کلدیپ نیر
وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی ہندوستان میں آمد سے ان کی روانگی تک میں نے ان کے دورے کا احاطہ کیا ۔ مجھے ان کے تبصروں یا ملاقاتوں میں کوئی جھوٹی بات نظر نہیں آئی ۔ انھوں نے کشمیر کا ذکر نہیں چھیڑا اور نہ علحدگی پسندوں سے ملاقات کی جنھیں پاکستانی قائدین سے بات چیت کرنے سے گہری دلچسپی ہوتی ہے ، ہندوستانی قائدین سے نہیں ۔ تمام زاویوں سے یہ ایک مثبت اور تعمیری دورہ تھا ۔
نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز نے پاکستان میں کشمیر کے بارے میں تذکرہ کرکے اور دوسرے دیگر اقدامات کے ذریعہ شدید دشمنی کی جو یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی وہ قابل فہم ہے ۔ انھیں اندرون ملک مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے ایسی لفاظی ضروری تھی ۔ مسلح افواج اور مولویوں کے پیروں کاروں کو تیقن دیا گیا تھا کہ نواز شریف نے وزیراعظم سے نریندر مودی سے نجی بات چیت میں اپنی برہمی ظاہر کی ہے ۔ اس کے باوجود میری خواہش یہی تھی کہ سرتاج عزیز ایسی بیان بازی نہ کرتے تو بہتر تھا کیونکہ اس ملاقات نے ہندوستان میں مخالفت کا ماحول تبدیل کردیا تھا ۔ ملک کے دائیں بازو نے بھی اعتراف کرلیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوچکا ہے ۔ سرتاج عزیز کی مجبوریاں چاہے کچھ بھی رہی ہوں انھیں اپنی جارحانہ لفاظی سے ہمیں وہاں نہیں پہنچانا چاہئے تھا جہاں سے ہم نے پیشرفت کی تھی ۔ معتمد خارجہ سجاتا سنگھ کے بیان نے ممکن ہے کہ اس کی راہ ہموار کی ہو لیکن سرتاج عزیز کوئی سرکاری عہدیدار نہیں ہیں۔ انھیں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو اگلی بلندی تک پہنچانا چاہئے تھا ۔
اگست 1947 ء میں جب دونوں ممالک نے اپنی راہیں الگ کرلی تھیں اور دونوں فریقین نے جو موقف اختیار کیا تھا ، اس کے پیش نظر اسے کوئی کارنامہ نہیں سمجھا جاسکتا ۔ درحقیقت دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات پر جو قبل ازیں ہوئی تھی مجھے زیادہ رجائیت کا احساس ہوا تھا۔ کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا انتظامیہ ایک دوسرے سے بغض رکھتا ہے ۔ وقت گذرنے کے باوجود دونوں کے اثر و رسوخ یا رویہ پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا ہے ۔ ہر وقت محبت اور نفرت کے رشتے برقرار رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام دوستی کے منتظر ہیں یا کم از کم معمول کے حالات کی بحالی چاہتے ہیں ۔ وزرائے اعظم مودی اور شریف کی ملاقات نے ایک بار پھر بہتر دنوں کی اُمید جگادی تھی ۔ ایک بار پھر دونوں ممالک کے معتمدین خارجہ نے نشان دہی کی کہ دونوں ممالک میں علحدگی کیوں ہوئی تھی۔ اگر ماضی رہنما نہیں ہے تو خیرسگالی حسب معمول تعلقات کی بحالی میں آڑے نہیں آئے گی ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عوام کے ذہنوں میں دشمنی کو پروان چڑھایا گیا ہے ۔
ہندوستان میں نواز شریف کے دورے کا جس یقین اور جوش و جذبہ کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا اسے دیکھنا چاہئے تھا۔ قوم نریندر مودی کی شاندار کامیابی یا ہندوستان پر کئی دہائیوں تک حکمرانی کرنے والی کانگریس کی شرمناک شکست کے بجائے اسلام آباد پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے ۔ مودی کی غیرمتوقع دعوت اور نواز شریف کی جانب سے اس دعوت کی قبولیت کے درمیان چار پانچ دن تک ہندوستانی ذرائع ابلاغ پر یہی موضوع چھایا رہا تھا ۔ دیوان خانوں میں مباحثے جاری تھے کہ وزیراعظم پاکستان ہندوستان کا دورہ کریں گے یا نہیں۔ سب کچھ مثبت ہوا ۔ عوام ان کی آمد کے خواہاں تھے بلکہ عملی اعتبار سے دعائیں کررہے تھے کہ وہ ضرور آئیں۔ انھوں نے مسلح افواج کو قائل کیا اور ان کے ملک کے انتہاپسند عناصر نے بھی غلطی کا اعتراف کرلیا ۔ لیکن یہ دلیل دی جارہی تھی کہ ان کی آمد پاکستان میں جمہوری نظریات کے استحکام کیلئے مناسب اقدام ہوگا ۔ چنانچہ جب انھوں نے ٹیلیفون پر دورۂ ہند پر آمد کی توثیق کی تو ملک بھر نے اطمیان کی سانس لی ۔ بیشتر اخبارات نے ان کی جانب سے دعوت کی قبولیت کو شہ سرخی بنایا۔
اب میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تقسیم برصغیر کے وقت کی خونریزی ہوئی تھی ۔ دونوں جانب تقریباً 10 لاکھ افراد کاقتل عام ہوا تھا ۔ لیکن چند ہی ہفتہ بعد راقم الحروف نے لاہور میں نورجہاں کے چند ٹیپ خریدے تو دکاندار نے قیمت لینے سے صرف اس لئے انکار کردیا تھا کہ میں ہندوستانی ہوں ۔ پاکستانیوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک کیا گیا ۔ قتل عام صرف چند دن کا تھا ۔ وقتی اشتعال کا نتیجہ تھا۔
یہ بات میری فہم سے بالاتر ہے کہ پاکستان نے کیوں یکطرفہ طورپر دونوں ممالک کے دو صحافیوں کو حالات کا احاطہ کرنے کیلئے تعینات کرنے کا معاہدہ کیوں منسوخ کردیا ۔ دونوں ممالک کے صحافی ایک سال سے زیادہ تعینات رہنے والے تھے ۔ اگر ہندوستان کے دونوں صحافیوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہوتی یا ایسی کوئی خبر روانہ کی ہوتی جس سے پاکستان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی تو بات سمجھ میں آسکتی تھی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مغرب کے خبررساں اداروں اور نامہ نگاروں کو خبروں کی ترسیل کی پوری آزادی ہے ۔
نواز شریف کا دورۂ ہند اسی قسم کے پیچیدہ راستے کا سفر تھا ۔ وزیراعظم مودی کو جارح فطرت سمجھا جاتا تھا ۔ دونوں ممالک کے انتہاپسندوں کو حیرت ہوئی جب انھوں نے سارک ممالک کے سربراہوں کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی ۔ نواز شریف کو یہ دعوت قبول کرنی پڑی ۔ اس کے باوجود کہ دونوں ملکوں کی دشمنی آڑے آئی۔ فوج اور انتہاپسندوں نے اتنا دباؤ ڈالا تھا کہ یہ دورہ ناممکن نظر آرہا تھا ۔ آخرکار نواز شریف غالب آئے اور تقریب حلف برداری میں شرکت کی ۔ یہ ان کا صرف ایک خیرسگالی اشارہ نہیں تھا ۔ مودی سے ملاقات کے بعد شریف نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہورہا ہے ۔ دونوں کی ملاقات سے ان اندیشوں کا ازالہ ہوگیا کہ مودی مسلم دشمن ہیں۔ مودی کو احساس ہوگیا کہ انھیں ترقی کے راستہ پر پیشرفت کے لئے مسلمانوں کو ساتھ لینا ہوگا۔ انھیں اور ان کی پارٹی بی جے پی کو جس نعرہ نے اکثرت دلوائی ، 543 رکنی لوک سبھا میں 282 نشستیں دلوائیں، اس پر پاکستان نے غور کیا اور اسے اس بات پر یقین کرنا پڑا کہ ہندوستان کے عوام نے انھیں آزادانہ اور منصفانہ رائے دہی کے ذریعہ منتخب کیا ہے ۔ ہندوستان میں کئی آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ مودی کو سیکولرازم سے دوری اختیار نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے جسے پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کرسکتی ۔
یہ سچ ہے کہ مودی کی پارٹی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس اپنے ہندوتوا رویہ کے لئے معروف ہیں اس کے باووجود وہ اگر مندر کی تعمیر اسی مقام پر کرنے کے لئے جہاں کبھی بابری مسجد تھی یا دستور کی دفعہ 370 کی تنسیخ کیلئے دباؤ ڈالیں جوکشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے وقت سے اسے خصوصی موقف عطا کرچکا ہے ، تو وہ پورے ملک میں انتشار پھیلائیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ مودی کس قسم کے ملک کی تعمیر چاہتے ہیں ۔ انھوں نے جو کابینہ تشکیل دی ہے وہ یہ پیغام دیتی ہے کہ مودی مختلف عناصر کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ سماج کے کسی بھی گوشہ سے تعصب نہیں برتیں گے نہ مذہبی اور نہ لسانی ، حوصلہ افزائی کرنے والا پہلا اقدام حکومت کی جانب سے کالے دھن کا پتہ چلانے خصوصی تحقیقاتی ٹیم ( ایس آئی ٹی ) کا قیام ہے ۔ یہ ایک نیک شگون ہے ۔ انھیں عوام کی ان امنگوں اور آرزوؤں کی تکمیل کا موقع دیا جانا چاہئے جو انھوں نے ہی جگائی ہیں۔