امتیاز متین، کراچی
جس روز نواز شریف لاہور آئے اسی روز ملک بھر میں چلنے والی انتخابی مہم کا سب سے افسوسناک اور ہلاکت خیز واقعہ بلوچستان کے شہر مستونگ کے نزدیک اس وقت پیش آیا جب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے نواب اسلم رئیسانی کے بھائی میر سراج رئیسانی ایک چار دیواری میں منعقد ہونے والی کارنر میٹنگ میں شرکت کرنے گئے تھے جہاں وہ خود کش دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ اس حملے میں میر سراج رئیسانی سمیت 128 افراد جاں بحق اور 200 افراد زخمی ہو گئے۔ انتخابی مہم میں دہشت گردی کے سنگین خطرات محسوس کیے جا رہے تھے۔ لیکن میڈیا نے بلوچستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہونے والی اتنی بڑی ہلاکت خیزی کو نظر انداز کرکے عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف اور مریم نواز کی آمد پر لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے رہے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کیا ہے۔ سوال یہ ے کہ میر اسلم رئیسانی کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھارت کی حمایت سے بلوچستان میں چلنے والی تحریک کے خلاف واضح آواز تھے۔ مستونگ میں دہشت گردی کے واقعے سے قبل دو دن قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے یکہ توت میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک خودکش بمبار نے عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں گھس کر دھماکا کیا تھا جس سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 22 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اے این پی کا ہمیشہ شدت پسندوں کیخلاف واضح موقف رہا ہے جبکہ بلور خاندان کا صوبہ خیبر پختونخواہ کی سرخ سیاست میں اہم کردار رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اے این پی اور بلور خاندان کے رہنمائوں کو طالبان نے نشانہ بنایا ہوا ہے۔ دوسرا دہشت گرد حملہ خیبر پختونخواہ کے شہر بنّوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی ریلی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی کے بارے میں کافی عرصے سے خبریں آ رہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ شام اور عراق سے پسپا ہونے والے داعش کے جنگجوئوں کو فاٹا سے منسلک علاقے توڑا بوڑا کے پہاڑوں پر نامعلوم ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لا کر بٹھایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امن عمل اور داعش کی بڑھتی ہوئی قوت کے بارے میں غور کرنے کے لیے اسلام آباد میں چین، روس، ایران اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا ایک اجلاس ہوا جس کی خبر روسی خبر رساں ایجنسی طاس کے حوالے سے شائع ہوئی۔ مذکورہ اجلاس میں خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتے ہوئے خطرات پر غور کیا گیا۔ چار خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی ملاقات سے خطے میں ابھرنے والے ایک نئے اتحاد کا اشارہ ملتا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کوئی غیر متوقع اور اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف چار ریفرنسز میں سے ایک کا فیصلہ سنا کر سپریم کورٹ کے گزشتہ سال سنائے گئے فیصلے کی توثق کی ہے۔ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 11 سال قید با مشقت 8 ملین پائونڈ جرمانہ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بلڈنگ کی ضبطی کی سزا سنائی گئی جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو جعل سازی کے جرم میں8 سال قید اور 2 ملین پائونڈ جرمانہ اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو دو سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی ہے، جرمانے کی رقم 165 کروڑ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی خواہش تو یہ تھی کہ ان کا بے نظیر بھٹو کی طرح شاندار استقبال کیا جائے جب وہ 1986ء میں جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئی تھیں۔ لیکن ہوا یہ کہ مسلم لیگ (ن) کے گڑھ سمجھے جانے والے ایک کروڑ آبادی والے شہر لاہور سے کھینچ تان کر چند ہزار لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیس جو سڑکیں بند کرنے کے لیے کنٹینر لگا کر بند کر رہی تھی وہ اٹھا لیے۔ دوسری بات یہ کہ جب نواز شریف اور مریم نواز کا طیارہ لاہور میں اترا تو شہباز شریف ایئر پورٹ کے بجائے مال روڈ پر اپنی ریلی لیے ہوئے کھڑے تھے شاید انہیں ایئر پورٹ کا راستہ یاد نہیں رہا تھا جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والی لیگی رہنمائوں کی استقبالی ریلیاں بھی کہیں راستے میں ہی گم ہو گئی تھیں۔ حکومت میں رہ کر بڑھکیں لگانے والے لیگی رہنما اور ان کے گلّو بٹ کہیں نظر نہیں آ رہے تھے جبکہ حکومت نے اپنے منصوبے کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز کو طیارے کے اندر موجود کارکنوں کی تھوڑی سی مزاحمت کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ منصوبے کے مطابق انہیں خصوصی پرواز کے ذریعے اسلام آباد اور وہاں سے نواز شریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا تاریخی لمحہ ہے کہ کسی سابق وزیر اعظم اور اس کی بیٹی کو بدعنوانی کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ ویسے ایک عام خیال یہ ہے کہ اتنے دولت مند لوگوں کی سزائوں پر اتنا خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جیلر سمیت جیل کا پورا عملہ ایسے قیدیوں کا ماتحت ہی بن جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے نواز شریف کی آمد کو انقلاب کی آمد قرار دیا ہے اور اسے سول حکمرانی کی جد و جہد کے لیے ایک قدم قرار دے کر اسے بدعنوانی کے بجائے سول اور ملٹری تنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سزا کے خلاف اپیل کرنے کے لیے ان دونوں کو وطن واپس آنا ضروری تھا اور اپنے ووٹرز کو اپنے نعرے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو تقویت دینی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی نواز شریف کی سزا کو آئندہ عام انتخابات سے پہلے دھاندلی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ عدالت میں ان پر بدعنوانی ثابت نہیں ہو سکی ہے لیکن نواز شریف اور ان کے بچے یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ 1993ء میں اربوں کی یہ جائداد خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے حاصل کیا گیا تھا؟
فیصلے کے اعلان کے بعد لندن میں موجود پاکستانیوں کی تعداد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے سامنے جمع ہے جہاں سے آتے جاتے نواز شریف، ان کے بچوں اور مسلم لیگی کارکنوں و رہنمائوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ دریں اثنا مریم نواز اور حسین نواز کے بیٹوں نے نعرے لگانے والے ایک پاکستانی شخص پر تشدد کیا جس کے بعد لندن پولیس نے ان دونوں کو ہتھکڑی لگا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) لندن کے نائب صدر بھی مظاہرین کے ساتھ مارپیٹ کرنے کے جرم میں حوالات پہنچ چکے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو راولپنڈی میں گرفتار کر لیا گیا۔ فیصلے کے سنانے کے وقت یہ مانسہرہ میں تھے۔ تاہم سزا کی خبر سننے کے بعد یہ روپوش ہو گئے تھے اور ایک دو روز بعد راولپنڈی میں ایک مسلم لیگ کی ایک ریلی میں نمودار ہوئے جہاں سے انہیں کارکنوں اور مسلم لیگی رہنمائوں کی مزاحمت کے بعد گرفتار کرکے جیل منتقل کر دیا گیا۔ گرفتاری سے قبل انہوں نے اپنی بدعنوانی کی سزا کو ناموس رسالت کے حق میں بولنے کی سزا قرار دینے کی کوشش کی۔ تاہم جیل پہنچنے کے بعد ان پر تقریباً ڈھائی سو افراد کے خلاف غیر قانونی ریلی نکالنے اور پولیس سے مزاحمت کرنے کے مقدمات بھی درج کر لیے گئے جس کی زد میں راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی بھی آئے ہیں، تاہم اب ان کے خلاف ایفیڈرین کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہو چکی ہے جس کا فیصلہ 21 جولائی تک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ کئی برس عدالت میں ہے جس کے تحت نشہ آور دوا ایفیڈرین کوٹے سے زیادہ نکال کر فروخت کی گئی تھی۔
گزشتہ کئی سال سے یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ کسی طرح انتخابات نہ ہوں ملک میں مارشل لا لگ جائے تاہم ہنگامہ آرائی کی کوششوں کے باوجود ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس بار انتخابات میں حسب سابق من مانی کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا، جس کے نتیجے کچھ علاقوں میں سیاسی مخالفین کے حامیوں میں جھگڑے ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہر جماعت کو انتخابی مہم چلانے کا یکساں موقع نہیں دیا جا رہا۔ بدعنوانی کے مقدموں اور دھونس دھمکیوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے والے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے گروپ کی مثال دی جا رہی ہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے انتخابی نشانات کی فہرست سے جیپ کا نشان پسند کیا اور پھر 70-75 آزاد امیدواروں نے بھی جیپ کا نشان اپنے لیے منتخب کر لیا جس کے بعد یہ کہا جانے لگا ہے کہ جیپ گروپ کو درحقیقت ’’خلائی مخلوق‘‘ یا ’’محکمہ زراعت‘‘ کی حمایت حاصل ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آئندہ حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان دنوں کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے علاوہ اسی جماعت سے علیحدہ ہونے والوں کی جماعت ایم کیو ایم حقیقی اور پاک سر زمین پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی نے بھی ان علاقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جہاں سے یہ انتہائی خطرناک اور مشکل کام سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ان تمام جماعتوں نے شہری سندھ کے پڑھے لکھے اردو بولنے والوں یا مہاجروں کو اپنا امیدوار بنانے کو ترجیح دی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے کراچی آپریشن نے الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ اکھاڑ کر پھینک دیا ہے جس کے تحت یونٹ اور سیکٹر آفسوں کے مسلح کارکن علاقوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کے یہ دفاتر سرکاری زمینوں پر بنائے گئے تھے جنہیں کئی سال پہلے مسمار کیا جا چکا ہے۔ الطاف حسین کی رہائش گاہ اور ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور اس کے اطراف کی تنظیمی عمارتوں کو سیل کیا جا چکا ہے جہاں سے کئی ٹارگٹ کلز بھی گرفتار کیے گئے تھے۔ الطاف حسین کا پاکستانی میڈیا میں ذکر کرنے پر پابندی ہے لہٰذا وہ سوشل میڈیا پر تقاریر کرکے اپنے سابق ساتھیوں کو برا بھلا بول رہے ہیں، جب ان کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو انہوں نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میرے خلاف ہو گئی ہے، تاہم ان سے علیحدہ ہونے والے رہنمائوں نے یہ بیان دیا تھا کہ الطاف حسین بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ ہیں جنہیں کراچی کی تباہی کا کام سونپا گیا تھا۔ اس سلسلے میں کئی دستاویزی ثبوتوں کا حوالہ بھی دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم وہ 1992ء لندن میں مقیم ہیں اور منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مشتبہ ہونے کے باوجود اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ انتخابات سے قبل ہی یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اس بار کراچی میں مخلوط نتائج سامنے آئیں گے۔ یوں بھی یہاں لوگ اپنی لسانی اور فرقہ وارانہ اکائیوں اور کمینٹی کے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں لہٰذا ووٹ ایسے امیدواروں کو ملیں گے جن کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس حلقے میں آباد لوگوں کے مفادات کے حق میں زیادہ بہتر کام کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی سے چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی اپنے امیدوار سامنے لائی ہیں جن کے لیے پہلے انتخابات میں حصہ لینا بھی مشکل سمجھا جاتا تھا۔