کے ،این ،واصف
نوک جھونک ، آپسی چھیڑ چھاڑ ، یا نظریاتی اختلافات پر امن مباحثے کو ایک صحت مند معاشرے کی علامت کہا جا سکتا ہے ۔(واضح رہے کہ یہاں’’نوک جھونک‘‘ سے مراد مزاح کا عنصر لی ہوئی لفظی چھیڑ چھاڑ ہے )یہ نوک جھونک دفتر میں ہو یا نجی محفل میں ،گھر ہو یاعام اجتماع میں ،جہاں دو یا دو سے زیادہ افراد یکجا ہوں وہاں نوک جھونک وغیرہ کی گنجائش نکل ہی آتی ہے ۔ عام طور پر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں وقت کابڑ ا حصہ گھر پر گزارتا ہے ۔لہذا گھر میں میاں بیوی کے درمیان بھی نوک جھونک ،طنز ومزاح کے جملوں کا تبادلہ چلتا رہتا ہے ۔یہ سلسلہ گھر کے ماحول کو خوشگوار بھی رکھتا ہے ۔بشرطیکہ طرفین میں حسِ مزاح کا عنصر ہو ۔ورنہ کسی ایک فریق میں اس کا فقدان گھر کے ماحول کے بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
مختصر یہ کہ فریقین کا ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کو ملحوظ خاطر رکھنا اور اخلاق اور بد اخلاقی کے درمیان خط فاصل کا قائم رکھنا بے حد ضروری ہے ۔خواتین سے معذرت کے ساتھ ہم یہاں کہیں گے کہ جہاں تک حسِ مزاح کا تعلق ہے وہ صنفِ نازک میں نسبتاً کم پایا جاتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ مزاحیہ ادب کے لکھنے والوں میں خواتین کی موجودگی نہیں کے برابر ہے ۔جبکہ سنجیدہ ادب میں ہر دور میں جید خاتون قلمکار رہی ہیں ۔لیکن خواتین مرد مزاح لکھنے والوں کی اکثر تخلیقات میں تحتِ مشق ضروری بنی رہتی ہیں ۔ہمارے مزاحیہ شاعروں کی تخلیقات تو بیوی ،ساس اور سالیوں کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں ۔چند ایک مزاح نگار ہی ایسے ملیں گے جو شاید ’’منظور تھا پردہ تیرا‘‘ کے اصول پر گامزن رہ کر اپنی تخلیقات میں بیوی ،ساس یا سالیوں کو موضوع نہیں بناتے ۔ویسے بیویوں پر لطیفے تو ہر زبان میں ملیں گے ۔
ہم چونکہ تقریباً ربع صدی سے ملک سے باہر مملکت سعودی عرب میں مقیم ہیں اس لئے ہمیں ہندوستان کے مختلف شہروں اور دنیا کے دیگر ممالک کے رہنے والوں سے قربت یا ان سے ربط ضبط کی وجہ سے ان کے معاشرتی قدروں اور رہن سہن وغیرہ سے خاصی واقفیت ہے ۔اس کے علاوہ یہاں کے عربی اخبارات میں سماجی مصنوعات پر شائع مضامین اور کارٹونز دیکھنے سے سعودی یا عرب معاشرے کا بھی اندازہ ہوتا ہے، جس کی بناپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی ہر عورت کا مزاج تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے ۔اور میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات پر نا چاقی کے بادل کا چھانا پھر تو تو میں میں کی تیز بارش یا ناراضگیوں کی رم جھم کے بعد پھر سے زندگی کے موسم کا خوشگوار ہونا سب کچھ ایک جیسا ہی نظر آتا ہے ۔
قارئین کرام ! ایسا لگ رہا ہیکہ ’’نوک جھونک ‘‘کے موضوع پر شروع ہوئی یہ گفتگوکچھ زیادہ ہی سنجیدہ ڈگر پر چل نکلی ہے ۔آئیے یہاں اپنے اِرد گرد دیکھے یا سنے نوک جھونک کے واقعات پیش کر کے اس گفتگو کے رنگ کو تبدیل کیا جائے ۔
ایک صاحب گھر پر بیشتر اوقات ٹی ،وی دیکھنے میں صرف کیا کرتے تھے ۔ایک روز بیوی نے تنگ آکر کہا کاش میں آپ کی بیوی نہیں ٹی ،وی ہوتی ۔اور دن بھر آپ کی نظریں مجھ پر ہوتیں ۔شوہر نے کہاں میری بھی یہی خواہش ہے کہ میں جب چاہتا اس کی آواز بند (Mute) کر سکتا ۔
ایک صاحب سے ان کی بیوی نے کہا میرا ذہنی تنائو ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر نے مجھے لندن یا پیرس میں کچھ دن چھٹیاں گزرانے کا مشورہ دیا ہے ۔تو بتائیے ہم کہاں جائیں گے ۔شوہر نے کہا دوسرے ڈاکٹر کے پاس ۔
بیوی نے شوہر سے کہا ’’آپ کی سالگرہ پر آپ کو کیا تحفہ چاہئے۔ ‘‘ شوہر نے انکساری سے کہا ’’تم مجھ سے پیار کر و ‘ مجھ سے محبت سے پیش آئو‘ مجھے کما حقہ عزت و احترام دو اور میرا کہا مانتی رہو ‘‘ بیوی نے چند لمحے سوچ کر کہا ’’نہیں میں تم کو گفٹ ہی دوں گی ‘‘ ۔
یہاں عرب باشندوں میں ایک سے زائد شادی کرنے کا عام رواج ہے ۔مگر اب نئی نسل کی عرب لڑکیاں یا خواتین اس رواج کو ناپسند کرنے لگی ہیں۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔چلئے اپنے نوک جھونک کے سلسلے کو جاری رکھتے ہیں ۔ایک عرب باشندے نے اپنی بیوی سے کہا میں تمہیں کوئی قیمتی تحفہ دینا چاہتا ہوں ۔بتائو تمہیں کیا چاہئے ؟بیوی نے فوراً کہا سوکن کے سواء کچھ لے آئیے ۔
خلیجی ممالک یا سعودی عرب میں جو لوگ اپنی فیملی سے الگ یہاں تنہا زندگی بسر کرتے ہیں ان کی اکثریت رسٹورنٹس میں کھانا کھاتی ہے ۔ایک روز فیملی کے ساتھ رہنے والے دوست سے تنہا رہنے والے شخص نے کہا آپ کی قسمت اچھی ہے کہ آپ کو گھر کا پکا صحت بخش کھانا میسر ہے ۔اس پر ان کے دوست نے کہا ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ قسمت والے ہیں ۔رسٹورنٹس بدل بدل کر روز نئے مزے لوٹتے ہیں ۔آپ رسٹورنٹس والے سے آب ونمک میں اونچ نیچ کی شکایت بھی کر سکتے ہیں ۔جبکہ ہم ہر روز ایک ہی ذائقہ کا کھانا آنکھ بند کر کے کھاتے ہیں بلکہ اس کی تعریف کرکے جھوٹ بولنے کا گناہ بھی اپنی گردن پر لیتے ہیں ۔
ہمارے ایک بہت قریبی دوست ہیں ۔دونوں میاں بیوی تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ ادبی ذوق ہی نہیں رکھتے بلکہ دونوں بلند پایۂ ادیب وشاعر بھی ہیں ۔ایک روز ہم ان کے گھر پہنچے ہمارے دوست کھانے کی میز پر بیٹھنے لگے تھے ۔ہمیں بھی کھانے پر مدعو کر لیا۔ہم نے دیکھا کہ ان کی بیگم کھانے کی میز پر نہیں آرہی ہیں ۔ماجرا یہ تھا کہ اس دن میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوگئی تھی ۔ہم نے دوست کی بیگم سے مخاطب ہو کر کہا ’’بھابی آپ نہیں کھائیں گی ‘‘اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں ہمارے دوست نے کہا ’’وہ تائو کھا کر بیٹھی ہیں کھانا نہیں کھائیں گی ‘‘۔
شوہر کے اس جملے پر خاتون نے مسکرا دیا اور فوراً کھانے کی میز پر آبیٹھیں ۔کیونکہ یہ جوڑا تعلیم یافتہ ہے اس لئے ان کے مزاج میں بذلہ سنجی ،برد باری ،تحمل وغیرہ کی وجہ سے معاملہ یوںجلد سلجھ گیا ۔بر خلاف ا سکے ہم نے کہیں ایک اور واقعہ سنا تھا۔ایک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ جوڑا تھا ۔شوہر شعرو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتاتھا ۔بیوی بھی پڑھی لکھی تھی لیکن سخن فہم نہیں تھی۔سردیوں کی ایک رات شوہر نے بیوی کو ایک شعر سنایا جو یوں تھا ؎
سردیوں کا موسم ہے آگ کی ضرورت ہے
تم ذرا قریب آئو یہ بھی ایک صورت ہے
اس رومانٹک شعر کا بیگم نے مطلب کچھ اُلٹا نکال لیا ۔اور آگ بگولہ ہوکر کہنے لگیں ’’آپ کبھی میرے تعلق سے کوئی اچھی بات منہ سے بولیں گے ‘‘۔میں آپ کو آگ نظر آتی ہوں ۔اور فلاں فلاں ……بیگم کے اس رد عمل سے شوہر صاحب دم بخود رہ گئے ۔نیز ان کے جذبات تو کافور ہو ہی گئے مگر انہیں اپنی بیگم کے شعر و ادب سے اس قدر نا بلد ہونے کا زیادہ دکھ ہوا۔
یہاں بات صرف شعر نہ سمجھنے کی نہیں بلکہ صبرو تحمل کا فقدان ،قوت برداشت کی کمی،اگلے کا پاس ولحاظ نہ رکھنے سے اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ۔
بہر حال نوک جھونک کبھی بھی اور کہیں بھی ہو ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے بشرطیکہ جن کے درمیان نوک جھونک ہو رہی ہے ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ،ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا پاس ولحاظ رکھنے کا جذبہ ضروری ہے ۔ورنہ یہ نوک جھونک اس کے لغوی معنیٰ لعن طعن،الجھائو یا بحث وتکرار کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔
knwasif@yahoo.com