نکتہ چینی کر رہا تھا جو مرے کردار پر

کرپشن میں رنگے ’’ہاتھ‘‘اور خون آلود’’ کنول‘‘
پارلیمنٹ کا ایوان انتخابی اسٹیج میں تبدیل
رشیدالدین
نریندر مودی کیلئے ہر مقام سیاسی اور انتخابی پلیٹ فارم ہے۔ وہ ملک میں رہیں یا ملک کے باہر ہر ایک موقع کو سیاسی مقصد براری کیلئے استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں تو مودی کو پارلیمنٹ کے وقار اور اس کی عظمت سے دور کردیا ۔ بجٹ کی پیشکشی سے لیکر صدر جمہوریہ کے خطبہ پر مباحث کے جواب تک بی جے پی کے پیش نظر پانچ ریاستوں کے چناؤ تھے۔ انتخابی فائدے کیلئے بجٹ کو ملتوی کرنے سے گریز کیا گیا۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کی پرواہ کئے بغیر الیکشن کمیشن کی اجازت کی آڑ میں بجٹ پیش کیا گیا جس کے ذریعہ عام آدمی اور زرعی شعبہ کو راغب کرنے کی کوشش کی گئی ۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ نوٹ بندی اور سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے حکومت کی خوب تعریف کی گئی ۔ بجٹ اور صدر جمہوریہ کے خطبہ کا اسمبلی انتخابات پر کوئی اثر اور بی جے پی کو فائدہ دکھائی نہیں دیا تو مودی خود میدان میں کود پڑے ۔ صدرجمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو انتخابی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا۔ نریندر مودی بظاہر ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے لیکن ان کے پیش نظر اترپردیش اور اتراکھنڈ کے رائے دہندے تھے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ پنجاب اور گوا کی رائے دہی کے رجحانات سے بی جے پی مایوس ہے، لہذا وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو یو پی اور اتراکھنڈ میں انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا۔ دونوں ایوانوں میں مودی نے خود کو شاباشی دیتے ہوئے مخالفین پر طنز کے تیر برسائے۔ سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر طنز کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ صحت مند جمہوریت کی علامت ہے لیکن طنز کی بھی اپنی حد ہونی چاہئے ۔ طنز اگر کسی کی ذاتیات تک پہنچ جائیں تو وہ شخصی عناد بن جاتا ہے۔ انتخابی ریالیوں میں الگ بات  ہے لیکن جمہوری اداروں میں اس طرح کی زبان کا استعمال دراصل پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف ہے ۔ نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں اخلاقیات کی حدود کو پھلانگ کر 10 سال تک وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہ چکے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو نشانہ بنایا۔ عوامی زندگی میں یوں تو کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں ہے لیکن منموہن سنگھ پر جس طرح کے فقرے کسے گئے، وہ وزیراعظم کے عہدہ کے شایان شان نہیں ہیں۔ وزارت عظمی کے 10 سالہ دور کی ناکامیوں اور اسکامس پر تنقید ضرور کی جاسکتی ہے لیکن ’’رین کوٹ پہن کر نہانے‘‘ کا جملہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ بزرگوں کا کہناہے کہ انسان دوسرے انسان میں موجود خوبیوں کا دشمن ہوتا ہے کیونکہ وہ اس سے محروم ہوتا ہے ۔ منموہن سنگھ کی قابلیت اور شرافت سے مودی کو ضرور دشمنی ہوگی۔ قابلیت اور شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منموہن سنگھ نے مودی کے ریمارک کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ ان کی جگہ کوئی اور سیاستداں ہوتا تو جواب ضرور دیتا لیکن منموہن سنگھ جانتے تھے کہ ان پر طنز کرنے والے شخص کی اصلیت کیا ہے ۔ آخر مودی نے منموہن سنگھ سے کس بات کا بدلہ لیا ہے ۔ 2014 ء عام انتخابات سے قبل  منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ اگر مودی وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ ملک کیلئے تباہ کن ہوگا۔ نوٹ بندی پر پارلیمنٹ میں سابق وزیراعظم نے اس فیصلہ کو ’’لوٹ‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ شاید وہ باتیں ہیں جو مودی کو چبھ گئیں جس کا بدلہ لینے کیلئے اسکامس کے حوالے سے تنقید کی گئی۔ منموہن سنگھ پر تنقید سے قبل مودی نوٹ بندی کے حوالے سے ان کے احسان کو بھول گئے۔ نوٹ بندی پر قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی نے جب گورنر ریزرو بینک کو طلب کیا تو منموہن سنگھ سخت جرح سے بچاتے ہوئے گورنر ریزرو بینک کیلئے ڈھال بن گئے تھے ۔ انہوں نے پارٹی کے سیاسی فائدہ کی پرواہ کئے بغیر گورنر ریزرو بینک کا بچاؤ کیا۔ اگر منموہن سنگھ نہ ہوتے تو نوٹ بندی کے پس پردہ مودی حکومت کا پول کھل جاتا ۔ منموہن سنگھ نے سابق گورنر ریزرو بینک کی حیثیت سے موجودہ گورنر کا جس طرح بچاؤ کرتے ہوئے حکومت کو پریشانی بچالیا، اس احسان کا بدلہ مودی نے ’’رین کوٹ‘‘ جملہ سے ادا کیا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جس پر احسان کرو تو اس کے شر سے بچو۔ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوتے ہی نریندر مودی بے قابو دکھائی دے رہے ہیں ۔ وہ جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی پر بھی تنقید کرچکے ہیں۔ ان کا بس چلے تو کرنسی نوٹ پر گاندھی جی کی جگہ اپنی تصویر لگادیں۔ ویسے بھی وہ گاندھی جی سے وابستہ یادوں کی اہمیت گھٹاتے ہوئے زعفرانی تنظیموں کے بانیوں کو پروجکٹ کر رہے ہیں۔ حکومت ہند کے کھادی بورڈ کے پوسٹر پر گاندھی کی جگہ مودی کو چرخہ چلاتے دکھایا گیا ہے۔ صرف چرخہ چلانے سے کوئی شخص گاندھی نہیں بن جاتا۔ منموہن سنگھ پر تنقید اور ان کا مذاق اڑانے سے قبل نریندر مودی کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ۔ کیا وہ دودھ کے دھلے ہیں جو سابق وزیراعظم پر طنزیہ ریمارکس کر رہے ہیں ؟ آخر کس منہ سے منموہن سنگھ پر تنقید کی جارہی ہے جبکہ ان کے 10 سالہ دور میں ان کی شخصیت بے داغ رہی۔ جو بھی اسکامس منظر عام پر آئے، ان میں منموہن سنگھ کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ۔ جن افراد نے بھی اسکام میں رول ادا کیا ، انہیں قانون کے مطابق سزا ضرور ہوگی۔ جہاں تک کرپشن کا سوال ہے یقیناً اس کی تائید نہیں کی جاسکتی لیکن اس سے بھی سنگین جرم بے گناہوں کا قتل عام ہے ۔ اگر مودی کے مطابق کانگریس کے ہاتھ کرپشن میں رنگے ہوئے ہیں تو پھر گجرات میں بی جے پی کا کنول بھی خون آلود ہے۔ گجرات میں 3,500 بے قصور افراد کا قتل کیا گیا اور یہ اس وقت ہوا جب مودی وہاں کے چیف منسٹر تھے۔ گجرات فسادات اور فرضی انکاؤنٹر کی ایک طویل داستان ہیں جس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ گجرات کے ہزاروں مظلومین آج بھی انصاف کو ترس رہے ہیں لیکن مودی کو ان کی آواز دہلی میں سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ ہزاروں افراد کے قتل پر مودی اور ان کے وزیر باتدبیر امیت شاہ نے معافی تو دور کی بات ہے ندامت کا اظہار تک نہیں کیا۔ بے گناہوں اور مظلومین کے خون سے جب ہاتھ رنگے ہوں تو پھر ’’کتے کے بچے کے ٹائر کے نیچے آنے‘‘ جیسے ریمارکس زبان پر ضرور آئیں گے۔ گجرات فسادات کی تحقیقات میں کئی انکشافات ہوئے کہ کس طرح سرکاری سرپرستی میں قتل و غارت گیری کی گئی ۔ مودی اور امیت شاہ پر لگے مظلوموں کے خون کے دھبے دنیا کی کسی فیکٹری میں ایسا صابن تیار نہیں ہوا جو انہیں دھو سکے۔ ممبئی میں 26/11 دہشت گرد حملہ کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ آپ انچارج ہوتے تو کیا کرتے تو مودی نے برجستہ کہا تھا کہ جو میں نے گجرات میں کیا تھا ، وہ کر کے دکھاتا اور مجھے دیر نہ لگتی۔ مطلب یہ ہوا کہ سابرمتی ٹرین میں آگ لگنے کے بعد جس طرح گجرات کو خون سے رنگ دیا گیا ، ممبئی میں بھی مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ۔ یہ سارے بیانات میڈیا میں محفوظ ہیں۔ گجرات فسادات کے وقت مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ واجپائی نے جب مودی کو گجرات پہنچ کر راج دھرم نبھانے کی صلاح دی تو مودی برہم ہوگئے اور کہا تھا کہ ہم راج دھرم ہی نبھا رہے ہیں۔ منموہن سنگھ کا مذاق اڑانے سے قبل مودی بھول گئے کہ سابق وزیراعظم کا بیورو کریٹ اور سیاستداں دونوں کیریئر بے داغ ہیں۔ کم گو اور ملک کی معیشت کو نئی جہت دینے والے منموہن سنگھ نے جس سلیقہ سے حکومت چلائی ، اس کا اثر ملک کی ترقی سے دیکھنے کو ملا۔ پارلیمنٹ کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلہ میں مودی اس قدر کھو گئے تھے کہ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرنے کے بجائے جلسہ عام کی طرح ’’بھائیو بہنو‘‘ کہہ دیا۔ ظاہر ہے وہ تقریر تو پارلیمنٹ میں کر رہے تھے لیکن تصور میں یو پی کے رائے دہندے تھے ۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے انتخابی مہم چلانے کے باوجود بی جے پی اترپردیش کے بارے میں مطمئن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ہندوتوا ایجنڈہ کو اہم انتخابی موضوع بنایا ہے۔ ابتداء میں نریندر مودی حکومت کے کارناموں اور ترقی کے نام پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اب جارحانہ فرقہ پرستی کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ رام مندر ، تین طلاق ، لو جہاد اور مسلم اکثریتی علاقوں سے ہندو خاندانوں کی منتقلی جیسے مسائل کو ہر انتخابی  اسٹیج سے ہوا دی جارہی ہے تاکہ پھر ایک مرتبہ فرقہ پرستی کی لہر سے اقتدار حاصل کیا جاسکے۔ متنازعہ بیانات کے لئے مشہور ونئے کٹیار اور سوامی ادتیہ ناتھ کو انتخابی مہم کی اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ اوما بھارتی اور سنگھ پریوار کے دیگر کارندے بھی انتخابی مہم میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے پھر ایک بار تمام ہندوستانیوں کو ہندو قرار دیتے ہوئے نیا تنازعہ چھیڑ دیا ہے ۔ انہیں جاننا چاہئے کہ ہندوستان کا ہر شہری ہندوستانی ضرور ہے لیکن ہندو نہیں ہوسکتا۔ یہ کہنا کہ ہر ہندوستانی ہندو ہے ۔ ملک کے قانون کے خلاف ہے۔ ہندو دھرم پر چلنے والا ہی ہندو کہلایا جاسکتا ہے ۔ کیا موہن بھاگوت پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کو مسلمان تصور کرتے ہیں۔ سماج میں نفرت کا زہر گھولتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے اپنے ہمنوا ایک نیوز چیانل پر پاکستان سے نکالے گئے ایک ’’فتنے‘‘ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی ماحول کو خراب کرنے والی ان سرگرمیوں پر نظر رکھے اور سپریم کورٹ کے ان احکامات پر عمل کیا جائے جس میں مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے  ؎
نکتہ چینی کر رہا تھا جو مرے کردار پر
میں نے اس کے سامنے آئینہ لاکر رکھ دیا