نوبل انعام حاصل کرنے والے کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی

غضنفر علی خان

برصغیر ہندوپاک کے افراد کو عالمی امن انعام دیا گیا۔ بڑی عجیب بات ہے کہ دونوں آپس میں کشیدہ اور غیر مستحکم تعلقات رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک پرُامن بقائے باہم کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں لیکن امن دونوں کے لئے سراب بنا ہوا ہے حالانکہ دونوں کے الگ الگ باشندوں کو دنیا نے امن کے انعام سے نوازا ہے۔ یہ بات ہندوستان اور پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ ان دو ممالک کو جو ایک دوسرے کے ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے ہیں کیوں ان کے دو ممتاز شہریوں میں نوبل انعام تقسیم کیا گیا۔ بہ حیثیت دو مختلف ممالک ان میں ساری باتیں یکساں ہیں۔ دونوں کے مسائل بھی ایک ہی نوعیت کے ہیں۔ غربت یہاں بھی ہے وہاں بھی۔ بے گھری مشترکہ مسئلہ ہے۔ دونوں ہیں کہ بات بات پر ایک دوسرے سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ صرف برائے نام سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ ددونوں دہشت گردی کے شکار ہیں۔ ایک فرق یہ ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی پاکستان سے درآمد ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی دیسی نوعیت کی گھریلو پیداوار ہے۔ دونوں یہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ دہشت گردی سے متاثر ہیں لیکن کسی مشترکہ مسئلہ پر ان میں ایسا اتفاق رائے نہیں ہوتا دونوں متحد ہوکر اس مسئلہ سے نمٹیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے دونوں انعام یافتگان نے اپنے طور پر انسانی حقوق اور انصاف کے حصول کے لئے جدوجہد کی ہے۔ ہندوستانی شہری کیلاش ستیارتھی نے بچوں کے حقوق کیلئے پچھلے کئی برسوں سے انتھک جدوجہد کی۔ بچہ مزدوروں کے خلاف ہمیشہ نبردآزما رہے۔ ہر میدان میں، زندگی کے ہر شعبہ میں بچوں کے حقوق کے لئے ان کی جدوجہد کو آج دنیا نے تسلیم کرکے کیلاش ستیارتھی کو دنیا کا سب سے بڑا انعام دیا ہے۔ ملالہ یوسف زئی ایک پاکستانی لڑکی ہے اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی دنیا کی اور نوبل انعام کی تاریخ کی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔

ملالہ پاکستان کے اس علاقہ سے تعلق رکھتی ہیں جہاں طالبان کا دبدبہ ہے۔ وہ ایک اسکول کی طالبہ تھیں اور طالبان اپنی شریعت کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس معصوم بچی پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا اس پر گولیاں برسائیں۔ اس کی حفاظت اور علاج کے لئے ملالہ کو لندن لے جایا گیا جہاں پچھلے دو برسوں سے اس کا علاج ہورہا تھا۔ ملالہ نے بچوں اور بطور خاص لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی۔ آج بھی ان کے عزائم ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ دنیا انہیں مانتی ہے۔ وہ آج بھی اپنے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنا چاہتی ہیں۔ نوبل انعام کا تقسیم ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں لیکن خود کو انعام کا حقدار بنانا کمال کی بات ہے۔ کیلاش ستیارتھی ہوکہ ملالہ دونوں نے ثابت کردیا کہ برصغیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے بھی موجود ہیں جبکہ یوروپ نے اس کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ستیارتھی کی عمر اس وقت 60 سال ہے اور ملالہ صرف 17 برس کی ہیں۔ دونوں کی عمروں میں 43 برس کا فرق ہے۔ ملالہ اس اعتبار سے اور بھی زیادہ قابل تعریف بلکہ ابھی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں انہوں نے دنیا کو بتادیا کہ مقصد سے وابستگی خود کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان یقینا بڑے فخر کے ساتھ اس اعزاز کو قبول کریں گے۔ دونوں نے ٹی وی چینل پر ایک گلوبل ٹیلی کاسٹ انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اگر دونوں اسی طرح محنت کرتے رہے تو اپنا مشترکہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ان کے سفارتی اتحاد نے تو تعلقات کو مستحکم بنیادوں پر استوار نہ کرسکیں۔

اس لئے کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی سے یہ توقع کیوں نہیں کی جاسکتی کہ برصغیر ہندوپاک میں امن کی ایسی فضاء پیدا کریں گے جیسے دوام حاصل ہوگا جو کبھی سرحد پر کسی جھڑپ یا گولیاں چلنے یا پھر کسی ایک لیڈر کے جذباتی بیان سے درہم برہم نہ ہوگا۔ یہ دونوں ہندوستان اور پاکستان کیلئے ’’امن کے سفیر‘‘ بن سکتے ہیں۔ ایک کا وسیع تجربہ اور دوسرے کی کم عمری کا جوش ایسا مستقبل تیار کرسکتے ہیں کہ دونوں ممالک میں تراشے جانے والے بے اعتمادی کے بتوں کو ختم کردیں گے۔ ان کا بنیادی مقصد ہی امن قائم کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اپنے اس بنیادی مقصد کو بھی خیرباد نہیں کہیں گے۔ امن کے سفیر بن کر یہ دونوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی کی پائیدار بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک میں ہرچند سال، چند ماہ کے وقفے کے بعد تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ بے اعتمادی کی بجھی ہوئی بارود پر ایک چنگاری گرتی ہے اور تعلقات پر عدم اعتماد کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں۔ مذکورہ گلوبل ٹیلی کاسٹ انٹرویو میں ملالہ اور ستیارتھی نے بھی ہند۔پاک تعلقات کو بہتر بنانے اور امن و شانتی کی فضاء پیدا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملالہ کی یہ خواہش تھی کہ انعام ملنے کی تقریب میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم شریک ہوں۔ لیکن ان کی یہ خواہش حسرت بن کر رہ گئی۔ خیر ہم دونوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ایسے امن کے متلاشیوں کی منزل آسان نہیں ہوتی۔ ان کی جدوجہد بڑی طویل اور تھکادینے والی ہوتی ہے۔ امن قائم کرنے کی راہ ہمیشہ پرُخار رہی ہے لیکن جوش اور ولولے کے سوتے نہیں سوکھنے چاہئے۔ پاکستان کی انعام یافتہ یہ لڑکی ایک طرح سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملالہ کی جلاوطنی کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ یہ لڑکی اپنے وطن عزیز واپس آئے اور اپنا مشن جاری رکھے۔ خود ملالہ نے کہا ہے کہ وہ جولائی 2015 ء تک وطن واپس ہوجائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی داخلی صورتحال آئندہ سال جولائی تک بہتر ہوجائے گی۔ اس کا بہت کم امکان ہے، کیوں کہ وہ انتہا پسند عناصر آج بھی اس ملک میں موجود ہیں، جنہوں نے اس نہتی لڑکی کو ہلاک کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ کوئی طاقت پاکستان میں پیدا ہوجو انتہا پسندوں کو ان کا صحیح مقام بتادے۔ ملالہ کا وطن لوٹنا مناسب نظر نہیں آتا۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ قاتلانہ حملہ کرنے والے تمام کے تمام ختم ہوچکے ہیں یا کمزور پڑ گئے ہیں۔ کیلاش ستیارتھی کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ وہ ہندوستان میں رہ کر اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد جاری رکھ سکتے ہیںلیکن یہ بات ملالہ یوسف زئی کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔