نکاح کے بعد دوبارہ نکاح کی محفل منعقد کرنا

سوال : زید بغرص تعلیم و ملازمت میں کینیڈا میں مقیم ہے۔ اس کی شادی بکر کی لڑکی سے طئے پائی ہے ۔ عاقدین ہندوستانی شہری ہیں اور ہندوستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں مگر دونوں مختلف شہر والے ہیں ۔ بعض ناگزیر وجوہات کی بناء زید ہندوستان آکر شادی کرنے سے قاصر ہے اس لئے اس نے ہندوستان میں مقیم اپنے ایک عزیز کو وکالت نامہ نکاح دیکر نکاح کا خواہشمند ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی محفل نکاح کیلئے لڑکے کے وکیل کے علاوہ بغرض ایجاب و قبول عاقد سے ٹیلیفون پر ربط پیدا کرنا ضروری ہے اور کیا وکیل بناتے وقت گواہ ضروری نہیں ؟ براہ کرم یہ بھی رہبری کیجئے کہ کیا اس طرح نکاح منعقد ہوجانے کے بعد ، دلہا و دلہن کے متعلقین کی خواہش پر دوسرے شہر میں اور ایک مرتبہ مذکورہ عاقد و عاقدہ کی وداعی سے قبل نئے قاضی سے دو گواہوں کے روبرو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ؟
محمد حسین، علی آباد
جواب : مرد کا اصالۃً یعنی بذات خود موجود رہ کر جس طرح نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح وکالۃً یعنی عاقد کی اپنی عدم موجودگی میں کسی کو وکیل بناکر نکاح کرنا بھی جائز ہے۔ صورت مسئولہ میں زید عاقد نے کسی متعین لڑکی سے نکاح کا اپنے عزیز کو وکیل بنایا ہے تو وہ مہر کی رقم بھی متعین کردے ۔ اس طرح وکالۃً نکاح جائز ہے ۔ واذا وکل رجلا ان یزوج لہ امرأۃ بعینھا ببدل سماہ فتزوجھا الوکیل لنفسہ بذلک البدل جاز النکاح للوکیل۔ نکاح کے لئے وکیل بنانے کی صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں تاہم بنالینا بہتر ہے تاکہ اختلاف کی صورت میںثبوت رہے۔ البتہ مذکورہ متعینہ لڑکی سے وکیل کی مخاطبت کے وقت گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ ویصح التوکیل بالنکاح و ان لم یحضرہ الشھود وانما یکون الشھود شرطا فی حال مخاطبۃ الوکیل المرأۃ ۔ (تاتار خانیہ ج 3 ص 69 )
وکالۃً جس محفل میں نکاح ہوگا وکیل اور عاقدہ اور گواہوں کی موجودگی میں عاقدہ کا اور وکیل کا اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول کافی ہے ۔ ٹیلیفون پر بغرض ایجاب و قبول عاقد سے ربط پیدا کرنا ضروری نہیں ۔ مذکورہ طریقہ وکالت پر نکاح کے انعقاد کے بعد دوبارہ نکاح کا انعقاد بے محل ہے کیونکہ اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ اگر دوبارہ نکاح کیا جائے تو ایک لغو عمل ہے ۔ البتہ وداعی وغیرہ کے عنوان سے رشتہ داروں اور دوست احباب کو مدعو کرنا درست ہے۔

ظلم اورعدل
سوال : ساری دنیا میں جو خونریزی سفاکی ، بد دیانتی، غصب اور دیگر برائیاں نظر آرہی ہیں، کوئی شخص عدل اور انصاف کا معاملہ کرنے تیار نہیں۔ حق کا ساتھ دینے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔ کمزور کو دبایا جارہا ہے ۔ طاقتور کی حمایت کی جارہی ہیں۔ غیر قوم اس کا ارتکاب کرے تو ان کے پاس تعلیم نہیں ، نمونہ نہیں، احکامات نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ مسلمانوںکے پاس زبانی تعلیمات ہونے کے باوجود ان میں حق گوئی انصاف پایا نہیں جاتا۔ براہ کرم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کی روشنی میں عدل و انصاف سے متعلق تفصیلات قلمبند کیجئے تاکہ مسلم معاشرہ میں عدل و انصاف کا جذبہ پیدا ہو۔
علیم الدین، ریاض
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم خدا وندی : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان (16 (النحل) : 90 ) ، یعنی خدا تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے، کے مطابق پیکر عدل و انصاف تھے ۔ آپؐ نے تمام زندگی ظلم و جہالت کے مٹانے اور عدل و انصاف کے عام کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھی(دیکھئے البخاری، کتاب المظالم) ۔ ظلم و جہالت سے آپؐ کو کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ اس دعا سے لگایا جاسکتا ہے جو آپؐ صبح و شام مانگا کرتے تھے : اللھم انی اعوذبک ان اضل اواضل او ازل او ازل او اظلم او اظلم او اجھل او یجھل علی (ابو داؤد 327:5 ، حدیث 5094 : ابن ماجہ ، (الدعوات) حدیث 3884 )، یعنی اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ صحیح راہ سے بھٹکوں یا بھٹکا دیا جاؤں یا پھسلوں یا پھسلادیا جاؤں ، یا کسی پر ظلم کروں یا ظلم کیا جاؤں۔ آپؐ کے عدل و انصاف کا بتقاضائے ارشاد باری : ولا یجر منکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا ۔ اعدلوا ھو اقرب للتقوی (5 (المائدۃ) : 8 ) ، یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم ان سے ناانصافی کرو ، ہر صورت میں انصاف کرو ، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ یہ عالم تھا کہ اس میں اپنے اور بیگانے ، دوست اور دشمن کی کوئی تمیز نہ تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظلم سے بہرحال روک دیا ، فرمایا : انصر اخاک ظالماً او مظلوماً (البخاری ، 2 : 89 ) ، یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے (البخاری ، 2 : 98 ) ۔ آپؐ جن لوگوں کو حکمران بناکر بھیجتے ، انہیں فرماتے : اتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینھا و بین اللہ حجاب (کتاب مذکور، ص 89 ) یعنی مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیونکہ اس کے اور خدا کے مابین کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : و تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (5 (المائدۃ) : 2 ) ، یعنی ایک دوسرے کی نیکی اور تقوی کے معاملہ میں تو مدد کرو ، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو۔
آپؐ عدل و انصاف میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز نہ کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ایک عورت فاطمہ مخزومیہ نے چوری کی ۔ خاندان کے لوگوں نے بے عزتی کے پیش نظر حضرت اسامہؓ سے ، جو آپؐ کے لاڈلے (حب) تھے، سفارش چاہی۔ حضرت اسامہؓ نے سفارش کے لئے جونہی بات شروع کی تو آپؐ کے چہرے کی رنگت بدل گئی اور فرمایا : اے اسامہ ! کیا اللہ کے حق میں تو سفارش کرتا ہے ؟ انہوں نے معافی مانگی ۔ پھر آپؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا : تم سے پہلے لوگ اسی بنا پر ہلاک ہوگئے کہ جب قوم کا کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور شخص اس کا مرتکب ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ بخدا ! اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو میں اس پر بھی حد جاری کردیتا۔ پھر آپؐ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا (مسلم، 315:3 ، حدیث 1688 ، الترمذی ، 370:4 تا 371 حدیث 1430 ) ۔ اسی بنا پر آپؐ نے قبیلہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے خونبھا میں معادلت (= برابری) قائم فرمائی، اس سے پہلے اگر کوئی نضیری (بڑی قوم کا) کسی قریظی (چھوٹی قوم کے کسی شخص) کو ہلاک کردیتا تو نصف دیت ادا کی جاتی اور برعکس صورت میں پوری دیت لازم سمجھی جاتی ۔ آپؐ نے اس ناانصافی کو ختم کیا۔ (ابو داؤد 17:3 ، حدیث 3591 ، النسائی، حدیث 473 ) ۔ یہود میں بھی اسی طرح اگر کوئی معزز آدمی زنا کرتا تو اسے معمولی سزا دے کر چھوڑ دیا جاتا اور غریب آدمی پر حد جاری کی جاتی۔ آپؐنے اس عدم مساوات کو بھی ختم کیا۔ (مسلم 1326:3 ، حدیث 1699 تا 1704 ) ۔
انصاف کرنے میں آپؐ کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم اپنے اور بیگانے میں کوئی فرق نہ تھا۔ متعدد مرتبہ آپؐ نے مسلمان کے خلاف غیر مسلم کے حق میں فیصلہ دیا ۔ ایک یہودی کا ایک مسلمان پر قرض تھا ۔ غزوۂ خیبر کے دوران اس نے تقاضہ شروع کردیا ۔ مسلمان نے مہلت مانگی ، مگر یہودی نے مہلت دینے سے انکار کیا ۔ اس پر آپؐ نے مقروض کو فوری ادائی کا حکم دیا اور تعمیل نہ ہونے کی صورت میں قرضخواہ کو اس کے بعض کپڑے لے جانے کی بھی اجازت دی (احمد بن حنبل : مسند ، 3 : 423 ) ۔ فتح خیبر کے بعد آپؐ نے کھیتی باڑی کا سارا کام یہود کے سپرد کردیا ۔ یہودیوں نے آپؐ سے شکایت کی کہ مسلمان مساقات کے بعد بھی ان کی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ معاہد قوم کا مال مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے ۔ اس کے بعد مسلمان سبزی وغیرہ قیمتاً خریدنے لگے (الواقدی ، 2 : 691 ) ۔
عدل و انصاف کی حکمرانی کے لئے آپؐ خود بھی ہمیشہ جواب دہی کے لئے آمادہ رہتے۔ ایک مرتبہ مال غنیمت کی تقسیم کے دوران ایک شخص کے چہرے پر جو اپنا حصہ لینے کے لئے آپؐ پر جھک آیا تھا، آپؐ کے نیزے کا زخم لگ گیا ۔ آپؐ نے فوراً اسے بدلہ لینے کی پیشکش کی، مگر اس نے قبول نہیں کیا (ابو داؤد ، 763:3 ، حدیث 4536 ، النسائی ، 4774 ) ۔ ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے ایک شخص کی کمر پر ، (جو ادھر ادھر کی باتیں کر کے لوگوں کو ہنسا رہاتھا) ٹھوکا دیا، جس پر اس نے بدلہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ آپؐ نے اپنی کمر آگے کردی، اس نے کہا : میں برہنہ تن تھا جب کہ آپؐ قمیص پہنے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے قمیص اٹھادی۔ اس نے آگے بڑھ کر مہر نبوت کو چوما اور کہا : میں تو صرف یہ چاہتا تھا (ابو داؤد ، 394:5 ، حدیث 5224 ) ۔ اسی طرح یہودی زید بن سعیہ نے نہ صرف قبل از وقت اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا بلکہ نہایت سختی اور درشتی سے آپؐ کے خاندان کی بھی ہتک کی۔ حضرت عمرؓ نے اس کو سزا دینا چاہا مگر آپ نے فرمایا: اے عمر !تمہیں چاہئے تھا کہ اسے حسن تقاضہ کی تلقین کرتے اور مجھے حسن ادا کی۔ پھر اس کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کے حصے سے زیادہ اسے معاوضہ عنایت فرمایا (ابن الجوزی ، 425:2 ) ۔ وصال مبارک سے چند روز قبل آپؐ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ جس کسی کا مجھ پر کوئی حق ہو یا تو وہ وصول کرے اور یا پھر معاف کردے ۔ ایک شخص نے چند درہموں کا مطالبہ کیا، جو فوراً ادا کردئے گئے (احمد بن حنبل : مسند ، 209:1 ، حدیث 1784 ) اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا۔ ہمیں بھی آپ کے اسوۂ حسنہ کواختیار کرتے ہوئے عمل کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔

استغفار
سوال : آپ سے گزارش ہے کہ استغفار کے بارے میں وضاحت کریں۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ اور استغفار کا طریقہ کیا ہے اور اس کو بہترین الفاظ کونسے ہیں۔ انسان گناہ کرتا ہے اور پھر استغفار کرلیتا ہے اور پھر وہ گناہ کرتا ہے ، اس طرح استغفار کرنے سے کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں ؟
نورجہاں سلطانہ، مہدی پٹنم
جواب : ’’استغفار‘‘ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کو کہتے ہیں۔ زبان سے مغفرت طلب کرنے کے ساتھ دل میں گناہوں پر ندامت و پشیمانی ہو اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عزم مصمم ہو۔ورنہ محض زبان سے مغفرت طلب کرنا اور گناہ پر اصرار کرنا یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ والمستغفر بین الذنب و ھو مقیم علیہ کا لمستھزء بربہ۔ ترجمہ : گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو، اور گناہ سے استغفار کرنے والا در انحالیکہ وہ گناہ کئے جارہا ہے۔ ایسا ہے جیسے وہ اپنے رب سے استہزاء کر رہا ہو (بیھقی بحوالہ الفتوحات الربانیۃ 268/7 )
اللہ کا ورد کرتے ہیں لیکن ان کا دل و ذہن کے معنی و مفہوم سے غافل ہوتا ہے، خیالات پراگندہ رہتے ہیں اور ذہن کسی اور طرف ہوتا ہے تو بعض ائمہ نے اس طرح استغفار کو توبۃ ا لکذابین (جھوٹوں کی توبہ) سے تعبیر کیا ہے اور بعض ائمہ نے اسکو معصیت و گناہ گردانا ہے۔بہرحال توبہ و استغفار دل کی حضوری اور ندامت کے ساتھ کرنا چاہئے اور کبھی دوبارہ گناہ سرزد ہوجائے تو فوری توبہ کرے اور حتی ا لمقدور اس گناہ کو ترک کرنے کیلئے سعی و کوشش کرتا رہے۔
استغفار متعدد الفاظ سے مقبول ہے، ان میں سے پسندیدہ وہ الفاظ ہیں جنہیں امام بخاری نے حضرت شداد بن اویسؓ سے نقل کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سید الاستغفار یہ ہے کہ تو کہے’’ اللھم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک و انا علی عھدک و وعدک ما استطعت اعوذبک من شرما صنعت ابوء لک نبعمتک علی ابوء بذنبی فاغفرلی فانہ لابغفر الزنوب الا انت۔(فتح الباری شرح البخاری 97/11 )
ترجمہ : اے اللہ ! تو میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں تیرے عہد اور وعدہ کو اپنی سکت کے مطابق پورا کروں گا ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں، ہر اس برائی سے جو مجھ سے سر زد ہوئی ہو، میں ان نعمتوں کا تیرے لئے اقرار کرتا ہوں جو تونے مجھ پر کی ہیں اور اتنے گناہ کا اقرار کتا ہوں، میری مغفرت فرما دے ، اس لئے کہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا)
استغفار کے مختصر اور جامع ا لفاظ جو بآسانی یاد ہوجاتے ہیں اور بڑی فضیلت بھی رکھتے ہیں، یہ ہیں۔ استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و اتوب الیہ (ابوداود ترمذی)
ترجمہ : میں مغفرت طلب کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ سے جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا ہے اور گناہوں کو چھوڑ کر اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔