ڈاکٹر ظل ہما بنت عبدالعلیم اصلاحی
7 اپریل 2015 ء کو تلنگانہ کی دیش بھکت ، سماج سیوک اور عوام دوست پولیس کے ہاتھوں وقار اور اس کے چار ساتھیوں کے وحشیانہ ، بے رحم و سفاکانہ قتل نے پرانے زخموں کو ہرا کردیا ہے ۔ شہادت بابری مسجد کے بعد سے ان 23 سالوں میں ملک بھر میں انکاؤنٹر کے نام پر اور راست نشانہ بنا کر جتنے قتل ہوئے ان سب کی یاد پھر سے تازہ ہوگئی ہے ۔ مسلم نوجوانوں کے قتل کے زخم مندمل ہوئے ہی نہیں اور مندمل ہو بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ابھی تک کسی ایک معاملہ میں بھی انصاف نہیں ملا اور قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچے ۔
دانشوروں کی یہ نکتہ آفرینی اور تجزیہ نگاروں کی حاشیہ آرائی نے کے سی آر دور حکومت کے جو دلکش اور رنگین منظر تخلیق کئے تھے اس واقعہ کے بعد ان کے نقوش ماند اور رنگ پھیکے پڑنے لگے ہیں ۔ جو لوگ خوش فہمیوں کے رنگین غباروں سے دل بہلارہے تھے انھیں بھی نوشتہ دیوار کے دھندلے نقوش دکھائی دینے لگے ہیں ۔ اس قتل کے واقعہ نے بہت سے چہروں پر پڑے نقاب الٹنے شروع کردئے ہیں ۔ ریاستی حکومت کا اعلی سطحی تحقیقات سے انکار ، اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاستی حکومت کی داڑھی میں تنکا ہے ۔ اور مرکزی حکومت کا رول بھی کسی شبہ سے خالی نہیں ۔ اتنا بڑا واقعہ ہوگیا لیکن مرکزی حکومت نے کوئی رپورٹ طلب کرنے کی ابھی تک زحمت نہیں کی ۔ جس طرح یہ قتل ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر تحقیقات ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں ہوں تو تمام سترہ پولیس ملازمین کے علاوہ اعلی پولیس عہدیداروں سمیت ریاستی وزیراعلی اور مرکزی وزیران سب کے سب مجرم ثابت ہوں گے !
یہ پانچوں نوجوان عدلیہ کی امانت تھے ۔ لہذا سب سے پہلے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہئے تھا ، جواب طلب کرنا چاہئے تھا اور اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیکر تحقیقات کروانی چاہئے تھی ۔ لیکن چونکہ معاملہ مسلمانوںکا ہے ، مرنے والے مسلمان ہیں اور ابھی تک اس ملک میں مسلمانوں کے قتل کی کوئی سزا مقرر نہیں ہوئی ہے ۔ اس لئے اس واقعہ کو ہر سطح پر غیر اہم سمجھ لیا گیا ہے ۔
ہر انکاؤنٹر کے بعد ایک ہی طرح کے منظر ہم نے دیکھے ہیں کہ قتل کی راست ذمہ دار ریاست حکومتیں پولیس کی پشت پناہی کرتی ہیں اور اپنا دامن یہ کہہ کر صاف جھٹک لیتی ہیں کہ اس معاملہ کی ہم تحقیقات کروائیں گے ۔ معاملہ رفع دفع ہونے تک تحقیقات کا لارا دیا جاتا ہے پھر کچھ دن بعد مقتولین کے لواحقین بددل اور مایوس ہو کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں یا انھیں خاموش کرادیا جاتا ہے ۔ انصاف انصاف کے نعرے لگانے والے حقوق انسانی کی باتیں کرنے والے ، ملت کے علما و دانشوروں ، سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین و نمائندے بھی وقتی طور ہر کچھ بیانات اور تعزیتی و احتجاجی جلسے کرکے اپنے تئیں فرض کفایہ ادا کردیتے ہیں اور پھر ہر معاملہ سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔ ویسے بھی دہشت گردی ، دہشت گرد ، انتہا پسند ، اُگروادی ، دیش دروہی جیسے الفاظ کے شور میں ان کی دبی دبی ، احساس کمتری کی ماری بڑبڑاہٹیں اور منمناہٹیں کس کو سنائی دیں ؟ اسی وقت ردعمل اور مصالحانہ طرز عمل کی وجہ سے اب تک ایک بھی انکاونٹر کا معاملہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شہادت بابری مسجد کے ان 23 سالوں میں عشرت جہاں اور کوثر بی کے معاملہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے علاوہ کوئی اور رپورٹ اب تک منظر عام پر نہیں آئی ۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے معاملہ میں پولیس کی کہانی جھوٹی تو ثابت ہوئی اور بعض اعلی پولیس عہدیداران کو جیل کی ہوا کھانی تو پڑی لیکن انصاف کے عمل کیلئے ابھی تک ایک طویل انتظار درکار ہے ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور ناانصافی اس ملک کی روایت بن چکی ہے ۔ چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ ایک فرض کی طرح اس روایت کو ضرور دہراتی ہے ۔ اس روایت کے بننے میں پولیس ، انٹی جنس ایجنسیوں اور میڈیا کے علاوہ سب سے اہم کردار عدلیہ نے ادا کیا ہے ۔ جو ملزمین کی حقانیت سے واقف ہونے کے باوجود برسہا برس کا وقت یہ فیصلہ کرنے میں صرف کردیتی ہے کہ آیا ملزز محض ملز ہے یا مجرم؟ اس طرح انصاف کی تاخیر خود ایک ناانصافی بن جاتی ہے ۔ اگر پولیس اور عدالت کے بیچ کے یہ گھن چکر طویل ہوجائیں اور پولیس کی کارکردگی کی ڈائری میں ایک اور ناکامی درج ہونے کے امکان روشن نظر آئیں تو پھر بہانہ بنا کر اس معصوم ملزم کو ٹھکانے لگادیا جاتا ہے اور اس سارے کھیل کے پیچھے جو محرک کار فرما ہوتا ہے وہ ہے مسلم دشمنی اور تعصب اور یہی سب کچھ وقار اور اس کے چار ساتھیوں کے حراستی انکاونٹر میں بھی ہوا ہے ۔
اس بات پر بھی غورکیا جانا چاہئے کہ حراستی انکاؤنٹر ہوں یا غیر حراستی انکاؤنٹرس دونوں صورتوں میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی ۔ وہ یہ کہ پولیس کے پاس اس سلسلہ میں کوئی ثبوت نہیں ہوتا ۔ اور نہ کوئی گواہ موجود ہوتا ہے بلکہ سارے معاملہ کا دار و مدار صرف پولیس کی ذاتی بیان بازی پر ہوتا ہے ۔ حالیہ انکاؤنٹر میں بھی پولیس نے اسی روایت کو دہرایا ہے ۔ پولیس نے انکاؤنٹر کے جواز کیلئے جو کہانی گھڑی ہے اس پر ہمیں کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں رہ گئی ہے نہ صفائی دینے کی ،نہ سوالات اٹھانے کی ، نہ جوابات دینے کی اور نہ چور چور کا شور سن کر اپنی جیبیں ٹٹولنے کی ۔ کیونکہ بے بس اور نہتے ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی خون میں لتپت لاشیں خود اپنے اوپر بیتے ہر ظلم کی داستان بیان کررہی ہیں ۔ ان کے بے بس ، بے جان مردہ جسم خود ظلم کا جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہیں اور ہر طرح کے سوال کا جواب دینے کو تیار ہیں کہ
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
بس کا اندرونی منظر دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ثابت ہورہا ہے کہ یہ پولیس کی دیدہ دلیری ہے یا بزدلی کی انتہا ۔ دیدہ دلیری اس بات کی کہ انھوں نے اپنی فرضی کہانی میں حقیقت کے رنگ بھرنے کی زحمت تک نہیں کی اور بزدلی کی انتہا اس لئے کہ مارنے کے بعد بھی نوجوانوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھولنے کی ہمت وہ نہ کرسکے ۔
حالیہ انکاؤنٹر کے بعد ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ فصیح الدین ، رفیع الدین ، محمود علی ، اعظم غوری ، عزیز ، اعظم ، مجاہد سلیم ، خواجہ یونس ، قتیل صدیقی ، شاہد اعظمی ، خالد مجاہد ، یزدانی ، سہراب الدین ، کوثر بی ، عشرت جہاں ، جاوید اور اس کے تین ساتھی ، سمیر ، عاطف ، ساجد ، یاسمین ، امام علی اور اس کے ساتھی اور بھی ملک کے مختلف حصوں کے بے شمار نوجوانوں کے قتل کے معاملہ میں جو کچھ ہوا اور ان کے معاملہ کو جتنا آسمان سمجھ لیا گیا ۔ کیا وقار اور اس کے ساتھیوں کے قتل کے معاملہ کو بھی اتنا ہی آسان سمجھ لیا جائے گا ؟
تحقیقات کے عمل پر انصاف کی آس لگا کر بیٹھنے کا کوئی فائدہ ہے ؟؟
تاوان اور انصاف کے بغیر کیا صبر کیا جاسکتا ہے ؟؟
کیا اس معاملہ میں انصاف کے ہاتھ مضبوط لمبے اور سریع الحرکت ہوں گے کہ سب کے گریبانوں تک پہنچ جائیں ؟
اس طرح کی ناانصافیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر جو بے چینی اور اضطراب جنم لے رہا ہے اس تباہ کن صورتحال کا اندازہ شاید ابھی کسی کو نہیں کہ یہ بے چینی اور اضطراب ملک کیلئے کبھی بھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتا اور ہوسکتا ہے کہ یہی چیز ان کے اندر انتقال اور قصاص کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بن جائے ۔ تب مسلمانوں کو اپنے طور پر انصاف کیلئے اٹھ کھڑے ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا ۔ یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا کہ وقار اور اس کے ساتھیوں کا یہ سفاکانہ قتل ہندوستان کے امن کو درہم برہم کرنے کی چنگاری کا باعث تو نہیں بن گیا؟!