نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

محمد مصطفی علی سروری
ایک ٹیچر صرف پڑھانے کا کام ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اگر چاہے تو قوم و ملت کی سوئی ہوئی قسمت کو بھی بدل سکتا ہے ۔ جب ٹیچر کسی سرکاری اسکول کا ہو اور اسکول اردو میڈیم کا ہو تو اس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ سید رفیق صاحب بھی 27 برسوں تک ایک گورنمنٹ ا سکول ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد 31 جولائی 2017 ء کو وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوگئے ۔ یوں تو ہر مہینہ ہی کوئی نہ کوئی ٹیچر ریٹائرڈ ہوتا ہے لیکن بہت کم ٹیچر ایسے ہوتے ہیں جن کے روبرو ہی نہیں بلکہ ان کے غیاب میں بھی ان کی تعریف اور کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں سید رفیق صاحب کی سب سے خاص بات تو یہ رہی کہ انہوں نے اپنی بینائی سے محرومی کے باوجود ممکنہ طور پر اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے اتنا ہی نہیں ان کے ساتھی اساتذہ نے بتلایا کہ جب گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول اعظم پورہ نمبر (1) اردو میڈیم کا اسکول بند ہونے کے درپے تھا تو سید رفیق صاحب نے مختلف عوامی نمائندوں اور سرکاری عہدیداروں سے نمائندگی کرتے ہوئے اردو میڈیم کے اسکول کو بند ہونے سے بچالیا بلکہ اسکول کیلئے اپنی ذاتی عمارت کے حصول کو بھی ممکن بنایا ۔ جب رفیق صاحب کی سبکدوشی کا وقت آیا تو ان کے ساتھی اساتذہ ہی نہیں بلکہ شہر کے دوسرے اسکولس کے اساتذہ بھی موجود تھے اور پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ 27 سال تک خدمات انجام دینے پر انہیں مبا رکباد دے رہے تھے۔ سید رفیق صاحب اگرچہ تلگو پڑھاتے تھے لیکن ان کی خدمات کا دیگر مضامین کیلئے بھی اعتراف کیا گیا ۔ آج کے اس کالم میں اردو میڈیم کے ایک اسکول ٹیچر کے ریٹائرمنٹ کا قصے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر اردو میڈیم کے سبھی اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بحسن خوبی ادا کریں تو اردو میڈیم اسکولس میں طلباء کی کم تعداد اور اردو میڈیم اسکولس کی مسدودی کے چیالنجس سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے ۔ اردو میڈیم اسکولس کے مسائل کو دو زمروں میں بانٹا جاسکتا ہے ، ایک تو وہ مسائل ہیں جو سرکار کی اور سرکاری اداروں اور ٹیچرس سے متعلق ہیں، دوم وہ امور ہیں جن پر خود اردو والوں ، اردو اداروں ، اردو صحافت ، اردو انجمنوں کو غور کرنا ہے کیونکہ پچھلے برس جب شہر میں بھی سرکاری ریسیڈنشل اسکولس کا جال بچھادیا گیا تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر گورنمنٹ اردو میڈیم اسکول میں داخلوں پر پڑا۔ وہ غریب جو آج تک کسی نہ کسی سبب اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولس میں پڑھاتا تھا ، وہ یہ دیکھ کر متاثر ہوگیا کہ مساجد کے ممبران سے مسجد کے اندر اور مسجد کے باہر بڑی بڑی ہورڈنگ لگاکر سب ایک ہی آواز لگا رہے تھے کہ اپنے بچوں کو بغیر کسی فیس کے انگلش میڈیم کے اسکول میں تعلیم دلوانا ضروری ہے ، یہ اپیل کوئی اور نہیں ، ائمہ و خطیب حضرات کر رہے تھے اور یہ لوگ تنہا نہیں تھے ، مسلم سماج کا ہر وہ فرد جو اپنے آپ کو دانشمند کہلواتا تھا ، وہ بس ایک ہی کام کر رہا تھا کہ مسلم اقلیت کے بچوں کو انگلش میڈیم کے ریسیڈنشل ا سکولس میں داخلہ دلوایا جائے۔
کیا انگلش میڈیم سے پڑھائی کروانا ہی ترقی کا راستہ ہے ؟ اس حوالے سے سوچنا ہوگا ۔ ہماری ریاست تلنگانہ میں ہی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جواپنے بچوں کو کنڑا میڈیم سے تعلیم دلوارہے ہیں اور ایسے سرپرست بھی ہیں جو اپنے بچوں کو مراٹھی میڈیم سے تعلیم دلوا رہے ہیں۔ یہی نہیں کم تعداد میں سہی ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تامل میڈیم میں پڑھا رہے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ میں رہنے کے با وجود آخر کیا وجہ کہ تلگو اور انگلش یا ہندی میڈیم کو چھوڑکر کچھ لوگ کنڑا ، تامل اور مراٹھی میڈیم سے اپنے بچوں کو پڑھانا پسند کرتے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر کے مطابق ’’جو والدین ٹاملناڈو سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو تامل میڈیم سے پڑھاتے ہیں اور اس طرح جن کا تعلق کرناٹک سے ہے، وہ اپنے بچوں کیلئے کنڑا اور جو خاندان مہاراشٹرا سے تعلق رکھتے یا وہاں ان کے مفادات جڑے ہیں یا وہ اس ریاست سے جڑے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں تو وہ لوگ اپنے بچوں کو ان کی اپنی خاندانی مادری زبان میں تعلیم دلوانا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ اپنی زبان اپنی تہذیب و تمدن سے جڑے رہ سکیں۔

ریاست تلنگانہ میں مارچ 2017 ء کے دوران منعقدہ ایس ایس سی کے سالانہ امتحانات میں (72871) مسلم طلبہ نے شرکت کی تھی ، مسلم طلباء کا ایس ایس سی میں کامیابی کا فیصد (74.89) ریکارڈ کیا گیا ۔ قانون حق معلومات (RTI) کے ایکٹ 2005 ء کے تحت میں نے اسسٹنٹ کمشنر فار گو رنمنٹ ایگزام کو ایک درخواست لکھ کر ایس ایس سی 2017 ء میں کامیاب ہونے والے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے طلباء کی تفصیلات معلوم کی تو درج ذیل تفصیلات کا پتہ چلا۔
تلنگانہ ایس ایس سی مارچ 2017
سلسلہ نشان
طبقہ کا نام
کامیابی کا فیصد
1
جین طلباء
95%
2
سکھ طلباء
87%
3
کرسچین طلباء
85%
4
ایس ٹی طلباء
81%
5
ایس سی طلباء
80%
6
مسلم طلباء
74.89%
مندرجہ بالا چارٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں ایس ایس سی میں کامیابی کا تناسب سب سے کم اگر کسی قوم میں ہے تو وہ مسلم قوم ہے۔ مسلم قوم میں نا کامی کا فیصد سب سے زیادہ ہے ۔ اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان طلباء کی اکثریت اردو میڈیم سے پڑھ رہی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان چاہے کسی بھی میڈیم سے پڑھیں ، ان کا بحیثیت مجموعی کامیابی کا فیصد دیگر طبقات کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ اس سارے پس منظر میں یہ سوچنا کہ مسلمان اگر انگلش میڈیم سے پڑھنے لگے تو وہ کامیاب ہوجائے گا صرف خام خیالی ہے۔
مارچ 2017 ء میں جملہ (72871) مسلم طلباء نے شرکت کی تھی اور اردو میڈیم سے ایس ایس سی کا امتحان لکھنے والے طلباء کی تعداد صرف (15%) فیصد تھی ۔ جی ہاں صرف (11446)مسلم طلباء نے ایس ایس سی کا امتحان اردو میڈیم سے لکھا تھا یعنی مسلم طلباء کی اکثریت اردو میڈیم سے نہیں پڑھ رہی ہے مگر ان میں فیل ہونے کا تناسب سب سے زیادہ ہے ۔ اس پس منظر میں یہ کہنا سچ ہے کہ مسلمانوں میں ناکامی کا فیصد زیادہ ہونے کیلئے کچھ اور عوامل ذمہ دار ہیں ۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد جب یہ پتہ چلتا ہے کہ تلنگانہ ریسیڈنشیل اسکولس میں داخلوں کیلئے زبردست مہم چلانے کے منفی اثرات اردو میڈیم کے سرکاری اسکولس میں داخلوں پر پڑ رہے ہیں تو سب کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کو بھی اس بات پر اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ کیا مسلمانوں کو انگلش میڈیم سے پڑھانے سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے اور جو کوئی مسلم انگلش میڈیم سے پڑھ لے تو اس کو روزگار ملنے کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے ۔ ارے جناب انجنیئرنگ مکمل کرنے کے بعد بھی تقریباً آدھے انجنیئرس بے روزگار ہیں اور ہم اپنی زبان تہذیب وتمدن کو چھوڑ کر انگلش کو ہر مسئلہ کا حل سمجھ رہے ہیں۔ 24 جولائی 2017 ء کو لوک سبھا میں وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاویڈکر نے بتلایا کہ 2015-16 ء کے دوران ملک کے مختلف کالجس سے انجنیئرنگ کرنے والے 56 فیصدی طلباء ہنوز بے روزگار ہیں اور حکومت انجنیئرس کی بڑھتی بے روزگاری سے پریشان ہوکر انجنیئرنگ کے طلباء کو کورس کے دوران ہی تین انٹرن شپ (Internship) کرنا لازمی قرار دیا ہے ۔ (بحوالہ ہندوستان ٹائمز 25 جولائی 2017 ء)
اردو میڈیم اسکولس کا تحفظ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان اسکولس کے ذریعہ مسلمانوں کی اچھی تعداد کو سرکاری ملازمت سے استفادہ کا موقع ملتا ہے ۔ سدھیر کمیشن کی رپورٹ 2016 ء کے مطابق ریاست تلنگانہ میں مسلمان ملازمین کی سب سے بڑی تعداد ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں ہے۔ تلنگانہ سکریٹریٹ کے مختلف محکموں میں کام کرنے والے مسلم ملازمین کی کل تعداد (35279) تھی جس میں سے ا یجوکیشن ڈپارٹمنٹ واحد ایسا شعبہ جہاں (8496) مسلمان برسر رو زگار ہیں، اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے سرکاری ڈپارٹمنٹ میں مسلمان نہیں ہیں۔

اس کالم کے ابتداء میں جس ٹیچر (سید رفیق صاحب) کا ذکر کیا گیا تھا ، آج ایسے ہی ٹیچرس اردو میڈیم اسکولس کو زندہ رکھنے کیلئے عملی طور پر کام کر رہے ہیں لیکن اردو میڈیم اسکولس کا تحفظ صرف چند ایک اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ جو لوگ اس بات پر فکرمند ہیں کہ مسلم نوجوان لاپرواہ ہوتے جارہے، اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہورہے ہیں، وہ اس بات کو سمجھ لیں کہ کنڑا بولنے والے تلنگانہ میں آکر بھی اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھانا پسند کر رہے ہیں۔ تامل بولنے والے تلنگانہ میں رہ کر بھی اپنی تہذیب و تمدن سے اپنے بچوں کو جوڑے رکھنے کیلئے تامل میڈیم سے پڑھانا پسند کرتے ہیں۔ مراہٹی بولنے والے وہ لوگ جو تلنگانہ میں رہتے ہیں ، اپنے بچوں کو اپنی تہذیب و تمدن سے جوڑنے اور جڑوں سے جڑے رہنے کیلئے مرہٹی میں تعلیم دلواتے ہیں۔ مسلمان اردو کو اپنی مادری زبان بڑے فخر سے کہتا ہے اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم سے پڑھاتا ہے ۔ اب بچے نہ تو اردو میں ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں اور نہ انگریزی میڈیم انہیں کامیاب کرتا ہے نہ تو اردو ہی صحیح سے لکھ پاتے ہیں اور نہ انگریزی کا حق ادا کرتے ۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم
نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی مثالیں سامنے ہیں۔
برطانیہ کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہے۔
امریکہ کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہے
فرانس کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان (جو کہ انگریزی نہیں) میں ہے۔
جرمنی کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان (جو کہ انگریزی نہیں) میں ہے۔
روس کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان (جو کہ انگریزی نہیں) میں ہے۔
جاپان کا نظام تعلیم ان کی اپنی مادری زبان (جو کہ انگریزی نہیں) میں ہے۔
مسلمان اردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہے اور انگریزی میں پڑھتا ہے۔ واقعی سوچنے کی بات ہے ۔ کامیابی انگریزی سے پڑھنے میں ہے یا ؟
sarwari829@yahoo.com