دشمن ترقی کر رہا ہے ۔ہم نے یہ اعتراف اپنی کتاب ترقی کرتا دشمن میں برملا کیا ہے۔ یہ ہندوستان کے چند سفروں کی داستان ہے ایک سفر اور پچھلے ہفتے بھی رہا ۔سات دن صرف دہلی میں اور عین چناؤ کے دن بھی ہم دہلی میں تھے اورمینا نگر میں راجیہ سبھا کے رکن اپنے دوست ترون وجے کا گھر تلاش کر رہے تھے۔ چینلوں کی بے شمار گاڑیاں کھڑی دیکھیں کہ کچھ دیر پہلے سونیا گاندھی اور ان کا پریوار ووٹ ڈال کر گیا تھا۔ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ ہمارے پڑوس میں تبدیلی ہمیشہ ووٹ کے ذریعے آتی ہے۔
دو سوال دونوں دیشوں میں پوچھے جارہے ہیں۔ مشرف کا کیا ہونے والاہے۔ دوسرا یہ کہ کیا مودی صاحب اتنی سیٹیں لے لیں گے کہ کسی چھوٹی پارٹی کے ساتھ کے بغیر مضبوط سرکار بنالیں ۔ دہلی میں ساتوں دن مصروف رہے۔ محبوب الہٰی حضرت نظام الدین کی درگاہ پر حاضری سے آغاز، ناظم نظامی سے تبرک دعائیں ،پرانی دہلی میںشاپنگ، عتیق صدیقی کے ہاں کئی اہم ادیبوں کے ساتھ نشست، لیکن زیادہ مزہ میٹرو ٹرین کی سواری میں آیا ۔آج کے دور میں ترقی کی سب سے بڑی نشانی زیر زمین ریل کی موجودگی ہے جس سے پاکستان اب تک محروم ہے اور مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار یا امکا نات بھی دکھائی نہیں دیتے ۔انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں میڈیا کے کردار پر سیمینار، جشن ادب کی طرف سے خوشبیر سنگھ شاد کا جشن اور مشاعرہ جہاں اترا کھنڈ کے گورنر عزیز قریشی چیف گیسٹ تھے۔ پاکستان کے ہائی کمشنر جناب عبدالباسط اورڈپٹی ہائی کمشنر منصور احمد خان بھی شریک رہے۔
وطن واپسی پر پھر منتخب نواز سرکار اور فوج کے درمیان کھنچائو اور تنائو کی کہانیاں ۔ابھی سارے ٹی وی چینل دکھارہے ہیں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس چل رہا ہے۔ صدارت وزیر اعظم کی ہے۔ آرمی چیف بھی ہیں نیوی، ائر چیف، وزراء، مگرسب کے چہرے کھنچے کھنچے ۔زندہ قومیں آنے والے واقعات کا پہلے سے سوچ کر تیاری کرتی ہیں۔ ایسے تنے ہوئے چہروں کی نوبت نہیں آنے دیتیں ۔سب سے مشورے کرکے سب کی رائے معلوم کرکے فیصلے کرتی ہیں۔ کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتیں اور قافلہ آگے بڑھتا رہتا ہے مگر ہمارے ہاں جب پانی عین سر پر آپہنچتا ہے تو مشوروں کی سوچتے ہیں اسی ہفتے میں وزیر اعظم نے سابق صدر اور پی پی پی کے سربراہ آصف زرداری سے ملاقات کی۔ اگلے ہی دن قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اور کچھ دن میں وہ ملٹری اکیڈمی کاکول جا کر ایک پریڈ کی سلامی لینے والے ہیں ۔ فوج اور نواز سرکار دونوں ہی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ دوریاں کم ہوں ۔
لیکن یہ ہو نہیں پارہا، کیوںکہ دونوں نے ایک دوسرے سے زخم کھائے ہیں جب جس کا زور اور دائو لگا ہے اس نے رعایت نہیں کی ہے۔ بہت کچھ کہا جارہا ہے لیکن میاں نواز شریف اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں مشرف کے معاملے میں نرم نہیں پڑ رہے ۔وہ سزا کے بعد معافی کے قائل ہیں۔ مقدمہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے میڈیا اس مسئلے پر بٹا ہوا ہے ایک بڑا گروپ نواز سرکار کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ ہر روز آئین اور قانون کی ایسی ایسی تشریح کرتا ہے۔ جس سے عدالت اور سرکار دونوں کی طاقت میں اضافہ ہو۔ عوام کی نظروں میں حکومت کا امیج اچھا رہے ۔کچھ میڈیا گروپ فوج کی رائے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ایک نیا قانون پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس بل کو قومی اسمبلی میں حکومت نے اپنی اکثریت کے بل پر منظور کروالیا، لیکن سینیٹ ہماری راجیہ سبھا میں جا کر پھنس گئی ہے۔ جہاں اپوزیشن اکثریت میں ہے یہ قانون فوج کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا اور خفیہ ایجنسیوں کو اس سے بہت اختیارات مل گئے ہیں۔
عام شہریوں کے حقوق سلب ہورہے ہیں دو سال کے لئے آئین کے تحت ملنے والی بہت سی رعایتیں روک دی گئی ہیں ۔لاپتہ افراد کا معاملہ اور الجھ گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے جسے اس قانون کے تحت پکڑ لیں اسے عدالت میں پیش کرنے میں کئی روز کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پی پی پی کی مدد لینے کیلئے نواز شریف نے آصف زرداری کو وزیر اعظم ہائوس میں آنے کی دعوت دی۔ اب اس قانون پر کچھ مذاکرات ہونگے ۔ایجنڈے میں اس قانون کے علاوہ مشرف اور طالبان سے بات چیت بھی زیر بحث آئی ہوگی۔ ان مسائل پر پی پی پی کا موقف واضح ہے اس لئے کسی نئے رخ کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ اصل مقصد اس ملاقات سے فوج کو یہ سندیسہ دینا ہے کہ کسی آفت کا سامنا کرنے میں دونوں ایک ہونگے لیکن اندر کا حال جاننے والے کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری ایک چالاک کھلاڑی ہیں وہ نواز شریف کو فوج سے ٹکرانے کی شہ دے کر تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ بھی یہی کیا تھا ادھر فوج بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ سیاستدانوں میں سے کون کس کے کتنا ساتھ ہے اور یہ کن مقاصد کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔
تنائو بڑھ رہا ہے ۔طالبان نے جنگ بندی ختم کردی ہے۔ وہ ایک برابر کی ریاست کی طرح اپنی شرائط منوارہے ہیں۔ حکومت نے کچھ قیدی چھوڑ دئیے ہیں۔ طالبان نے کسی کو نہیں رہا کیا ۔اب عام لوگ ڈر رہے ہیں کہ پھر دھماکے شروع ہوسکتے ہیں۔ اب طالبان ان کی ذمہ داری بھی قبول کرلیں گے جنگ بندی کے دوران جتنے دھماکے ہوئے طالبان لا تعلقی کا اعلان کرتے رہے، شاید یہی حکمت عملی تھی ۔پاکستان میں جب الیکشن ہوئے ایک سال ۱۱ مئی کو ہونے والا ہے۔ اس وقت ہمارے دونوں پڑوسیوں افغانستان اور ہندوستان میں الیکشن کے نتائج کا اعلان ہو رہا ہوگا۔ پاکستان میں سنجیدہ حلقے یہ سوچ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں میں نئی لیڈرشپ آنے والی ہے، جو ظاہر میں پاکستان مخالف ہے عملی طور پر نہ جانے کیسی ہوگی ۔کیا نواز شریف سرکار اس کی تیاریاں کر رہی ہے۔
افغانستان میں اگر عبداللہ عبداللہ آجاتے تو زیادہ مشکلات ہونگی، لیکن ادھر ہندوستان میں اگر نریندر مودی سے اچھے تعلقات ہوں تو ان کے ذریعے افغانستان سے بھی رشتے بہتر کئے جاسکتے ہیں ۔دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے ڈنر میں ایک باخبر سینئر صحافی نے کسی کتاب کے حوالے سے سب کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ مشرف دور میں نواز شریف صاحب کو آزاد کروانے میں ہندوستان کے بڑے صنعتکار امبانی کا ہاتھ تھا ۔کلنٹن سے بات انہوں نے کی تھی۔ پھر سعودی عرب کے ذریعے یہ کارروائی مکمل ہوئی۔ اب ہندوستان کے چنائو میں امبانی نریندر مودی کے سب سے بڑے مالی سرپرست بتائے جاتے ہیں ۔یہ تعلقات اگرچہ ذاتی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے غریب عوام کی حالت بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مئی زیادہ دور نہیں ہے۔بجٹ موسم بھی آرہا ہے۔ لیڈر لوگ اگر اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچیں تو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ،سب سے زیادہ وسائل اور سب سے زیادہ بھوک، غربت رکھنے والے اس خطے میں خوشیوں کے رنگ بکھیر سکتے ہیں ۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800