نوٹ بندی کی شدید مخالفت کیا ممتابنرجی کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے ؟

خلیل قادری
ملک میں جس وقت سے وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے کرنسی نوٹوں کا چلن بند کرنے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے بحران کی کیفیت چل رہی ہے ۔ عوام کی مشکلات کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا ۔ ہر روز نئی مشکل اور نئی پریشانی لاحق ہو رہی ہے ۔ وزیر اعظم کے ہم خیال طبقہ کی جانب سے اس فیصلے کی بظاہر زبردست ستائش کی جا رہی ہے لیکن خود بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں کے نجی حلقوں میں اس کے منفی اثرات پر غور بھی کیا جا رہا ہے ۔ یومیہ اساس پر عوامی موڈ اور رد عمل کے تعلق سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ سارے ملک کو دہلا کر رکھ دینے والے اس فیصلے کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی ہو رہی ہے ۔ اس کے خلاف شدت سے احتجاج کرنے میں دو ریاستوں کے چیف منسٹروں کو سبقت حاصل ہے ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف زبردست احتجاج کر رہے ہیں اور وہ اپنے احتجاج میں کوئی نرمی پیدا کرنے کو تک تیار نہیں ہیں۔ وہ مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور عوامی مشکلات کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قابل لحاظ عوامی تائید حاصل کرنے میں ناکام رہ گئی ہے ۔ ریاست میں نت نئے انداز سے مہم چلائی گئی ۔ نت نئے طریقے اختیار کرتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ۔ ممتابنرجی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے خلاف مقدمات کا اندراج بھی ہوا ۔ سی بی آئی کے دھاوے بھی ہوئے اور جس قدر ممکن ہوسکتا تھا اسے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ انتخابات میں بھی فلی چہروں کو عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش ہوئی ۔ یہ ساری کوششیں ناکام ہوگئی تھیں اور بی جے پی انہیں نیچا دکھانے کیلئے بے تاب نظر آر ہی ہے ۔ ایسے میں جب نریندر مودی نے نوٹ بندی کے فیصلے کا اعلان کیا تو ممتابنرجی اس کے اثرات اور عوام کو پیش آنے والی مشکلات کو سمجھتے ہوئے عوام کے درمیان آگئیں۔ انہوں نے حکومت کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا ۔ انہوں نے دہلی تک پہونچ کر اروند کجریوال کے ساتھ مرکز کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ کجریوال خود بھی اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اس فیصلے کے منفی اثرات کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ممتابنرجی نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی احتجاج کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ایسے میں دو دن میں دو واقعات ایسے پیش آگئے جس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے فیصلے کے خلاف شدت سے احتجاج کر رہیں ممتابنرجی کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
چار دن قبل ممتابنرجی جب طیارہ سے کولکتہ پہونچ رہی تھیں تو ان کے طیارہ کو لینڈنگ کی اجازت دینے کی بجائے فضاء میں چکر لگانے کو کہا گیا ۔ یہ حقیقت سامنے آئی کہ طیارہ میں فیول تیزی سے کم ہو رہا تھا اس کے باوجود بھی انہیں چند منٹ تک ہوا میں رکھنے کے بعد بالآخر لینڈنگ کی اجازت دی گئی ۔ یہ وجہ اب تک سامنے نہیں لائی گئی ہے کہ ائر ٹریفک کنٹرول سے اجازت ملنے کے باوجود ان کے طیارہ کو شیڈول کے مطابق لینڈنگ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی ؟ ۔ اس کی تحقیقات کا حالانکہ اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ ایسی تحقیقات کیا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور اس پر کیا کارروائی ہوتی ہے ۔ ابھی طیارہ کا مسئلہ پوری طرح سے پس منظر میں بھی نہیں گیا تھا کہ مغربی بنگال میں دو ٹول پلازا پر فوجی دستوں کی موجودگی کا مسئلہ اٹھ گیا ۔ ممتابنرجی ٹول پلازا پر فوجی دستوں کی موجودگی پر برہم ہو اٹھی ہیں اور وہ مرکز کو پھر ایک بار شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ حالانکہ ٹول پلازا پر فوج کی تعیناتی اور چیکنگ ہوسکتا ہے کہ ایک معمول کا عمل ہو اور اس پر کسی کو اعتراض کرنے سے گریز بھی کرنا چاہئے لیکن جس انداز میں اور جس وقت میں یہ کام کیا گیا ہے وہ سوال پیدا کرنے کیلئے کافی ہے ۔ وزیر دفاع منوہر پریکر کا کہنا ہے کہ یہ معمول کا عمل ہے ۔ خود فوج کی مشرقی کمان نے بھی اسے معمول کا عمل قرا ردیا ہے ۔ یقینی طور پر یہ معمول کا عمل ہوسکتا ہے لیکن ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ممتابنرجی مرکز کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ ذرائع کے مطابق فوج کی جانب سے ٹول پلازا پر تلاشی مہم 28 تا 30 ڈسمبر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ تاہم بعد میں اچانک ہی ان تواریخ میں تبدیلی کرتے ہوئے یکم تا 2 ڈسمبر یہ چیکنگ کی گئی ہے ۔ چیکنگ کے منصوبہ کی تواریخ میں تبدیلی ہی اصل مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ ممتابنرجی کا دعوی ہے کہ اس کیلئے ریاستی حکومت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے ۔ حکومت اور وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اس کیلئے کولکتہ پولیس کا تعاون بھی حاصل کیا گیا ہے ۔ کولکتہ پولیس یہ وضاحت کرچکی ہے کہ اس نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا ۔ خود پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ پر ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اور اپوزیشن کے قائدین نے مرکز سے سوال کیا ہے کہ اس نے ایسا کرتے ہوئے ریاست میں عوام کے ذریعہ منتخبہ حکومت کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا اور اسے معمول کے اس عمل سے قبل از وقت مطلع کرنے سے کیوں گریز کیا گیا ہے ۔ اپوزیشن اور ممتابنرجی اس تعلق سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ مرکزی حکومت وفاقی حکمرانی کے جذبہ کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوئی ہے ۔اسے معمول کے اس عمل کے تعلق سے ریاستی حکومت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی ۔
تین یا چار دن کے وقفہ میں دو واقعات ایسے ہوگئے ہیں جن سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے فیصلے کے خلاف احتجاج کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ممتابنرجی نے جس شدت سے اس مسئلہ پر احتجاج کیا ہے اس پر سارے ملک میں انہیں عوام کی توجہ حاصل ہو رہی ہے ۔ لوگ ممتابنرجی اور اروند کجریوال کے احتجاج کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت اس احتجاج کو قبول کرنے تیار نہیں ہے اور نہ وہ اسے برداشت کرنا چاہتی ہے ۔ اسے اندیشہ ہے کہ جب نوٹ بندی کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات میں سارے ملک میں اضافہ ہوجائیگا تو دوسری ریاستوں میں بھی عوامی احتجاج کی لہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ وہاں بھی لوگ ممتابنرجی اور اروند کجریوال کی طرح احتجاج کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں اور یہی وہ اندیشہ ہے جس نے مرکز کو متفکر کردیا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مرکز نے اس احتجاج کو روکنے کیلئے نامناسب حکمت عملی اختیار کی ہو ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو مرکزی حکومت کا یہ اقدام قابل مذمت ہے ۔ ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں سے ایک ہے اور یہاں جمہوری طور پر عوام حکومتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ممتابنرجی بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی چیف منسٹر ہیں۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر مرکزی حکومت کو ہر ریاست کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی ضرورت ہے اور اسے وفاقی طرز حکمرانی کے اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ ایسے میں اگر محض سیاسی اختلاف کی وجہ سے یا اختلاف رائے کی وجہ سے اگر کسی ریاست کی چیف منسٹر کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ ہندوستان کی جمہوریت کیلئے انتہائی تشویش کی بات ہوگی ۔ ملک میں ہر ایک کو دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے حکومت یا اس کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اور مرکزی حکومت اس کو نہیں چھین سکتی ۔ اسے اختلافی رائے کو قبول کرنے کی جرات خود میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وفاقی طرز حکمرانی کا اصل جذبہ بھی ہے ۔ سیاسی اختلاف کو اس حد تک آگے بڑھانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ہی ملک میں عوام ہی کی جانب سے منتخب کی گئی دو حکومتوں میںٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔ مرکزی حکومت سارے ملک کی ذمہ دار ہے اور اسے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھانے پر توجہ دینا چاہئے ۔ یہ جمہوریت کا اعجاز ہے کہ اختلاف رائے کو پورے احترام کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے ۔ سیاسی اختلاف کو دبانے اور کچلنے کی کوششوں سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے کا موقع نہ دے اور جمہوری اصولوں اور وفاقی طرز حکمرانی کے جذبہ کو برقرار رکھے ۔