نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کا

محمد مصطفی علی سروری
وہ بچہ جس کا باپ شرابی ہو اس کیلئے زندگی ذرا مشکل ہی ہوتی ہے لیکن چینائی سے تقریباً 400 کیلو میٹر دور واقع ایک گاؤں کا لڑکا بڑی مشکل سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کرلیتا ہے ۔ باپ کے شرابی ہونے کے باوجود بیٹے نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ہی اپنی تعلیم کو ترک کیا ۔ سرکاری اسکول سے 12 ویں کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد انجنیئرنگ کا انٹرنس لکھا اور اس میں بھی رینک حاصل کرلیا لیکن اس غریب لڑکے کا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے گاؤں سے 400 کیلو میٹر کا سفر طئے ، چینائی جانے کیلئے پیسے نہیں رکھتا تھا ۔ ایسی مجبور حالت میں اس نوجوان کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ، اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی ماں اور بہن کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ دونوں ناریل کے پتوں سے چیزیں بناکر فروخت کرتے تھے اور اس طرح گھر کے اخراجات پورے ہوتے تھے ۔ بارھویں کامیاب گاؤں کے اس لڑکے نے ایک مل میں کام کرنا شروع کیا ۔ اس نوکری سے جب پیسے ملنے لگے تو اس گاؤں والے نے اپنے چھوٹے بھائی کو انجنیئرنگ میں داخلہ دلوا دیا اور پھراپنی بڑی بہن کی شادی کرنے میں ماں کا ہاتھ بٹایا ۔ ان ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر اس شرابی باپ کے شریف لڑکے نے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کی اور بالآخر اس کو اپنے گاؤں سے 325 کیلو میٹر دور ایک انجنیئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا ۔ بارھویں جماعت تک اپنی مادری زبان ٹامل میں حاصل کرنے والے اس نوجوان کو انجنیئرنگ کے پہلے برس کے دوران انگلش سیکھنے کیلئے بہت محنت کرنی پڑی۔ اس گاؤں والے انجنیئرنگ کے طالب علم کو کسی نے بتلایا کہ اگر تم چینائی کے فلاں ٹیچر سے ملو تو وہ تمہاری مدد کردیں گے تو گاؤں کا یہ لڑ کا اپنی Skills کو بہتر بنانے کیلئے ہر ہفتہ چھٹی کے دنوں میں چینائی میں اپنے استاد سے ملنے چلا جاتا ، دن میں ان سے سیکھتا ان کی کلاسیس میں شرکت کرتا اور رات میں ریلوے کے پلیٹ فارم پر سوجاتا اور پھر اگلے پیر کے دن کالج اٹینڈ کرنے واپس چلا جاتا ، دن میں کالج کرتا اور شام میں ایک موبائیل فون ری چارج کی دکان پر پارٹ ٹائم نوکری کرتا رہا تاکہ اپنی تعلیم کے اخراجات خود جمع کرسکے۔
اخبار ہندوستان ٹائمز آف انڈیا نے 28 اپریل 2018 ء کو اس نوجوان کے متعلق تفصیلی انٹرویو شائع کیا ۔ ایک شرابی باپ کا معاشی طور پر پریشان حال لڑکا ہمت ہار کر نہیں بیٹھا اور محنت کر کے آگے بڑھتا رہا۔ سال 2014 ء میں اس گاؤں والے نوجوان جس کا نام پربھاکرن ہے ، نے آئی آئی ٹی مدراس سے امتیازی نشانات کے ساتھ ایم ٹیک کا کورس پاس کیا اور جب 2018 ء میں یونین پبلک سرویس کمیشن نے کامیاب امیدواروں کی فہرست جاری کی تو اس میں پربھاکرن نے (10) واں مقام حاصل کرتے ہوئے آئی اے ایس کے لئے کامیابی درج کروائی ۔ شرابی باپ کے اس لڑکے نے بتلایا کہ میں نے اپنے گھر کے حالات دیکھنے کے بعد عزم کرلیا تھا کہ میں گھر کے حالات سے بھاگوں گا نہیں بلکہ ان کا سامنا کروں گا اور پھر ان مسائل کو حل کروں گا ۔ چینائی سے تقریباً 400 کیلو میٹر دور گاؤں کے اس نوجوان کی کہانی سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم حالات کا رونا روتے ہیں تو مسائل حل ہونے والے نہیں۔ مسائل کو حل کرنے ان کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ دن میں پڑھائی کرنا اور راتوں میں پلیٹ فارم پر سوجانا کسی فلم کی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ پلیٹ فارم کا ذکر آیا تو گزشتہ دنوں کیرالا سے ایسے ہی ایک محنتی پورٹر کی خبر میڈیا میں آئی ۔ اخبار انڈین اکسپریس نے 12 مئی 2018 ء کو کیرالا کے ایک ایسے غریب لڑکے کی اسٹوری کو شائع کیا جو دن میں ریلوے اسٹیشن پر حمالی (پورٹر) کا کام کرتا تھا اور راتوںمیں بھی ریلوے اسٹیشن پر رہ کر پڑھائی کرتا تھا ۔ ریلوے اسٹیشن پر پڑھائی کا تصور ذرا غیر معمولی ہے لیکن 27 سال کا سریناتھ ایسے ہی کرتا تھا ۔ اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میںاس نے بتلایا کہ اس نے کیرالا کے پبلک سرویس امتحان کی کامیابی کیلئے انٹرنیٹ سے مواد (Content) حاصل کیا۔ غریب کے پاس موبائیل فون تو ہوسکتا ہے، مگر انٹرنیٹ کا خرچ اٹھانا اس کے بجٹ سے باہر کی بات ہوتی ہے مگر کیرالا کے ایرناکلم ریلوے اسٹیشن پر کام کرنے والے اس پورٹر نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا اور سرکار کی طرف سے ریلوے اسٹیشن پر دیئے جانے والے فری انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا ۔ سریناتھ لوگوں کا سامان تو اٹھاتا ہی تھا ، ساتھ ہی وہ ریلوے اسٹیشن پر موجود وائی فائی سے اپنے موبائیل فون میں اسٹڈی میٹریل ڈاؤن لوڈ کر کے اس کو سنتا اور پڑھتا رہتا تھا ۔ پچھلے (18) مہینوں کے دوران سریناتھ کا ایک ہی معمول تھا ، دن میں حمال کا کام کرنا اور رات میں اپنے موبائیل فون پر موجود اسٹڈی میٹریل کو پڑھنا اور سننا سریناتھ سے جب اخبار کے رپورٹر نے دریافت کیا کہ وہ انٹرنیٹ سے کیا میٹریل ڈاؤن لوڈ کرتا تھا تو اس نے بتلایا کہ وہ گوگل پر Most asked question in public service examination current affairs, General Knowledge اور Maths کے ٹاپک پر مواد ڈھونڈ کر اس کو فون میں محفوظ کرلیتا تھا اور رات میں روزانہ 10 بجے سے ایک بجے تک اس کو پڑھتا رہتا تھا ۔
سریناتھ اکیلا نہیں ہے ، سریناتھ کے ساتھ اس کے ماں باپ اس کی بیوی اور ایک بچہ بھی اس کی کمائی پر منحصر ہیں۔ کیرالا پبلک سرویس کا امتحان پاس کرنے کے بعد سریناتھ کو قوی توقع ہے کہ نوکری مل جائے گی لیکن وہ اس کے علاوہ بھی دیگر امتحانات کی تیاری کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے اس کو نوکری نہ ملے تو وہ دیگر نوکریوں کیلئے بھی سرکاری امتحانات لکھتا رہے گا کیونکہ پڑھائی کی تیاری تو اس نے کرلی ہے ۔ اب وہ ریلوے کی نوکری کا بھی امتحان لکھ رہا ہے۔ یہ تو ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس نے غریبی کو بہانہ نہیں بنایا ۔ گھر کے خراب معاشی حالات کا رونا نہیں رویا اور محنت و مستقل مزاجی سے آگے بڑھتا رہا ۔
مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جب لوگ شکایت کرتے ہیں کہ بھائی صاحب کیا بولنا جب سے JIO کا فری انٹرنیٹ آیا ہے بچے تو فون میں ہی گھسے رہتے ہیں اور ان کا ریزلٹ بھی خراب آرہا ہے ۔ ایک ہم ہیں کہ گھر بیٹھے ملنے والی سرویس کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں اور ایک دوسری قوم ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر ملنے والی فری سہولیات کا بھی بامقصد استعمال کرتے ہوئے کامیابی درج کر رہی ہے۔
8 مئی 2018 ء کو ریاست پنجاب کے اسکول ایجوکیشن بورڈ نے دسویں کے نتائج کا اعلان کیا ۔ جس کے بعد جسویر سنگھ کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا 41 سال کے اس شخص نے دسویںکا امتحان پاس کیا ہے تو میں بتانا چاہوں گا کہ جسویر سنگھ نہیں بلکہ اس کی بیٹی نے دسویں کا امتحان پاس کیا ہے اور جسویر سنگھ کون ہے ؟ جسویر سنگھ ایک بزنسمین ہے اور اس کا بزنس کیا ہے ، وہ بھی جان لیجئے لیکن اس سے پہلے یہ بھی سن لیجئے کہ اپنے اس بزنس سے جسویر کو ہر مہینہ 10 تا 12 ہزار روپئے مل جاتے ہیں اور ان کے بزنس کو اخبار انڈین اکسپریس نے اپنی 19 مئی 2018 ء کی رپورٹ میں کہا کہ جسویر کے بزنس کا نام ’’گیانی ٹی اسٹال‘‘ جی ہاں جسویر، جو بزنس کرتا ہے ، اس کو دنیا چائے کی دکان کے نام سے جانتی ہے ۔ جسویر خود دسویں تک پڑھا ہے ۔ اس نے اپنی چائے کی دکان کھول لی لیکن وہ اپنی بچی کو آگے پڑھانا چاہتا ہے، اس نے اپنی لڑکی کو میڈیسن کی تعلیم دلوانا طئے کیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں اپنی بچی کے گیارھویں جماعت میں داخلہ کیلئے اس چائے والے نے 10 ہزار کا قرضہ لیا ہے تاکہ بچی کو اچھے کالج میں داخلہ دلواسکیں۔ اس غریب چائے والے کی بیٹی نے 650 میں 633 مارکس حاصل کئے اور اپنی پوری تعلیم کے دوران ٹیوشن نہیں لیا ۔ غریب کی بیٹی ٹیوشن لیتی بھی کیسے ، پہلے اسکول کی فیس ہی دینا مسئلہ ہے تو ٹیوشن کی فیس کہاں سے آئے گی ۔ جسویر سنگھ کی یہ لڑکی پڑھائی کے ساتھ بیس بال بھی خوب دلچسپی سے کھیلتی ہے ، ، اس کے مطابق اگر میں کھیل کود کے اس میدان میں اچھا مظاہرہ کروں تو مجھے آگے کی تعلیم میں اسپورٹس کوٹہ کا ریزرویشن مل سکتا ہے۔ غریب چائے والی کی بیٹی ہے لیکن اس کے ہاں زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے مقاصد بالکل واضح ہے کہ ڈاکٹری پڑھنا ہے اور ڈاکٹری میں داخلہ مشکل ہے تو ساتھ میں کھیل کود میں بھی اپنے مظاہرہ کو بہتر کرتے ہوئے اسپورٹس کوٹہ میں جگہ بنانے کی کوشش کرنا ہے ۔ ایک تو یہ لڑکی ہے جو کھیل کود کو بھی اپنے تعلیمی کیریئر کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف ہمارے بچے ہیں کہ کھیل کود میں پڑ کر اپنے تعلیمی کیریئر کو برباد کر رہے ہیں۔
اس چائے والے کی ترجیحات بھی دیکھ لیجئے کہ قرضہ لے رہا ہے تو اپنی لڑکی کی تعلیم کیلئے اور دوسری طرف ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم قرضہ تو لیتے ہیں اور زندگی کے ہر قدم پر لیتے ہیں لیکن اس قرضے کی نوعیت کیا ہوتی ہے ۔ یہ بھی جان لیجئے منگنی کی تقریب کیلئے قرضہ ، شادی کیلئے قرضہ ، ولیمہ کے لئے قرضہ ، زچگی کیلئے قرضہ چھلہ اور چھٹی کے لئے قرصہ ، ٹی وی کے لئے قرضہ ، گاڑی کے لئے قرضہ اگر کسی چیز کیلئے ہم پیچھے ہٹتے ہیں تو وہ تعلیم ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ ہدایت پر چلادے اور ہمیں اپنا وہ منصب سمجھادے جس پر چلنے کیلئے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔ آمین یا رب العالمین
sarwari829yahoo.com