شجاعت علی۔آئی آئی ایس
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس دنیا کو ایک ایسا حسین تحفہ دیا ہے جس پرکروڑوں درود و سلام تاقیامت بھیجے جاسکتے ہیں۔ پھر اس پر سونے پہ سہاگا یہ کہ رب العزت نے آپﷺ پر قرآن کریم جیسی عظیم المرتبت کتاب بھی اتاری جو نہ صرف اس عالم بلکہ عالم ارواح کیلئے بھی نسخہ کیمیاء ہے۔ پھر ان دو عظمتوں کے بعد غور فرمائیے کہ رمضان جیسی انمول دولت بھی ہمیں عطا کی گئی۔ سرورکائنات آقائے دوجہاں حضور مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کی دنیا کی تمام بُرائیاں جس سے انسانیت اور انسان کو نقصان پہنچتا ہو آپؐ نے اس کو حرام کردیا۔ تکبر، چوری‘ چغلی‘ غیبت‘ دھوکہ‘ فریب‘ کمزوروں پر ظلم کرنا‘ یتیموں کا مال کھاجانا‘ بے حیائی اور بے شرمی پر اترآنا‘ بزرگوں کی توہین کرنا‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ناانصافی کرنا‘انسانیت کو شرمسار کرنے والے سود کی لعنت میں گھرجانانیزایسا ہر عمل جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو‘ آپؐ نے اسے حرام قرار دیا لیکن آج کے نادان لوگ لا علمی کے سبب مذہب کی آڑ میں ایسی بہت ساری غلطیاں کررہے ہیں جو کسی کو بھی حالت میں مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کچھ نا سمجھ عورتیں حیدرآباد شہر کی مسجدوں میں نماز پڑھنے لگیں ہیں جبکہ آقائے دوجہاںؐ نے یہ حکم دیا ہے کہ عورتیں گھر میں نماز پڑھیں اور گھر میں بھی کسی مخصوص کمرے میں یا پھر گھر کا تہہ خانہ اس کیلئے مناسب ہے۔ یعنی اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو کھلے عام عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ بہت سارے لوگ اسلام کی بنیادی باتوں سے ناواقف ہیں لیکن سڑکوں پر ایسے مباحث کررہے ہیں جیسے ان سے بڑھ کر کوئی عالم دین نہیں ہے۔ قیامت کے کئی آثار ہیں جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عالم یا علماء اٹھ جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے دلوں سے علم چھین لے بلکہ علم کے اٹھالینے کی یہ صورت ہوگی کہ علماء ہی اٹھالئے جائیں گے تو جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہل سرداروں کو منتخب کرلیں گے اور مسائل دریافت کئے جائیں گے تو وہ بے علمی سے فتویٰ دے دیں گے۔ نتیجتاً خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری او رمسلم کی متفقہ روایت)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؓنے فرمایا کہ ہم ایک روز حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ہمارے روبرو ایک شخص ظاہر ہوا جس کے کپڑے بے حد سفید اور بال نہایت سیاہ تھے۔ نہ تو اس پر سفر کے آثار تھے اور نہ ہم میں کوئی اس سے واقف تھا وہ شخص رسول مکرم کے روبرو بیٹھ گیا اور اپنے دونوں زانووں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوو مبارک کو لگادیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے دونوں زانووں پر رکھ لیا اور عرض کیا اے محمد ؐ مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے۔ تو حضور نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔نماز کو اچھی طرح پابندی سے ادا کریں اور زکوٰۃ دیں‘رمضان کے روزے رکھیں اور قادر ہو تو حج کرے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ آپؐ نے سچ فرمایا۔ ہم سب کو اس پر حیرت ہوئی کہ وہ شخص آپؐ سے پوچھتا ہے اور ساتھ ہی تصدیق بھی کردیتا ہے۔ اس شخص نے پھر حضورؐ سے گذارش کی مجھے ایمان سے آگاہ کیجئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اعتقاد رکھے اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ ‘ اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ ‘ایمان رکھے روزہ قیامت پر اور یقین رکھے خیر و شر پر کہ وہ قضاء قدر سے ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ آپؐ نے سچ فرمایا۔ پھر اس شخص نے آقاؐ سے دریافت کیا کہ احسان کیا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کی (دل لگاکر) اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اس طرح نہ دیکھ سکے تو ‘تو یہ خیال کر کے وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس شخص نے آقائے نامدارؐ سے پوچھا کہ مجھے قیامت کے آثار بتائیے تو آپ ؐ نے فرمایا ،جس سے تم دریافت کررہے ہو‘ وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس شخص نے یہ جاننا چاہا کہ قیامت کی اور نشانیاں کیا ہے؟۔ آپؐ نے فرمایا جب لونڈی مالک کو جنے گی اور یہ کہ ننگے پیر چلنے والے ‘ ننگے بدن‘ تنگ دست اور بکریاں چرانے والوں کو تو دیکھ کہ وہ بلند عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں گے، راوی یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص چلا گیا اور میں دیر تک ٹھہرا رہا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عمرؓ کیا تم جانتے ہو کہ وہ سائل کون تھا۔ میں نے جواب دیا اللہ اور رسولؐ سے زیادہ کون جانتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا وہ تو جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تمہارے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ تم کو تمہارا دین سکھادیں۔ (اس حدیث کو مسلم نے روایت کی ہے)
قیامت کی ویسے کئی نشانیاں ہے لیکن حاکموں کے متعلق جو نشانی بیان کی گئی ہے اگر ہم اس کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس کس پس منظر کے لوگ ‘ کن کن جگہوں پر حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ جب اس طرح کے لوگ مقتدر بن جاتے ہیں تو سماج میں بے شمار برائیاں اور خامیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ کٹھن آزمائیشوں کے موقع پر بھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ اللہ کی رسی کو تھامنے کا مطلب سنت نبویؐ پر چلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ سنت اور شریعت کو کسی بھی حالت میں مختلف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میرے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو کیونکہ ہم اور ملائک بھی آپؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ تو آئیے ہم سب صاحبِ قرآن ‘صاحب ِ رمضان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سلام کا تحفہ کچھ اس انداز میں پیش کریں کہ
صباء مدینہ میں مصطفیٰ سے ہم بے کسوں کا سلام کہنا
نہیں ہے کوئی بجز تمہارے ہمارا اتنا پیام کہنا