جماعت اسلامی گلبرگہ کا اجتماع عام، ضیاء اللہ اور تنویر ہاشمی کا خطاب
گلبرگہ یکم جنوری :(سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی 125 کروڑ ہواور اس کی 80 فی صد آبادی اپنے روزمرہ کاروبار کے لئے نوٹوں کا استعمال کرتی ہو، اس میں ملک میں رائج 85 فی صد نوٹوں کو کوئی متبادل کے بغیر نکالنا ایسا ہی ہے جیسے جسم میں سے خون تونکالا جائے اور اس کو فوری طور پر مناسب مقدار میں بدلا نہ جائے۔اب نوٹ بندی کے 50 دن پورے ہونے کے باوجود لوگوں کی روز مرہ زندگیجوں کی توں متاثر نظر آتی ہے۔ ان خیالات کااظہار اتوار کوہدایت سنٹر گلبرگہ میں جماعت اسلامی ہند گلبرگہ کی جانب سے منعقدہ اجتماع عام میں ’’ نوٹوں کی تبدیلی کی حکمت و ہدف‘‘ عنوان پر خطاب کرتے ہوئے جناب محمد ضیاء اللہ نے کیا۔انھوںؤ نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیوں کی فنڈنگ روکنا، جالی نوٹوں پر ضرب لگانا، رشوت خوری کو کنٹرول کرنا اور کالے دھن کو واپس لاناجیسے مقاصد کے تحت حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کا فیصلہ لیا گیا۔ لیکن ان مقاصد میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ کیوں کہ ساڑھے پندرہ لاکھ کروڑ کی جو رقم پانچ سو اور ایک ہزار کی نوٹوں کی شکل میں تھی جس کو واپس لینا مقصود تھا وہ تقریباََ بنکوں میں جمع ہوچکی ہے۔ اس لحاظ سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا کالا دھان کا وجودہی نہیں تھا۔جناب محمد ضیاء اللہ نے کہا کہ ایسا تو ناممکن ہے۔ لیکن لوگوں نے اس مدت میں کالے دھن کو سفید کرلیا ہے یا تو اس کو دوسروں کے حوالے کرکے یاسونا خرید کر یاجائدادوں کی خریدی میں لگا کر۔ آپ نے کہا کہ اس کے علاوہ کالا دھن بیرون ممالک کے بنکوں میں ہے لیکن اس کو لانے کے خاطر خواہ اختیارات نہیں ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ جو کچھ بیرون ملکوں میں ہے وہ کالا ددھن ہی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے لئے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جناب محمد ضیاء اللہ نے کہا کہ ملک میں پائے جانے والی چار کرنسی پرنٹنگ پریسوں کی صلاحیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے ہی متبادل کرنسی پرنٹ کرائی گئی ہوتی تو اتنی دشواری نہیں ہوتی۔نوٹ بندی کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنے کام کاج چھوڑ کر خطاروں میں ٹہرنا پڑا، جس کے نتیجہ میں پیدوار میں کمی واقع ہوئی، جو یقیناََ ملک کی جی ڈی پی پر اثرا انداز ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعہ روز گار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس دوران حکومت کی جانب سے بڑے بڑے سرمایاداروں کے قرضوں کو write off کیاگیا۔ حکومت کے اس اقدام سے ملک میں حکومت کو تائد کرنے والے اور مخالف دو گروہ نمایاں طور پر پیدا ہوئے ہیں۔