نکاح کا معیار

شریعت اسلامی میں نکاح اس قدر آسان ہے کہ دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایک مرد اور ایک عورت کا ایک دوسرے کو قبول کرلینا نکاح کو قائم کردیتا ہے۔ اس لئے کہ جس معاشرے میں نکاح عام ہوگا، وہاں زنا مشکل اور جہاں معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو پھر اس معاشرے میں زنا اور غلط تعلقات عام ہوں گے۔

فرمایا گیاکہ’’ لڑکی یا لڑکے‘‘ کے نکاح کا معیار دیندار اور بااخلاق ہونا قرار ہے اور ہدایت فرمائی گئی کہ اگر ایسا رشتہ مل جائے تو نکاح کردو، اگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ دین کے بجائے حسن صورت، مال و دولت یا اونچے خاندان کو دیکھا اور نکاح میں دیر کی تو اس کے نتیجے میں فتنہ و فساد پیدا ہوگا۔ لڑکے اور لڑکیاں گناہ آلود زندگی گذارنے پر مجبور ہوں گے جس سے والدین اور خاندان معاشرے میں بدنام اور ذلیل ہوں گے، زنا کی کثرت ہوگی اور ان سب کا وبال ان والدین یا سرپرستوں پر پڑے گا جو اس کے ذمہ دار ہیں۔
جب شادی کا بنیادی معیار تقویٰ اور نیکی ہوگا تب یہ جوہر اور وصف ان کی اولاد میں بھی آئے گا اور اس سے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے جس کا معیار عزت اور شرف صرف نیکی اور صلاح ہوگا نہ کہ مال د ولت۔