نواز شریف کیخلاف بدعنوانیوں کے مابقی دو معاملات پر 24 ڈسمبر کو فیصلہ

٭ سپریم کورٹ کی تعین کردہ تاریخ پر عمل کرنا لازمی ، جج محمد ارشد ملک کا استدلال
٭ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے اقتدار کا بیجا استعمال نہیں کیا
اور نہ ہی میرے خلاف کوئی ثبوت سامنے آئے : نواز شریف

اسلام آباد۔ 19 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کی ایک انسداد بدعنوانی عدالت نے چہارشنبہ کو بتایا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بدعنوانیوں کے دیگر دو معاملات میں فیصلہ 24 ڈسمبر کو سنایا جائے گا۔ جج محمد ارشد ملک جن کا تعلق اسلام آباد کی احتسابی عدالت سے ہے، نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ معاملات میں جو 68 سالہ نواز شریف کے خلاف ہیں، نے تمام معاملات کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے نواز شریف کے خلاف بدعنوانیوں کے مابقی دو معاملات کی سماعت اور فیصلہ کے لئے 24 ڈسمبر کی مدت تعین کی تھی اور اسی مناسبت سے اب قطعی فیصلہ بھی اس تاریخ کو سنایا جائے گا۔ اگر ان معاملات میں نواز شریف کو ملوث پایا گیا تو انہیں 14 سال کی سزائے قید ہوسکتی ہے۔ احتسابی عدالت نے اگست 2017ء میں نواز شریف کو ان کی معلوم آمدنی سے زائد اثاثہ جات رکھنے کا قصوروار پایا تھا۔ جج نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی اس درخواست کو مسترد کردیا جہاں انہوں نے عدالت سے مزید دستاویزات کے ادخال کیلئے مزید ایک ہفتہ کی مہلت طلب کی تھی۔ جج نے، البتہ انہیں اجازت دی کہ وہ جمعہ تک کسی بھی دستاویز کا ادخال کرسکتے ہیں۔ جج نے خصوصی طور پر کہا کہ سپریم کورٹ نے 24 ڈسمبر کو جو قطعی تاریخ مقرر کی ہے، اس پر عمل آوری کرنا لازمی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہے کہ نواز شریف کے خلاف ایک قومی احتسابی بیورو نے 8 ستمبر 2017ء کو ان کی معزولی کے بعد اوینفیلڈ پراپرٹیز کیس، فلیگ شپ انویسٹمنٹ کیس اور العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں اپیکس کورٹ کے فیصلے کے بعد ملوث پایا تھا نواز شریف کو پناما پیپرس کیس میں ملوث پائے جانے پر سپریم کورٹ نے جولائی 2017ء میں وزیراعظم کے عہدہ سے معزول کردیا تھا جبکہ جولائی 2018ء میں نواز شریف، ان کی دختر مریم اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ)، محمد صفدر کو بالترتیب گیارہ سال، 8 سال اور ایک سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی جنہیں بدعنوانیوں میں ملوث ہوتے ہوئے لندن میں چار انتہائی پرتعیش فلیٹس خریدنے کا قصوروار قرار دیا تھا، تاہم ستمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا تھا جبکہ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین بھی بدعنوانیوں کے تینوں معاملات میں برابر کے شریک رہے ہیں تاہم عدالت میں ایک بار بھی حاضر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اشتہاری مجرم قرار دیا گیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ حسن اور حسین کی پاکستان واپسی پر ان کے خلاف معاملات کی علیحدہ سماعت کی جائے گی۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کے ارکان خاندان کا استدلال ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی کبھی بدعنوانیوں میں ملوث رہے۔ ان کے خلاف بدعنوانیوں کا کوئی بھی معاملہ ثابت نہیں ہوسکا ہے جس کے لئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اقتدار کا بیجا استعمال نہیں کیا۔