیا ۔ اس سے 500 گنا عظیم تر توانائی خارج ہوئی لیکن صرف 525 افراد ہلاک ہوئے ۔ بہتر تیاری کی حالت اسکی وجہ تھی ۔ چلی میں صرف ’’سختی سے دہل جانے والے‘‘ 0.1 فیصد افراد ہلاک ہوئے ۔ اس کے برعکس ہائتی میں 11 فیصد ہلاک ہوئے ۔
جاپان میں آفات سماوی سے اوسطاًؤ 63 افراد ہلاک ہوتے ہیں لیکن پیرو میں یہ اوسط 2900 یعنی 40 گنا زیادہ ہے ۔ جب سمندری طوفان ایلینا 1985 میں امریکہ سے ٹکرایا تو صرف پانچ لوگ فوت ہوئے لیکن جب ایک استوائی طوفان 1991 میں بنگلہ دیش سے ٹکرایا تو پانچ لاکھ افراد معدوم ہوگئے ۔ تقریباً اسی وقت لاتور (ہندوستان) میں 1993 میں زلزلہ آیا ۔ کیلیفورنیا میں آنے والا زلزلہ اس سے 50 گنا زیادہ طاقتور تھا ۔ کیلیفورنیا میں تین افراد مرے جبکہ لاتور میں 8000 افراد معدوم ہوگئے ۔
سمندری طوفان اور استوائی طوفان وقفہ وقفہ سے امریکہ کے مشرقی ساحل سے ٹکراتے ہیں لیکن ان سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد عام طور پر بنگلہ دیش ہندوستان اور فلپائن میں آنے والے اسی قسم کے طوفانوں کی بنسبت سینکڑوں گنا کم ہوتی ہے ۔پہلی دنیا اور تیسری دنیا میں ایسے فرق خود آفت سماوی کی شدت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ سماجی انتظامات بشمول آفات سماوی کا سامنا کرنے کے لئے تیاری کی حالت سے تعلق رکھتی ہے ۔ آفات سماوی کے بارے میں یہ پہلا سبق ہے ۔ جیسا کہ دانش مندی سے کہا گیا ہے زلزلے ہلاک نہیں کرتے ، گرنے والی عمارتیں کرتی ہیں ۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ آفات سماوی ان کے اثر کے لحاظ سے طبقہ کے بارے میں غیر جانبدار نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ غریبوں اور کمزوروں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ جو مراعات یافتہ طبقہ کی بہ نسبت زیادہ مخدوش حالت میں ہوتے ہیں ۔ گنجان آبادیوںمیں جو حد سے زیادہ پرہجوم اور غیر محفوظ حالت میں ہوتی ہیں یا دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں جہاں تک آسانی سے رسائی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ نیپال کے عوام کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد پہاڑوں میں رہتی ہے ۔ وہ مڈامیر سڑک سے بھی چار گھنٹے کے فاصلے پر رہتے ہیں ۔ نیپال کے 75 اضلاع میں سے 15 کے مستقر سڑک رابطہ سے محروم ہیں ۔
ترقی پذیر ممالک میں بچاؤ اور راحت کا انفراسٹرکچر انتہائی ناکافی ہے ۔ مثال کے طور پر نیپال میں بمشکل کوئی ارتھ موورس یا کرین دستیاب ہیں ۔ جن سے سڑکوں کی رکاوٹیں ہٹائی جاسکتیں اور لوگوںکو بچایا جاسکتا ۔ ہنگامی راحت کی فراہمی نے خاص طور پر ضروریات جیسے پناہ گاہیں ، غذا ، پانی اور دوائیں واضح طور پر بہت بریت حالت میں ہے ۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ حکمرانی پر اس کی عظیم ذمہ داری ہے کہ کیسے کوئی معاشرہ آفات سماوی کا سامنا کرتا ہے ۔ اگر حکومت کی فیصلہ سازیاں شفاف ہوں تو ہلاکتوں کی تعداد کم ہوتی ہے ۔ جہاں کی حکومتیں عوام کا تکالیف پر توجہ دیتی ہیں وہاں کا حال یہی ہے ۔ جہاں قبل از وقت انتباہ جاری کیا جاتا ہے ، درست اور کافی معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ راحت رسانی اور بچاؤ خدمات کی کافی دستیابی کو یقینی بنایا جاتاہے ۔ اور اشیائے ضروریہ بشمول دواؤں کا خاطرخواہ ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔
تیسری دنیا کے بیشتر معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کئی معاشرے انتہائی درجہ کے حسب مراتب کے معاشرہ ہیں ۔ ان کے حکمرانوں کا احساس ہے کہ مراعات سے محروم شہریوں کو معلومات کی فراہمی ان کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ یہ صورتحال کچھ حد تک تبدیل ہورہی ہے جس کا سہرا طوفانوں کے انتباہ اور مواصلات میں عظیم تر سرمایہ کاری کے سر ہے ۔ تاہم ابھی یہ کافی نہیں ہے ۔ انسانی زندگی زیادہ افسوسناک ہے ۔ سب سے زیادہ مصائب کاشکار غریب ہی ہوتے ہیں ۔چوتھا سبق یہ ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر معاشرے حفاظت کے اعتبار سے بہت ناقص کارکردگی والے ہیں ۔ بیشتر معاشروں میں رہائشی اور تجارتی سرگرمیوں اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ عمارتوں کے قوانین نہیں ہیں ۔ یا پھر قواعد کی خلاف ورزی معمول ہے ۔ بے شک یہ بات نیپال کی حد تک بھی درست ہے ۔ جہاں کے وسیع شہر انتہائی گنجان آباد ہیں ۔ وہاں کی بیشتر عمارتیں 1994 کے قومی تعمیراتی قانون کی مقررہ کسوٹیوں پر کھری نہیں اترتیں جس کا مطلب زلزلوں کی زیادہ مزاحمت ہوتا۔ تاہم یہی بات جنوب ایشیا کے دیگر ممالک پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ ایک تخمینہ کے بموجب ہندوستان کے بڑے شہروں کی 80 فیصد عمارتیں زلزلہ کی مزاحمت کرنے والی نہیں ہیں ۔ حالانکہ ان کی تعمیر میں بھاری رقم خرچ نہیں ہوتی چاہے ان کی نئی تعمیر ہو یا موجودہ عمارت کو ایسا بنانا ہو ۔ بیشتر بلدیات تکمیل کے صداقتنامے پر اصرار بھی نہیں کرتیں چاہے وہ نئی تعمیرات ہوں جو تعیراتی انجینئرس اور دیگر ماہرین کی منظوری سے کی گئی ہوں ۔
یہ کوتاہیاں سنگین ہیں ۔ درحقیقت ناقابل معافی ہیں ۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ جنوبی ایشیا کا بیشتر علاقہ زلزلوں کے اعتبار سے سرگرم حلقہ میں واقع ہے ۔ یہ زمین کی پرتوں کی چھوٹی سی نقل و حرکت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ارضیاتی عمل ہے جس میں دیو قامت زمینی قطعات ڈھائی کروڑ سال قبل ایک دوسرے سے متصادم ہوئے تھے ۔ اس وقت سے ہندوستان کی ارضی پرت تبت میں گھستی جارہی ہے ۔ ہندوستانی اور یوریشیائی پرتیں سالانہ 20 ملی میٹر قریب ہورہی ہیں ۔ 2400 کیلومیٹر طویل ہمالیائی پٹی میں ایسا ہی ہورہا ہے ۔ اس سے زبردست دباؤ پڑتے ہیں جو وقفہ وقفہ سے زلزلوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔
عظیم زلزلے (جن کی شدت 8 سے زیادہ ہے) پر 80 سال کے وقفہ سے ہمالیائی پٹی میں آتے رہے ہیں یعنی 1803 ، 1833 ، 1887 ، 1905 میں کانگڑا میں ، 1934 (نیپال تا بہار) اور 1950 (آسام تا تبت) زلزلے آئے ہیں جن سے بے انتہا تباہی ہوئی ۔ مظفرآباد (پاکستان) کے زلزلہ کی شدت 7.6 تھی جو 2005 میں آیا تھا جبکہ اس سے کم شدت کا زلزلہ اسی قسم کے دباؤ کے اخراج کے طریقہ کار کا ایک حصہ تھا ۔
ہمالیائی کوتاہیوں کے علاوہ جس میں ہندوستان ، پاکستان ، نیپال ، تبت وغیرہ کے حصے شامل ہیں۔ اس علاقہ میں بڑی کوتاہیاں دریائے سندھ و گنگا کے اور دریائے برہمپترا کے میدان ہیں ۔ رن آف کچھ ، جزیرہ نمائے ہند ، اور جزائر انڈومان ونکوبار بھی اس میں شامل ہیں ۔ صرف ہندوستان کے علاقہ میں 66 خامیوں کی فہرست موجود ہے ۔ سب سے زیادہ جن علاقوں کو خطرہ ہے ان میں اتراکھنڈ ، ہماچل پردیش ، جموں وکشمیر ، شمالی بہار اور کچھ شامل ہیں ۔
جیسا کہ میرے ایک دوست کے نظرثانی شدہ مقالہ برائے سائنس (2001) میں دلیل دی گئی ہے ،تقریباً 5 کروڑ افراد کو عظیم ہمالیائی زلزلہ کا خطرہ ہے۔ ان میں دریائے گنگا کے میدان کے کئی قصبے اور دیہات ، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، ہندوستان ، نیپال ، پاکستان کے کئی دیگر شہر جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے مخدوش علاقے ہیں ۔ جہاں حال ہی میں دباؤ خارج نہیں ہوا ، خاص طور پر مخدوش ہیں ۔ ان حکومتوں کو چاہئے کہ ممکنہ حد تک انتہائی منصوبہ بندی کریں اس میں زلزلہ کی مزاحمت کرنے والی تعمیرات ، اور آفات سماوی کے انتظامیہ کا قیام ، عوام کو معلومات فراہم کرنے اور تعلیم دینے والے نظاموں کا قیام ، زلزلہ کے امکانات کی نگرانی ، شامل ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بہت کم کوئی سبق سیکھاہے ۔ جو 1991 میں اتراکھنڈ ، 1998 میں چمولی ، 2001 میں بھج اور مظفرآباد کے زلزلوں سے سیکھنا چاہئے تھا ۔
گویا کہ یہ سب کچھ کافی برا نہیں تھا ، حکومت ہند، چین اور نیپال کوہ ہمالیہ کے سلسلہ کے انتہائی مخدوش علاقہ میں ہائیڈرو الکٹرک پراجکٹس شروع کررکھے ہیں ۔ ہندوستان نے بھی ریائے بھاگیرتی (دریائے گنگا کی ایک معاون) پر تہری ڈیم کی تعمیر شروع کررکھی ہے ۔ یہ وسطی ہمالیائی سلسلہ کے زلزلہ کے شگاف کے مرکز میں تعمیر کیا جارہا ہے ۔ جہاں کم از کم گذشتہ 500 سال سے کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا اور جہاں ایک بڑا زلزلہ کسی وقت بھی آسکتا ہے۔ جن نامور لوگوںنے تہری ڈیم کے زلزلہ کا شکار ہوجانے کے اندیشہ کا برسرعام انتباہ دیا ہے ان میں ممتاز ماہر ارضیاتی طبیعیات وجود گوڑ بھی شامل ہیں جنھوں نے کولو ریڈو یونیورسٹی کے روجر بلہیام اور پیٹر مولنار کے ساتھ مذکورہ بالا مقالہ برائے سائنس تحریر کیا ہے ۔ حکومت نے تہری ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی ہے ۔ اس کی ساخت ناقص ہے کیونکہ یہ اعظم ترین یقینی زلزلہ کی حرکت کے انتہائی مخدوش میدان میں تعمیر کیا گیا ہے ۔اگر زلزلہ سے اس تالاب میں شگاف پیدا ہوجائے تو لاکھوں لوگوں کے لئے جو دریائے گنگا کے دھارے کی زد میں ہیں اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ غیر ذمہ دارحکومت نے رسالہ ’’کرنٹ سائنس‘‘ (موجودہ علم) نامی رسالہ میں شائع شدہ گوڑ ، بلہیام اور مولنار کے مقالہ کو نظر انداز کردیا اور مہاراشٹرا کے جیتاپور نیوکلیائی برقی توانائی پراجکٹ کی تعمیر سے اتفاق کرلیا جسے امکانی زلزلہ کے اعتبار سے مخدوش علاقہ ہونے کے اندیشوں کو مسترد کردیا گیا ہے ۔ لیکن ہندوستان کا مغربی ساحلی علاقہ مسلمہ طور پر ایسا امکانی علاقہ ہے جو ’’رسوب تلے دبے ہوئے قدیم عیوب کا امکانی نشانہ ہے جو کسی پیانو اکارڈین کے تار کی طرح اچھلنے کے منتظر ہیں‘‘ ۔
جیتاپور میں گذشتہ صدی کے دوران زلزلہ نہ آنے کی غلط تاویل کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہاں زلزلہ نہیں آئے گا حالانکہ قریب ہی میں واقع کوئنا اور لاتور کے علاقوں میں بڑے زلزلے آچکے ہیں جن کی شدت 6 سے زیادہ تھی ۔ اس مقالہ پر سائنسی بحث ہونی چاہئے تھی لیکن ہندوستان کے نیوکلیئر برقی توانائی پراجکٹ کی پیروی کرنے والوں نے اسکا مذاق اڑایا اگور 2012 میں بلہیام کے ہندوستان میں داخلہ پر امتناع عائد کردیا ۔
اس طرح کا ’’قاصد کے قتل‘‘ کا رویہ اختلاف کرنے والے سائنس دانوں کے ساتھ اختیارکرنا ایک خود پسند ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ارباب مجاز کو آفات سماوی سے عوام کے تحفظ کے خیال سے بھی نفرت ہے ۔