ظفر آغا
دسمبر 28 کی صبح انڈین ایکسپریس کے دہلی ایڈیشن میںتمام اخباروں کی طرح طلاق ثلاثہ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ غیر قانونی قرار دیے جانے کی خبر سرخی میں تھی۔ دوسرے اخباروں نے بھی اسی خبر کو ’لیڈ اسٹوری‘ بنایا تھا۔ لیکن انڈین ایکسپریس کی خبر کے ساتھ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد کی ایک تصویر بھی لگی تھی جو میری رائے میں اس قانون کے سلسلے میں بی جے پی کی نیت کا اعلان کر رہی تھی۔ اس تصویر میں روی شنکر پرساد طلاق ثلاثہ بل پاس ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے باہر نکل کر بے حد خوشی کے موڈ میں دو انگلیاں اٹھا کر ’وکٹری‘ یعنی فتح کا اعلان کر رہے ہیں۔ جی ہاں، بابری مسجد کا گرایا جانا اور طلاق ثلاثہ کا غیر قانونی قرار دیا جانا سنگھ اور بی جے پی کے لیے کسی فتح سے کم نہیں ہے۔ یوں تو بی جے پی کا طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں یہ بیان ہے کہ اس طرز طلاق سے مسلم خواتین کے ساتھ جو صنفی بد دیانتی اور بے انصافی ہوتی ہے وہ ختم ہونی چاہیے۔ لیکن اسی بی جے پی کے ارکان جب سنہ 2002 کے گجرات دنگوں میں ایک مسلم عورت کے بطن سے بچہ نکال کر اس عورت اور بچے کا قتل کرتے ہیں تو اسی پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی سنہ 2014 کے انتخابی مہم کے دوران یہ بیان دیتے ہیں کہ ان کو ’’گجرات دنگوں کا اتنا ہی افسوس ہے جتنا کہ ایک کتے کے پلے کا کسی کار کے نیچے دب کر مر جانے کا افسوس ہو سکتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ بی جے پی اور ان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو مسلم عورتوں کے ساتھ تین طلاق کے عمل سے جو بے انصافی ہوتی ہے اس کو ختم کرنا ان کا مقصد نہیں ہو سکتا۔ تو پھر مقصد کیا ہے!
بی جے پی کو جنم دینے والی تنظیم آر ایس ایس کا ہمیشہ سے اس سلسلے میں یہ خیال رہا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اور اس ہندو راشٹر میں کسی دوسرے مذہب کی شریعت کی کوئی قانونی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی سنگھ کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمان طلاق ثلاثہ کا استعمال کر کے اور چار شادیاں کر کے ملک میں مسلم آبادی بڑھاتے ہیں جو ہندوؤں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اس لیے سنگھ اور بی جے پی کے لیے طلاق ثلاثہ ختم ہونا چاہیے۔ آخر طلاق ثلاثہ ختم ہوا اور یہ ہندو راشٹر کی جانب ایک اور اہم قدم ہے اس لیے سَنگھ اور بی جے پی کے لیے 27 دسمبر کا روز کسی یوم فتح سے کم نہیں ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد دو انگلیاں اٹھا کر سنگھ اور بی جے پی کی اسی فتح پر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔
یہ تو رہا طلاق ثلاثہ مسئلہ پر بی جے پی کا رد عمل اور ان کے اس تعلق سے ارادوں اور نیت کی بات۔ لیکن پارلیمنٹ میں اس قانون کے پاس ہونے کے سلسلے میں جو ہوا وہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔ کانگریس سمیت زیادہ تر پارٹیوں نے طلاق ثلاثہ بل کی کھل کر پارلیمنٹ میں مخالفت کی اور کانگریس نے تو اس سلسلے میں واک آؤٹ کرتے ہوئے اپنے احتجاج کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس بل کو آئین کی رو کے خلاف ٹھہرایا۔ حالانکہ زیادہ تر اپوزیشن پارٹیوں کا یہ خیال ہے کہ طلاق ثلاثہ ایک غیر ضروری رسم ہے اور اس کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن اپوزیشن پارٹیوں کو بنیادی طور پر اس بات پر اعتراض تھا کہ ایک سول معاملے کو جس طرح کریمنل معاملہ بتایا جا رہا ہے وہ قطعاً غلط ہے اور آئین کی رو سے سراسر غلط ہے۔ پارلیمنٹ میں اس بل پر جو بحث ہوئی اس سے واضح ہے کہ ہندوستان کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں اس قانون سے متفق نہیں ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس وقت ایسی تمام پارٹیوں کی مجموعی تعداد بی جے پی سے لوک سبھا میں کم ہے اسی وجہ سے یہ بل پاس ہو گیا۔ لیکن جیسا کہ اپوزیشن پارٹیوں اور تمام سیاسی مبصرین نے اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ راجیہ سبھا میں اس بل کا پاس ہونا ناممکن ہے، اور امید یہی ہے۔
تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ بی جے پی لوک سبھا چناؤ سے چند ماہ قبل ایسا قانون کیوں لا رہی ہے جو راجیہ سبھا میں رد ہو جائے! بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ بی جے پی اس سلسلے میں جو کچھ کر رہی ہے اس میں سنگھ کو خوش کرنے کی ایما تو ہے ہی، لیکن راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ابھی بی جے پی کی جو زبردست ہار ہوئی ہے اس سے نریندر مودی سمیت پوری سَنگھ و بی جے پی قیادت ہوش کھو بیٹھی ہے۔ مودی کو بھی اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ سنہ 2019 میں دوبارہ وزیر اعظم بن پانا مشکل ہے۔ پھر معیشت کا جو حال ہے اس کو تمام تر کوششوں کے باوجود چار چھ ماہ میں نہیں درست کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگلے لوک سبھا چناؤ تک بی جے پی کے لیے سیاسی فضا اور خراب ہوگی۔ لہٰذا مودی کا اقتدار میں واپس آنا بہت مشکل ہوگا۔ اس پس منظر میں سَنگھ اور بی جے پی دونوں کو یہ لگ رہا ہے کہ ان کے پاس ہندو کارڈ کے سوا اور کچھ نہیں بچا ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ قانون پاس کر یا رام مندر جیسے ایشو اٹھا کر کسی طرح ملک میں ہندو ووٹ بینک بنا کر اگلا چناؤ جیتا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چناؤ سے چند ماہ قبل طلاق ثلاثہ معاملے کو سپریم کورٹ کے ذریعہ غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد بھی بی جے پی نے پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کروایا۔ اس سے اب یہ طے ہے کہ بی جے پی اگلا لوک سبھا چناؤ کھل کر ہندوتوا ایجنڈے پر ہی لڑے گی۔ کیونکہ مودی اور ان کے ساتھیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
اب رہا طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، تو راقم ہمیشہ سے اس کے ختم کرنے کے حق میں رہا ہے۔ خود مسلم پرسنل لاء بورڈ جس رسم کو طلاق بدعت کہتا ہو اس کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی واضح کرنا لازمی ہے کہ یہ بدعت مسلمانوں میں ایسی رائج نہیں ہے جیسا کہ شور ہے۔ اس وجہ سے اس قانون کے پاس ہونے سے کثیر مسلم آبادی پر اس قانون کا کوئی بہت گہرا اثر پڑنے والا نہیں ہے۔لیکن اس قانون کے منظور ہونے کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اس سے واضح ہے کہ اس ملک کی مسلم اقلیت اکیلی نہیں ہے۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے والے کتنے ہی خواب کیوں نہ دیکھیں ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں نظر آتا ہے۔ گو نریندر مودی نے اس سلسلے میں بھرپور کوشش کر لی لیکن آج بھی اس ملک کا آئین باقی ہے۔ اب یہ بھی طے ہے کہ اگلی حکومت اگر بی جے پی بھی بناتی ہے تو وہ کمزور حکومت ہوگی جو اپنے حلیفوں کی رحم و کرم پر منحصر ہوگی۔ اس لیے 2019 کے بعد بھی کوئی اس ملک کے آئین کو بدل نہیں سکے گا۔ ہندوتوا کا جو طوفان اس وقت چل رہا ہے وہ طوفان یا تو 2019 میں کمزور ہو جائے گا یا پھر ختم ہو جائے گا۔ اس لیے گھبرائیے مت، بس جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے۔