سلمان عابد
(پاکستان)
وزیر اعظم نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف وفاداری کی تقریب میں شرکت کرکے پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی آمد کے بعد پاکستان کی سیاسی اشرافیہ سمیت میڈیا میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس دورے سے نواز شریف کی کچھ حاصل کرسکے ہیں ۔ ایک بڑے اخبار نے وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی پر سرخی لگائی کہ ’’مبارک باد دینے گئے ، شو کاز نوٹس کے ساتھ واپس‘‘، اسی طرح ایک بڑا طبقہ وزیر اعظم نواز شریف پر تنقید کررہا ہے کہ اگرچہ یہ دورہ خیرسگالی کا تھا ، لیکن جب بھارت وزیر اعظم نے ان کے سامنے اپنے تحفظات کا تبادلہ کیا تو ہمیں بھی اپنا موقف کھل کر پیش کرنا چاہیے تھا ۔ ایک دلیل یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف نے روائتی طو رپر مہمان ہونے کی حیثیت سے بھارت کے نئے منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے سخت رویہ اختیا رکرنے کی بجائے مفاہمتی انداز اپنایا ہے ، تو میڈیا کے سامنے تو وہ پاکستان کا موقف اور تحفظات کا تبادلہ کرسکتے تھے ۔ تاکہ بھارتی قیادت او رمیڈیا کو بھی یہ احساس ہوتا کہ پاکستان نے بھی اپنا موقف پیش کرنے میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیںکیا۔
پاکستان میں وہ لوگ جو بھارت کی سیاست او راس کے پاکستان کے بارے میں رکھے گئے طرز عمل پر تحفظات رکھتے ہیں ، وہ وزیر اعظم کے دورہ دہلی کو ایک کمزور دورے سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔ان کے بقول پاکستان کی حکومت صرف تجارت کو بنیا د بناکر بھارت سے تعلقات کی بہتری کی خواہش مند ہے ، جبکہ اس کے برعکس دیگر تصفیہ طلب یا متنازعہ امور پر ہماری وہ شدت نہیں جو بھارت کی سیاسی قیادت میں پائی جاتی ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف ہر صورت میں اس بات کے خواہش مند ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے ۔ لیکن یہ بہتری دوطرفہ بنیادوں پر ہی ہوگی ۔ اس میں کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر دونوں قیادتوں کو آگے بڑھ کر ماضی کے رویہ کو خیر آباد کہہ کر نئی سیاسی راہیں تلاش کرنی ہوگی ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پریقینا اس سرمایہ دار طبقہ کا دباو ہوگا جنھوں نے ان کی انتخابی مہم میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے ، کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کو دہلی کے دورے کی دعوت دے کر تجارت کی بحالی کے لیے حالات کو سازگار بنائیں ۔لیکن وزیر اعظم مودی کو یہ بھی احساس ہوگا کہ ان کا اپنا ووٹ بینک اور اتحادی بالخصوص آر ایس ایس پاکستان کے بارے میں سخت گیر موقف رکھتی ہے ۔ اسی لیے بھارت کے وزیر اعظم نے بھارت او راس کی اسٹیبلیشمنٹ کے تحفظات کو کھل کر وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے پیش کرکے اپنے آپ کو سیاسی سرخرو کرنے کی کامیاب کوشیش کی ہے ۔
اس دوطرفہ ملاقات میں بھی بھارت کے نئے منتخب وزیر اعظم نے جس جرات کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم کے سامنے’’ دوستی کی چھتری ‘‘ کے نیچے بھارت کا ’’سخت گیر ایجنڈا ‘‘ پیش کیا ہے ، وہ واقعی قابل توجہ ہے ۔ان کے بقول پاکستان دوستی کے لیے سب سے پہلے دہشت گردی ختم کرنے اور ممبئی حملوں کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرے ، تاکہ بھارت جان سکے کے پاکستان دوستی میں کس حد تک مخلص ہے ۔بھارت کی نئی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بقول ہم یقینا دوستی چاہتے ہیں ، لیکن دھماکوں کے شور میں مذاکرات ممکن نہیں ۔ لوزیر اعظم نواز شریف دہلی یاترا میںبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مقابلے میں ایک دفاعی حکمت عملی میں نظر آئے ۔وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں بھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ اور ماضی کی سیاسی قیادتوں یا دائیں بازو سمیت مذہبی سیاست سے ہٹ کر بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا واضح ایجنڈا رکھتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس دورہ میں وزیر اعظم نواز شریف نے اسی خواہش کو دہرایا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کہانی 1999کے اعلان لاہور سے ہی شروع کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے دہلی یاترا پر پاکستان میں وہ مخالفانہ ردعمل سامنے نہیں آیا جو ماضی کی سیاست میں نمایاں ہوتا تھا۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اکثریت نے ان کے دورہ کی حمایت کی ، البتہ ان میں سے بعض جماعتوں کا موقف تھا کہ ہمیں بھارت سے بات کرتے ہوئے کسی بھی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک 1999سے مذاکرات کے معاملات کو جوڑنے کی بات ہے ، اس پر وزیراعظم نواز شریف کو سمجھنا ہوگا کہ یہ ان کی خواہش تو ہوسکتی ہے ، لیکن حقائق بالکل مختلف ہیں ۔ کیونکہ نہ تو اب 1999ہے او رنہ ہی واجپائی صاب، اب 2014کے حالات و واقعات ہیں اور دوسری طرف نریندر مودی ۔اس لیے جو کچھ طے ہوگا ، وہ نیا ہوگا۔
اگرچہ بھارت کے میڈیا نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی دہلی یاترا پر کافی تعریف کی ، ہمارے بعض دوستوں کے بقول بھارتی میڈیا کا یہ عمل ماضی سے مختلف نظر آیا۔ لیکن اس پہلو کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ان تعریفوں کے باوجود بھارت کا میڈیا مسلسل پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی پر شدید تنقید کرکے اسے بھار ت میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ قرار دیتا رہا۔اسی دورہ میں افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان دشمنی کا پورا مظاہرہ کیا ۔ ان کے بقول ہرات میں ہونے والے حملہ میں لشکر طیبہ شامل تھی ، اسی طرح ملا عمر بدستور کوئٹہ میں موجود ہے ۔اگرچہ افغان صدر حامد کرزئی کی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے ۔ لیکن نئے افغان صدر کے منتخب ہونے کے باوجود بھارت اور افغان تعلقات کی نئی پیش رفت میں دونوں ممالک مل کر پاکستان پرالزام تراشی سمیت دباو بڑھانے کی سیاست میں ایک دوسرے کی حمایت کریں گے۔اسی طرح بھارت کے نئے منتخب وزیر مملکت برائے وزیر جتندر اسنگھ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کی حکومت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے لیے کاروائی کا آغاز کرکے مختلف فریقین سے بات چیت کرکے اس کے خاتمہ کو یقینی بنایا جائے گا۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری میں بھارت میں کس حد تک پرجوشیت پائی جاتی ہے ۔جہاں تک رابطوں کی بحالی یا ڈایلاگ کے جاری رکھنے کا مسئلہ ہے ، تو یہ ممکن ہے کہ شروع ہوجائیں ۔ لیکن ماضی میں صرف سیاچین کے مسئلہ پر دونوں ملکوں کے درمیان 13راونڈ ہوچکے ہیں ، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ۔وجہ یہ ہی ہے کہ بھارت کی سیاسی کمٹمنٹ تعلقات کی بحالی میں وہ نہیں جو اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی ہے ۔اب دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی حکومت کتنی جلدی بھار ت کو ایم ایف این کا درجہ دیتی ہے ۔ کیونکہ بھارت چاہے گا کہ پاکستان اس عمل میں تیزی دکھائے ، جبکہ پاکستان اس تیزی میں جو رعائت بھارت سے چاہتا ہے اس کے امکانات بہت کم ہونگے۔ اگرچہ دونوں ممالک میں ابتدائی طور پر طے ہوا ہے کہ پہلے سیکرٹری خارجہ پھر وزرائے خارجہ کی سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔یہ بات حوصلہ افزا ہے ، لیکن یہ معاملات بھی کس حد تک آگے بڑھ سکیں گے اس پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے ۔اس کا انحصار خود وزیر اعظم مودی کی داخلی سیاست پر ہوگا کہ وہ اپنے پتے کن شرائط پر کھیلتے ہیں ۔
وزیر اعظم نواز شریف کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے کہ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تصفیہ طلب مسائل ہیں ان تمام امور پر بات چیت کو آگے بڑھائے وہ اپنے لوگوں کو بھی مطمن نہیں کرسکیں گے۔ یہ کہنا کہ سارے تصفیہ طلب معاملات کی بحث محض اسٹیبلیشمنٹ کی پیدا کردہ ہے ، ایسا نہیںکیونکہ جو متنازعہ امور ہیں اس پر پاکستانی قوم کو بھی تشویش ہے اور وہ دو طرفہ حل چاہتے ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ فوری طور پر سارے متنازعہ معاملات حل نہیں ہونگے ، لیکن ان معاملات کو مذاکرات کا ایجنڈا ضرور بنانا ہوگا۔وگرنہ یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ہم کچھ معاملات میں پرجوش ہیں اور کچھ کو ہم پس پشت ڈال کر مسئلہ کے حل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم شریف جس خیر سگالی کے جذبے سے بھارت گئے اس کا جواب بھارت نے ہمیں ایک چارج شیٹ کے طور پر دیا ہے ۔مودی وزیر اعظم تو بن گئے ، لیکن ابھی ان پر گجرات کا سایہ بھی موجود ہے ۔حالانکہ اس ابتدائی اور خیر سگالی کی ملاقات میں وزیر اعظم مودی کو محتاط رہنے کی ضرورت تھی ۔ڈر یہ ہے کہ اگر اب بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا ہے او راس کا الزام پاکستان پر لگتا ہے تو بھارت کی داخلی سیاست میں اس کا شدید ردعمل پاکستان مخالفت کی بنیاد پر ہوگا ۔ اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں ضرور آگے بڑھنا چاہیے ، لیکن احتیاط کے ساتھ اور بالخصوص بھارت کے ردعمل کو دیکھ کر اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے ہونگے ۔
برائے رابطہ ائی میل salmanabidpk@gmail.com
رابطہ برائے ایس ایم ایس 00923008429311