نیپال کے سماجی اورمعاشی معیار مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہیں ۔ حالیہ زلزلوں کے بعد تویہ اور بھی غیر مستحکم ہوگئے ہیں ۔ اس لئے اس کی تعمیر نو میں کافی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ۔ ملک کے کمزور معاشی اور سماجی معیاروں کے مستحکم کرنے کے لئے ایک طویل مدت درکار ہے ۔
نیپال میں چند خوشگوار تبدیلیاں بھی حالیہ عرصہ میں دیکھی گئی ہیں ۔ یہ دنیا کی واحد ہندو مملکت تھی جبکہ یہاں پر شاہی حکومت قائم تھی ۔ لیکن عوام کا سیاسی شعور بیدار ہونے کے بعد یہاں کی شاہی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور یہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی ۔ نیپال ایک ہندو ملک سے سیکولر جمہوری ملک بن گیا
حالانکہ اس میں مذہبی اقلیت مسلمان جملہ آبادی کا صرف 6 فیصد ہیں ۔ لیکن نیپال چاروں طرف سے سیکولر جمہوری ممالک سے گھرا ہوا ہے ۔ چنانچہ سیاسی شعور کو بیداری کے ساتھ ہی نیپال کا بھی ایک سیکولر ملک میں تبدیل ہونا ناگزیر تھا ۔ مسلمان بنیادی طور پر سیکولر ہی ہیں ۔ اسلام میں تبدیلی مذہب کے لئے کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے اور نہ اس کے لئے کسی ترغیب و تحریص کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ فرمان الہی ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ (تم کو تمہارا اور ہم کو ہمارا دین مبارک) اسکا بین ثبوت ہے ۔جبر و تخویف یا ترغیب و تحریص کی بنا پر تبدیلی مذہب درحقیقت مذہب کی حقانیت کا ثبوت نہیں بلکہ ان وجوہات کی بنا پر مذہب کی تبدیلی درحقیقت مذہب کی عظمت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی دلیل بن جاتی ہے ۔ چنانچہ دستور ہند بھی جبری تبدیلی مذہب یا حرص و لالچ دے کر مذہب تبدیل کروانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس قسم کی تبدیلی مذہب پائیدار بھی نہیں ہوسکتی بلکہ ان وجوہات کے ختم ہونے پر مذہب تبدیل کرنے والا اپنے سابقہ دین کی طرف لوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ تبدیلی دل سے نہیں بلکہ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے ۔ نیپال کے بارے میں دیگر تفصیلات درج ذیل ہیں جن کی بنا پر نیپال کی تعمیر جدید مشکل ہوسکتی ہے ۔ امکان ہے کہ انتہائی تباہ کن زلزلہ کے بعد جو گذشتہ 80 سال کا بدترین زلزلہ تھا ، نیپال کی تعمیر جدید کے لئے ایک طویل مدت درکار ہوگی ۔ یہ ایشیا کا غریب ترین ملک ہے جس کی جملہ معیشت 120 ارب امریکی ڈالر مالیتی تھی جو زلزلہ کے بعد نصف یعنی 10 ارب امریکی ڈالر مالیتی ہوگئی ہے ۔
نیپال کی جملہ آبادی 8 کروڑ 40 لاکھ ہے اور اس کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی دو کروڑ 80 لاکھ زلزلہ سے متاثر ہوگئی ہے ۔ 14 لاکھ افراد کو فوری طور پر غذائی امداد کی ضرورت ہے ۔
نیپال معاشی لحاظ سے لڑکھڑارہا ہے ۔ اس کی بحیثیت مجموعی قومی فی کس آمدنی قوت خرید کے اعتبار سے 2260 ڈالر ، جی ڈی پی کا حقیقی فروغ 3.78 فیصد ،افراط زر 9.04 فیصد فاضل نقد رقم ؍ خسارہ (جی ڈی پی کا فیصد) 1.50 ہے ۔
صحت کے شعبہ پر جملہ خرچ (جی ڈی پی کا فیصد) 6 ، دواخانوں میں بستروں کی سہولت فی ایک ہزار افراد 0.24 ، برقی توانائی تک رسائی 70 فیصد ، خشک موسم کے دوران برقی سربراہی میں انقطاع 16 گھنٹے ہے ۔
انسانی ترقی کا اشاریہ میں مقام 187 ممالک میں 157 واں ، جی این آئی کوئفیشنٹ (یہ پیمانہ عام طور پر اخراجات کی بنیاد پر عدم مساوات کے لحاظ سے عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے) 35 (0 مکمل مساوات اور 100 مکمل عدم مساوات ظاہر کرتا ہے) بے روزگاری کی شرح (جملہ افرادی طاقت کا فیصد) 2.7 اور برسرکار افراد پہ انحصار کرنے والی کی عمر کا تناسب (فیصد) 66 ہے ۔
یہ تمام مذکورہ بالا منفی وجوہات ہیں جو ہمالیاتی مملکت کے فروغ کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہیں ۔