محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ
اس وارفتگان حسینہ ہندوستان
اس حسینہ کے گالوں پر موجود سیکولرازم کا غازہ ، چشم آہونما میں لگی ہوئی ہندو مسلم اتحاد کے کاجل کی تحریر اس کے یاقوتی لبوں کی رواداری کی سرخی ،اس کے زلف دراز سے آتی ہوئی پیار و محبت کی مہک ، اس کے روشن ماتھے پر دمکتا ہوا قومی اتحاد کا ٹیکہ ، اس کے صراحی دار گردن میں روشنیاں بکھیرتا ہوا اردو کا گلوبند ، اس کے ہاتھوں پر لگی ہوئی انصاف کی مہندی سب کچھ ماند پڑنے کو ہے ۔ ختم ہونے کو ہے ۔ اب اہلیان گلشن ہند کس خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہو؟ اس گلشن کی بہار کادامن جو گلہائے رنگارنگ سے سجا رہتا تھا بہت جلد خزاں کے کانٹوں سے چھلنی ہونے کو ہے ۔ اس چمن کے عندلیبوں کے مقامات آہ و فغاں و ترانہ محبت کی ٹہنیوں پر کرخت آواز والے سیاہ رو زاغوں نے قبضہ جمالیا ہے ۔ وہ خانہ برانداز چمن جو گل اور ثمر ساکنان چمن پر نچھاور کرتا تھا اب نقل مقام کرچکا ہے ۔ اب اس چمن ہند نے جمہوریت کا لبادہ اتار کر آمریت کا لباس زیب تن کرلیا ہے ۔ اس چمن کے شجر سیکولرازم پر کھلے ہوئے خلوص محبت اتحاد و یکجہتی کے پھولوں کو نوچ نوچ کر پھینکا جارہا ہے ۔کوشش کی جارہی ہے کہ اس کی جگہ نفرت وعداوت کے پودے لگائے جائیں ۔ ہندو مسلم منافرت کے بیج بوئے جائیں اور پھر مسلم دشمنی سے ان کی آبیاری کی جائے ۔ ایسے نازک لمحات میں ہمارے لبوں پر سکوت کی مہر ، ہمارے مفلوج ذہن ، غیر کارکرد اعضا جسم ، اس امر کے غماز ہیں کہ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں ۔
آج رقیبان روسیاہ ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کی سیاسی اہمیت کو ختم کرنے ، جمہوری ایوانوں میں ان کے داخلوں کو روکنے ، ان کی آواز کو دبانے ، ملک کیلئے ان کی ناقابل فراموش قربانیوں پر سیاہی پوتنے ، ان کی نسل کو اپنا ذہنی غلام بنانے ، ان کے مذہبی لبادے کو تار تار کرنے کے لئے ، اس ہندوستان کو اسپین بنانے کے لئے ہر زاویے ، ہر گوشے ، ہر مقام سے حملے کررہے ہیں اور ہم ہیں کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ آج مسلمانوں کی تعداد کو کم کرنے کیلئے تبدیلی مذہب کی مذموم کوشش کی جارہی ہے جس کو گھر واپسی کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد دراصل ہندو تھے ۔ لہذا ہمارا دوبارہ ہندو مذہب اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے اور یہ کہ ہمارا سلسلہ نسب ہندوؤں سے جا ملتا ہے ۔
یہ تاریخی حقیقت ہے اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سندھ کو اپنی عملداری میں لینے کے بعد شبستان ہند میں ہم نے شمع توحید روشن کی تھی ، جو آج بھی فروزاں ہے پھر ہم نے یہاں کی غیر مسلم خواتین کو اپنے حبالۂ عقد میں لیا تھا ۔ انھیں عزت و توقیر کے زیور پہنائے ۔ حیا کے لباس سے آراستہ کیا ۔ گویا ہمارے والد بزرگوار مسلم اور والدہ محترمہ ہندو تھے اور اولاد باپ کی نسل سے آگے بڑھی ۔ پھر باپ مسلم تو بیٹا ہندو کیسے ہوگیا !؟
آر ایس ایس کے نیتاؤں اور وشوا ہندو پریشد کے ڈھنڈورچیوں کو کیا اتنی سیدھی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ یا پھر یہ لوگ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔ تاکہ معصوم ہندو بھائیو ںکے اذہان کو متاثر کیا جائے ۔ ’’گھر واپسی‘‘ کی تحریک دراصل شدھی تحریک کا دوسرا نام ہے ۔ شدھی تحریک مسلمانوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی ۔ لہذااب خواب ناتمام کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے یہ لوگ قانون کا سہارا لینے کے لئے بی جے پی کی مانگ میں اقتدار کا سیندور بھرچکے ہیں ۔
آر ایس ایس نے اپنے سیاسی بازو بی جے پی کے ذریعے ہندوستان پر اپنا تسلط جمالیا ہے ۔اس جماعت کو اس کے کرتا دھرتاؤں کو اب اپنے فاسد ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یعنی اس سیکولر ملک کو ہندودیش بنانے کے لئے دستور ہند میں ترمیم لاکر اقلیتوں کی شناخت ختم کرنے ، تمام ہندوستانیوں کو ’’ہندو‘‘ قرار دینے کے لئے انکی راہ میں صرف مسلمان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ اسی لئے بی جے پی نے مختلف ریاستوں میں (سوائے جموں کشمیر کے) حالیہ منعقدہ اسمبلی و پارلیمنٹ کے انتخابات میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ اس طرح ہم کو اقتدار کی راہداری سے دور رکھا گیا ۔ اسمبلی و پارلیمنٹ ، قانون ساز ادارے ہیں یہاں قانون سازی ہوتی ہے ۔ ان اداروں سے ہماری دوری ایسے قوانین کی تدوین کی راہ ہموار کرسکتی ہے ۔ جو ہمارے لئے مستقبل کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بی جے پی ، آر ایس ایس کے منصوبے کو کامیاب بنانے ایسے قوانین بنائے گی جو ہماری شناخت ختم کرنے کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوں گے ۔ اس تناظر میں موہن بھاگوت کا یہ اعلان کہ ہندوستان کا ہر شہری بلالحاظ عقیدہ ’’ہندو‘‘ ہے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ ایک اور بی جے پی لیڈر شریمتی سادھوی پراچی کا یہ اعلان کہ ’’ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد مسلمان نہیں ہندو ہے اگر کوئی اپنی شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتا تو پاکستان چلا جائے‘‘ ۔ علی الاعلان مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
ایسے بیانات کی کسی گوشے سے مذمت نہیں کی گئی یعنی درگاہ اقتدار سے وابستہ افراد نے ان بیانات کو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف نہیں قرار دیا ۔ اس چیلنج کا ہمیں متحد ہو کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے ۔ ہمیں ببانگ دہل کہنا ہوگا کہ ’’ہم مسلمان ہیں تادم زیست مسلمان رہیں گے پھر اسی ملک کی دو گز زمین لیکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں گے‘‘ ۔ ہم ہر اس طاقت کا مقابلہ کریں گے جو ہماری اسلامی شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہے ۔ مسلمان ان لمحات میں ہرگز بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں ۔ مصلحت سے کام نہ لیں ۔ چند سکوں کے عوض اپنے ضمیر کا سودا نہ کریں ورنہ لوح ہند سے ہمارا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ ہماری نسل ہندومت کا طوق گلے میں ڈالے تادم آخر ہم پر تھوکے گی‘‘ ۔
پھر بی جے پی کے منتخب ایک خاتون رکن پارلیمان نے مرکزی وزیر ہونے کے باوجود یہ زہر اگلا کہ ’’رام جی کی حقیقی اولاد ہمیں ووٹ دے گی ناجائز اولاد نہیں دے گی‘‘ ۔ دیگر الفاظ میں بی جے پی کے مخالفین کو ’’حرام زادہ‘‘ کہہ کرگالی دی گئی اور وزیراعظم خاموش ہیں !؟
ایسا کہنا کیا جمہوری اصولوں کے مغائر نہیں ۔ کیا دستور ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم سیاسی اختلاف کی بنا پر دوسروں کو illegitimate children کہیں ۔ کیا ایک تہذیب یافتہ قوم کے فرد کو زیب دیتا ہے کہ وہ رکن پارلیمنٹ کے علاوہ مرکزی وزیر ہونے کے باوجود اتنی نچلی سطح پر اتر آئے ۔ اور ایک صاحب نے لب کشائی کی اور کہا کہ مسلمانوں کو گھر واپسی کی طرف راغب کرنا دراصل ان کے قدیم اور اصلی مذہب سے دوبارہ وابستہ کرنا ہے ۔ کیا بی جے پی دستور ہند کے آرٹیکل 25 کو بھول چکی ہے ۔ اس کے ارکان لوک سبھا جنہوں نے دستور ہند سے وفاداری کا حلف لیا ہے اس بات کیلئے آزاد ہیں کہ وہ اسی دستور کے پرخچے اڑادیں ۔ اس کی توہین کریں ۔ واہ رے جمہوریت ! واہ رے بی جے پی !!
یہ الزام کہ مسلمان بہ رضا و رغبت بلا جبرو اکراہ اپنی شناخت ختم کرکے اپنے آبائی مذہب یعنی ہندو مذہب کی طرف لوٹ رہے ہیں ایک سفید جھوٹ ہے ۔ ایسے بیانات افتراق انگیز اور دروغ گوئی کی بدترین مثال ہیں ۔ کوئی مسلمان جو اللہ کی وحدانیت و رہبانیت کا دل سے اقرار کرتا ہے ، روز آخرت پر یقین رکھتا ہے ، موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا جس کا جز ایمان ہے وہ ہرگز ہرگز مرتد نہیں ہوسکتا ۔ اپنے مذہبی عقیدے سے منہ نہیں موڑ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کے مسلمانوں نے اپنی جائیدادوں ، مکانوں ، دوکانوں ، کھیتوں کو نذر آتش ہوتے دیکھا لیکن جئے شری رام نہیں کہا ۔ اپنے پیاروں کو اپنے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آگ کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا ، اپنی پھول جیسی بیٹیوں کی عصمت دری دیکھی ، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک ہوتے ہوئے دیکھا لیکن دامن رسولؐ کو نہیں چھوڑا ۔ ہم ہندوتوا وادی طاقتوں سے پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں کی گھر واپسی گجرات کے انسانیت سوز مظالم کے بعد بھلا کیوں نہیں ہوئی ؟ جبکہ مسلمان دہشت زدہ تھے ، بے خانماں برباد تھے ، یتیم و یسیر تھے ، قیامت صغری جن پر برپا ہوئی تھی ۔ بے شک ایسی مہم اس لئے شروع نہیں کی گئی تھی کہ بی جے پی یا آر ایس ایس یا وشوا ہندو پریشد کو اقتدار کی چھتری نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ ہماری بدنصیبی کہئے یا ان کی خوش نصیبی کہ جیسے ہی ان افراد کی اقتدار کی بھوک مٹی ، انھوں نے مسلمانوں کی شناخت اور مذہبی عقیدے پرحملے کرنا شروع کردیا ۔ ہمارا سیاسی طور پر کمزور پڑنا ، ہمارا ملی انتشار ، ہمارا ملکی اختلاف اور ہماری سیاسی یتیمی نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ۔
اب کہا جارہا ہے کہ ہندو خواتین چار پانچ بچے پیدا کریں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ضرور کیجئے کس نے آپ کو روکا ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے بیانات سے کیوں الرجی ہورہی ہے ۔کیا کوئی لیڈر ، کوئی سادھو کوئی سادھوی یہ کہہ رہا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ بچے پیدا نہ کریں ۔ مسلمانو ! تم بھی گیارہ بچے پیدا کرو ، دیکھیں دنیا کی کونسی طاقت تمہیں اس نیک کام سے روک سکتی ہے ۔ یاد رکھو تمہاری بزدلی تمہیں ہندوستان میں رہنے نہ دے گی ۔ تمہاری کمزوری تمہاری ’مرگ مفاجات‘ کا باعث بن جائے گی ۔ اگر تم بزدل ہوجاؤگے ، منتشر ہوجاؤگے تو مسجد کے میناروں سے اذان کی صدائیں بلند نہ ہوں گی ۔ مسجد کے محراب و منبر پیام توحید سے محروم ہوجائیں گے ۔ مساجد نمازیوں کے سجدوں کیلئے ماتم کناں ہوجائیں گی ۔ مساجد دیوی دیوتاؤں کا مسکن بن جائیں گی یا پھر گھوڑوں کا اصطبل ۔ مسلمانو ! عیاشی کے بستر پر آرام کی نیند کے مزے لوٹنا چھوڑو ۔ ہر لمحہ اپنے اچھے اور برے اعمال کیلئے بروز محشر اللہ کے آگے جوابدہ ہونے کا سوچو ۔
کیا تمہیں منظور ہے کہ تم اور تمہاری اولاد رب ذوالجلال و اکرام کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے دنیاوی خداؤں کی دہلیز پر سجدہ کریں ؟ کیا تمہیں منظور ہے کہ تمہاری اولاد قرآنی احکامات پر عمل کرنا چھوڑدے؟
کیا تمہیں گوارہ ہے کہ تم معاشی طور پر اتنے کمزور کردئے جاؤ کہ دو وقت کی روٹی کیلئے تم یا تمہاری اولاد سڑک پر جھاڑو دینے لگے ۔ اگر منظور ہے تو بے شک اپنی حرام کی کمائی سے عیاشی کرو ، شراب پیٹو ، جوا کھیلو ، سود کے کاروبار کو چمکاؤ ، یاد رکھو تمہارے اعمال کی وجہ یہ چمن اڑ جائے گا ۔ خزاں رسیدہ ہوجائے گا ۔
نسیم سحر اپنے عطر بیز زلفیں یہاں نہیں کھولے گی ۔ کلیاں نہیں مسکرائیں گی ۔ غنچے نہیں ہنسیں گے اور
نہ گل رہے گا نہ گل کی بو باقی