نہرو کی نظریاتی وراثت پر سوالیہ نشان

ظفر آغا
آج سے چند روز بعد یعنی 14 نومبر کو جدید ہندوستان کے معمار اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کا 125 واں یوم پیدائش منایا جائے گا ۔ یوں تو جواہر لال نہرو ہندوستان کی اس عظیم الشان شخصیت کا نام ہے جس کا یوم پیدائش آزادی کے بعد سے اب تک ہر سال منایا جاتا رہا ہے ۔ لیکن اس برس جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کی کچھ اور ہی اہمیت ہے ۔ اولاً اس برس نہرو کی پیدائش کو 125برس ہوئے جو اپنے میں ایک سنگ میل ہے اور اس وجہ سے خصوصیت کا حامل ہے ۔ لیکن اس سے بھی اہم بات جو جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش کے ساتھ اس بار جڑی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس برس نہرو کی نظریاتی وراثت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ سوال کھڑا کردیا گیا ہے کہ جواہر لال نہرو نے جن نظریات پر جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی وہ ملک کے لئے نقصان دہ تھے ۔ سنگھ کی جانب سے اب یہ کہا جارہا ہے کہ جواہر لال نہرو کے بجائے سردار پٹیل کے نظریات اس ملک کے لئے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس پس منظر میں اس برس جواہر لال نہرو کا یوم پیدائش اور اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس موقع پر کانگریس پارٹی اور نہرو کے نظریات میں عقیدت رکھنے والے افراد اور بی جے پی و ہندوتوا نظریات میں یقین رکھنے والے حضرات کے درمیان جواہر لال نہرو کا یوم پیدائش ایک رسہ کشی کا موقع بن جائے گا ۔ اس لئے سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جواہر لال نہرو کے نظریات کیا تھے اور موجودہ دور میں انکی کوئی افادیت باقی ہے کہ نہیں ؟جواہر لال نہرو نے جن نظریات پر آزاد ہندوستان کی بنیاد رکھی اس کے چار سب سے اہم پہلو تھے ۔ سیاسی نقطہ نظر سے جواہر لال جمہوریت میں نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ انہوں نے ہندوستان کو باقاعدہ ایک جمہوری نظام دیا جو آج بھی پوری کامیابی کے ساتھ جاری ہے ۔ جواہر لال کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی اعتبار سے سوشلسٹ نظریات سے بے حد قریب تھے ۔ پھر وہ دور کہ جب ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئی اس دور میں ساری دنیا میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کا بہت دبدبہ تھا ۔ جواہر لال نہرو اگر چاہتے تو وہ بھی اس وقت نوآزاد دیگر ایشیائی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی ایک پارٹی نظام قائم کرکے ملک کو سوشلسٹ بنیاد پرقائم کرسکتے تھے ۔ لیکن جواہر لال نہرو نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ملک میں ایک جمہوری نظام کی نہ صرف داغ بیل رکھی بلکہ مرکزی اور صوبائی سطح پر برابر چناؤ اور ایک جمہوری آئین کے ذریعہ ملک میں جمہوریت کو جلا دی ۔ یہ جواہر لال کا کمال تھا جس سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یعنی جمہوری نظام جواہر لال کی وراثت ہے۔ جس کو ہندوستان آج بھی ترک نہیں کرسکتا ہے ۔ اس لئے جب تک ملک میں جمہوریت رہے گی تب تک جواہر لال کی وراثت اس ملک میں برقرار رہے گی ۔

جواہر لال نے اس ملک میں جس سیاسی نظام کی بنیاد رکھی اس کا دوسرا اہم پہلو سیکولرازم ہے ۔ یوں تو جدید سیکولرازم کا نظریہ یوروپ میں پروان چڑھا اور انیسویں صدی سے وہاں کے سیاسی نظام کا اہم ترین جز تھا ۔ لیکن یوروپ کے سیکولر نظریہ کی خصوصی بات یہ ہے کہ وہاں سیکولرازم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یوروپی ریاست کا وہاں کے رہنے والے باشندوں کے مذہبی عقائد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ بلکہ خاص حد تک یوروپی سیکولر ریاست کا مذہبی معاملات سے ایک تکرار سے رہتا ہے ۔ اسکا سبب یہ ہے کہ یوروپ میں سیکولرازم کا نظریہ چرچ سے تکرار اور تضاد کے سبب ہی جنما تھا جس کے سبب نظریاتی سطح پر یوروپ میں سیکولرازم اور مذہب و عقائد کے درمیان آج بھی ایک تضاد پایا جاتا ہے ۔ اس کے برخلاف جواہر لال نہرو نے ہندوستان میں جس قسم کے سیکولرازم کی بنیاد رکھی وہ یوروپی سیکولر سے بہت مختلف تھی ۔ ہندوستان میں جواہر لال نے جو سیکولرازم قائم کیا وہ نظریاتی سطح پر اس ملک میں رائج تمام مذاہب کو نہ صرف برابری کا درجہ عطا کرتا ہے بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنی سطح پر برابر حقوق بھی عطا کرتا ہے ۔ حالانکہ جس وقت جواہر لال ہندوستان کی بنیاد رکھ رہے تھے اس وقت اس ملک کے مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے حصہ لے کر ہندوستان کا بٹوارہ کرواچکے تھے ۔ اس پس منظر میں جواہر لال اگر چاہتے تو یہ کہہ سکتے تھے کہ جب مسلمانوں نے اپنی مرضی سے پاکستان کی شکل میں اپنا حصہ لے لیا تو آزاد ہندوستان میں ان کا حق کیسا ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ خود کانگریس کے اندر سردار پٹیل کی قیادت میں ایک گروہ ایسا تھا جو اس خیال کا حامی تھا ۔ اس وجہ سے جواہر لال اگر چاہتے تو وہ آزادی کے بعد ہی ہندوستان کو ایک ہندو ریاست کی شکل دے سکتے تھے ۔ لیکن جواہر لال اپنے وقت سے بہت آگے تک دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے جدید ہندوستان کی بقا اس بات میں سمجھی کہ اس ملک میں ریاست کو نہ صرف تمام مذاہب کا احترام کرنا ہوگا بلکہ بغیر مذہب و ملت کی تفریق کے ہر ہندوستانی کو برابر کے حقوق دینے ہوں گے ۔ یہ تھا جواہر لال کا سیکولرازم جو بھلے ہی ابھی کمزور نظر آرہا ہو لیکن اس ملک سے جواہر لال کے سیکولرازم کو اکھاڑ کر پھینکا نہیں جاسکتا ۔ کیونکہ ہندوستان مختلف تہذیبوں ، زبانوں ، مذاہب ، لباس ، تہواروں اور کلچر کا ملک ہے جہاں ایک گنگا جمنی تہذیب ہی نہیں بلکہ گنگا جمنی سیاست ہی کامیاب ہوسکتی ہے ۔جواہر لال کی اس وراثت پر اب کتنے ہی سوال کیوں نہ اٹھائے جائیں لیکن ان کی سیکولر سیاسی وراثت اور اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ہے ۔

جواہر لال نہرو کی نظریاتی وراثت کا ایک اہم جز سوشلزم بھی ہے ۔ جواہر لال جس وقت آزاد ہندوستان کی بنیاد رکھ رہے تھے اس وقت ساری دنیا میں کمیونزم اور سوشلزم کا شور تھا ۔ پڑوس میں چین میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوچکا تھا ۔ خود ہندوستان میں کانگریس کے بعد جو سب سے اہم اور طاقتور پارٹی تھی وہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی ہی تھی ۔ کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کے تحت جس قسم کے معاشی نظام کا تصور کیا جاتا تھا اس میں تجارت میں ذاتیات کی کوئی گنجائش نہیں تھی یعنی اس دور میں سوشلزم کے معنی یہ تھے کہ ملک کا معاشی نظام پوری طرح ریاست کے ہاتھوں میں ہوگا جس میں سرمایہ دار اور بازار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اسکے برخلاف جواہر لال نے جس سوشلسٹ نظام کی بات کی اس میں انہوں نے ریاست اور بازار دونوں کو کم و بیش برابر کی اہمیت دی ۔ یعنی آزادی کے بعد ملک میں اہم انڈسٹری کا قیام خود حکومت نے کیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اور بازار کو بھی پوری چھوٹ دی گئی ۔ آج پوری طرح سے معاشیات کو حکومت کے کنٹرول میں رکھنے والی ریاست سوویٹ یونین ختم ہوچکی ہے جبکہ پوری طرح بازار پر منحصر معیشت امریکہ سخت بحران کا شکار ہے جبکہ جواہر لال کی ملی جلی سوشلسٹ معاشی وراثت کو آج بھی پوری طرح کوئی ختم نہیں کرپارہا ہے ۔ پھر جواہر لال کے سوشلسٹ نظریات میں غریب کی کفالت ریاست کی ذمہ تھی ۔ بھلے ہی آج بازار کا ڈنکا پیٹنے والے سبسیڈی کی کتنی ہی مخالفت کررہے ہوں لیکن آج بھی کوئی حکومت ہندوستانی غریب کو کچھ سہولیات دیئے بغیر چناوی میدان میں اترنے کی ہمت نہیں کرسکتی ہیں ۔ یعنی جواہر لال نہرو کے سوشلزم میں مارکٹ اور غریب دونوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے گئے جو اس ہندوستان میں آج بھی برقرار ہیں اور برقرار رہیں گے ۔ پھر جواہر لال کے نظریات کا چوتھا اہم جز ایک جدید ہندوستان تھا جس کے لئے انہوں نے ماڈرن انڈسٹریل بیس بنایا اور ملک کو آئی ٹی آئی جیسے ادارے دئے جس کے سبب آج ہندوستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے ۔

جواہر لال نہرو کے 125 ویں یوم پیدائش پر کوئی جواہر لال کی وراثت پر کتنے ہی سوال کیوں نہ اٹھائے لیکن جدید ہندوستان جواہر لال کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وہ اہم بات ہے جو آج بھی جواہر لال اور انکے نظریات کی افادیت کو برقرار رکھے ہے اور ہمیشہ برقرار رکھے گی ۔