نواب شاہ عالم خاں کی یادمیں

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے دنوں نواب شاہ عالم خاں اپنے چاہنے والوں کے سروں پر سے اچانک اپنا سایہ اُٹھاکر عالم بالا کی طرف نکل گئے ۔ یہ تک نہ سوچا کہ ان کا سایہ اُٹھ جانے سے اُن کے چاہنے والے، زمانہ کی تمازتوں کو کیونکر برداشت کریں گے ۔
موت سے کس کو رُستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
وہ محبتوں‘ شفقتوں اور عنایتوں کا سمندر تھے ‘ جو کوئی بھی ملتا اُسے اپنی محبتوں اور شفقتوں سے سرشار کردیتے تھے ۔ لگ بھگ دو مہینے پہلے جب نواب صاحب کو اسپتال میں شریک کرایاگیا تو مجھے یقین تھا کہ نواب صاحب حسب سابق ہفتہ دس دن میں اپنی توانا خواہشِ زیست کے سہارے اور اپنی مضبوط قوت ارادی کے بل بوتے پر صحت یاب ہوکر جلد ہی گھر واپس ہوجائیں گے۔ کبھی کبھار وہ اسپتال چلے جاتے تو ضروری طبی معائنوں کے بعد چند ہی دنوں میں گھر واپس آجاتے تھے ۔ اس بار ان کے گھر واپس ہونے میں تاخیر ہونے لگی تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ ان کے فرزندوں قادر عالم خان اور احمد عالم خان کو فون کر کے روز ہی نواب صاحب کی کیفیت دریافت کرلیتا تھا ۔ پتہ چلا کہ خیریت سے تو ہیں ‘ البتہ انہیں بھوک نہیں لگ رہی ہے جس کی وجہ سے کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اس سارے عرصہ میں صرف دو بار نواب صاحب سے بات ہوئی ‘ وہ بھی چند سیکنڈوں کیلئے ۔ ان کی آواز اتنی نحیف و نزار ہوگئی تھی کہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مگر میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہوں گے ۔ وہ اس نحیف و نزار آواز میں بھی یقیناً مجھے دعاؤں سے سرفراز کررہے ہوں گے ۔ ان کی عادت تھی کہ چھوٹوں سے جب بھی ملتے یا بات کرتے تو دعاؤں کی بوچھاڑ لگادیتے تھے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کی اکثر دعائیں قبول بھی ہوجایا کرتی تھیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مجھ جیسا گنہگار بے اعتدالیوں کے باوجود اتنی لمبی عمر کیسے پاتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اوپر والے کے کرم سے اور نواب صاحب کی دعاؤں کے طفیل میں اب تک زندہ رہتا چلا آرہا ہوں ‘ ورنہ ضمیر کہتا ہے کہ مجھے تو پچاس برس پہلے ہی مرجانا چاہیئے تھا ۔

نواب صاحب سے میرے شخصی مراسم نصف صدی پرانے تھے اوریہ مراسم بھی طنز و مزاح میں نواب صاحب کی گہری دلچسپی کے باعث رہے ہیں ۔ میں نے 1962ء میں محض اتفاقاً مزاحیہ کالم نگاری شروع کی تھی ۔ میری ہی تجویز پر مئی 1966ء میں حیدرآباد میں طنز و مزاح کی یادگار کُل ہند کانفرنس زندہ دلان حیدرآباد اور حلقہ ارباب ذوق کے تعاون سے منعقد ہوئی تھی جس کے چرچے سارے ملک میں ہوئے ۔ اس وقت تک نواب شاہ عالم خاں سے میرے شخصی مراسم قائم نہیں ہوئے تھے ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی مجھے بہت عزیز رکھتے تھے ۔ وہ میرے ناقابل علاج مدّاح تھے اور میں حسب توفیق ان کے زیرعلاج رہتا تھا ۔ نواب شاہ عالم خاں ان کے گہرے دوستوں میں تھے ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کے ساتھ ہی میری ملاقات نواب صاحب سے ہوئی تھی ۔ اگست 1967ء میں جب حلقہ ارباب ذوق نے حیدرآباد میں جشن مزاح کے انعقاد کا اہتمام کیا تو اس میں راجندر سنگھ بیدی ‘ کنورمہندر سنگھ بیدی سحر ‘ فکر تونسوی ‘ اور دلاور نگار کے علاوہ دکن کے سارے اہم شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی تھی ۔ حکومت ہند کے اس وقت کے سکریٹری دفاع جناب وی شنکر آئی اے ایس نے اس جشن کا افتتاح کیا تھا ۔ بھارت چندکھنداس جشن کے صدر تھے اور میں اس کا معتمد تھا ۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس موقع پر لطیفہ گوئی کی ایک محفل بھی منعقد کی جائے ۔ یوں بھی اس محفل میں دو سردار آرہے تھے ۔ یہ بات جب نواب شاہ عالم خاں تک پہنچی تو انہوں نے بتایا کہ ہمالیہ ڈرگ کمپنی کے مالک ایم ۔منال صاحب ان کے دوستوں میں ہیں اور وہ شوقیہ طور پر بہت پُرلطف انداز میں لطیفے بھی سناتے ہیں ۔ چنانچہ نواب صاحب کی سفارش پر ایم ۔منال نے اس جشن میں شرکت کی اور ایسے لطیفے سنائے کہ گاندھی بھون کا ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا ۔ میں نے بعد کی زندگی میں کبھی لطیفہ گوئی کی ایسی کامیاب محفل میں شرکت نہیں کی ۔ یوں نواب شاہ عالم خاں مزاح نگاروں کے سرپرست بن گئے ۔ ان کا ایک شخصی احسان مجھ پر یہ بھی ہے کہ 1968ء میں میری پہلی کتاب ’’ تکلف برطرف ‘‘ انہوں نے اپنے صرفہ سے چھپوائی ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ میری اس پہلی کتاب کو جو مقبولیت عطا ہوئی وہ کسی اور کتاب کے حصہ میں نہ آئی ۔ چنانچہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے ایک ہزار نسخے صرف تین مہینوں میں فروخت ہوگئے ۔ فوراً دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا ۔ زندہ دلان حیدرآباد کے ادبی اجلاسوں میں جب میںکوئی مضمون سناتا تھا تو اس کے سامعین میں میرے پانچ کرم فرما عابد علی خان ‘ محبوب حسین جگر ‘ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی ‘ نواب شاہ عالم خاں اور ڈاکٹر سید عبدالمنان سامنے کی صفوں میں ضرور موجود ہوتے تھے ۔وہ عابد علی خاں ایڈیٹر سیاست کے طالب علمی کے زمانہ کے دوست تھے۔

نواب شاہ عالم خاں نہایت وجیہہ و شکیل شخصیت کے مالک ہونے کے علاوہ نہایت خوش لباس ‘ دلنواز اور جامہ زیب واقع ہوئے تھے ۔ کوئی بھی لباس پہن لیتے تو وہ ان پر خوب نکھرتا اور سجتا تھا ۔ میں اکثر مذاق میں کہا کرتا تھا کہ اگر نواب صاحب گاندھی جی کا شہرہ آفاق لباس بھی پہن لیں تو بھلے ہی وہ جامہ زیب نہ لگیں بیحد دیدہ زیب تو ضرور دکھائی دیں گے ۔ شیروانی پہنتے تو رومی ٹوپی ضرور پہنتے تھے ۔ پھولوں کے اور وہ بھی گلاب کے بیحد شوقین تھے ‘ کبھی کبھی اپنے سوٹ کے کالر پر یا شیروانی کے کاج میں گلاب کا خوشنما پھول بھی ٹانک لیتے تھے ۔ وہ برسوں عالمی روز سوسائٹی (Rose Society) کے صدرنشین بھی رہے ۔ ان کا قد بھی ایسا اونچا پورا تھا کہ کسی بھی محفل میں جاتے تو سب سے مختلف اور نمایاں نظر آتے تھے ۔ انہیں مسلمانوں کی تعلیم سے بے حد دلچسپی تھی ۔ چنانچہ برسوں وہ انوارالعلوم ایجوکیشن سوسائٹی اور نواب شاہ عالم خان انجنیئرنگ کالج کے سربراہ رہے ۔ 2004 ء میں جب انوارالعلوم ایجوکیشن سوسائٹی کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو انہوں نے ازراہ عنایت مجھے اس کی مشاورتی کمیٹی کا رکن بنایا ۔

ان کا حسن سلوک خالص حیدرآبادی ہوتا تھا ۔ وہ حیدرآبادی تہذیب کے نہ صرف پروردہ تھے بلکہ اس کے امین بھی تھے ۔ میں جب بھی ان سے ملنے کیلئے جاتا تو وہ فوراً اُٹھ کر کھڑے ہوجاتے تھے اور خالص حیدرآبادی انداز میں جھک کر دوچار سلام کرتے تھے اور میں جب جانے لگتا تو میرے منع کرنے کے باوجود باہر تک چھوڑنے ضرور آتے تھے ۔ یہ وضع داری ‘ یہ رکھ رکھاؤ ‘ یہ سلیقہ ‘ یہ رچاؤ اب کہاں دیکھنے کو ملے گا ۔ وہ جہاں حیدرآبادی تہذیب کی نشانی تھے وہیں وہ انگریزی تہذیب اور آداب کے پاسدار بھی تھے ۔ ان کی تعلیم انگریزی مدرسوں میں ہوئی تھی اور وہ بہترین انگریزی بولتے تھے ۔ وہ اکثر اپنے انگریز اساتذہ کا ذکر بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ۔ وہ جو بھی کام کرتے تھے نہایت خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں گولکنڈہ سگریٹ فیکٹری کے استحکام کیلئے انتھک محنت کی ۔ اسی محنت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی ایک الگ امپائر قائم کرلی تھی ۔ اگرچہ بعد میں ان کے لائق فرزندوں نے کام سنبھال لیا تھا مگر وہ آخر تک ہر روز تیار ہوکر اپنے دفتر ضرور جایا کرتے تھے اور ڈسپلن کی پابندی کرتے تھے ۔ اب انہیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو ان کے حسن سلوک کی کتنی ہی باتیں یاد آنے لگی ہیں ۔ 2007ء میں جب حکومت ہند نے مجھے پدم شری کے اعزاز سے نوازا تو نواب صاحب مجھے مبارکباد دینے کیلئے بہ نفس نفیس میرے غریب خانہ پر تشریف لے آئے ۔ اُن دنوں میرا ’’ غریب خانہ ‘‘ اے سی گارڈس کی ایک بلڈنگ کی پانچویں منزل پر واقع تھا ۔ میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ میں نے کہا ’’ نواب صاحب آپ نے یہاںآنے کی زحمت کیوں گوارا کی میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ‘‘ ۔ ہنستے ہوئے مجھے اپنے سینہ سے لگایا اور کہا ’’میاں مجتبیٰ ! اگر یہ خطاب تمہیں میر عثمان علی خاں کے دور میں ملتا تو آج تم ’’ مجتبیٰ یار جنگ ‘‘ کہلائے جاتے ۔ پھر بولے یاد رکھو تمہیں پدم شری ملنے کی پہلی تہنیتی تقریب میرے گھر پر منعقد ہوگی ۔ چنانچہ ایک ہفتہ بعد انہوں نے میرے لئے ایک شاندار تقریب اپنے گھر پر رکھی جس میں انہوں نے حیدرآباد کے کئی باذوق اور بارسوخ اصحاب کو مدعو کیا تھا ۔ بعد میں انہوں نے مجھے ایک ایسی گھڑی بھی تحفہ میں دی جس کی قیمت ان دنوں ایک لاکھ روپئے سے زیادہ تھی ۔ میں نے عرض کیا ’’نواب صاحب ! یہ گھڑی مجھ سے زیادہ قیمتی ہے ‘ میں بھلا اپنا وقت ضائع کرنے کیلئے اسے کیونکر استعمال کرسکتا ہوں ‘‘ ۔ اس بات پر زور دار قہقہ لگایا ۔ میرے بعض خاص احبا ب جب بھی باہر سے آتے تو وہ بڑے اہتمام سے انہیں اپنے گھر پر مدعو کرتے تھے۔

نواب صاحب کی کتنی باتوں کو یاد کروں۔ میں اپنے بارے میں اتنا فکرمند نہیں رہتا تھا جتنا کہ نواب صاحب میرے لئے فکر مند رہا کرتے تھے ۔ ہمیشہ کہتے تھے کہ تمہیں کوئی پریشانی ہو تو بلاتکلف مجھے سے کہو۔ اور میں ان سے کہتا تھا کہ ’’ نواب صاحب ! آپ کا جو حسن سلوک میرے ساتھ ہے اس کی مالیت میرے لئے کروڑوں روپیوں سے زیادہ ہے ‘ مجھے اور کیا چاہیئے ‘‘ ۔ایک بار میری صحت کے تعلق سے فکر مند ہوئے تو امراض شکم کے (Asian Institute of Gastro Entrology) کے ڈاکٹر ناگیشور ریڈی سے کہا کہ وہ میرے سارے طبی معائنے کرائیں اور میرا علاج کریں ۔ میں نے نواب صاحب سے دست بستہ عرض کی کہ حضورمیں نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ کے کئی دواخانوں میں پیٹ کے کئی تفصیلی معائنے کروائے ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ میرا پیٹ میری جذباتی اور نفسیاتی کیفیت کے تابع ہے ۔ لہذا خوش رہا کرو ‘‘ ۔
نواب صاحب کا حافظہ غضب کا تھا ۔ برسوں پرانی باتیں ان کے حافظہ میں تر و تازہ رہتی تھیں ۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں جب ’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ہر ہفتہ چھپنے والی شخصیت کے بارے میں مجھ سے تفصیلی باتیں کرتے تھے ۔ حیرت ہوتی تھی کہ گذشتہ حیدرآباد کے بارے میں ان کا مشاہدہ کتنا وسیع اور عمیق ہے ۔ حیدرآباد کے کئی امراء اور روسا کے افراد خاندان کو وہ شخصی طور پر جانتے تھے اور یوں وہ حیدرآبادی تہذیب کی روشن قدروں اور ان کی باریکیوں سے کما حقہ آشنا تھے ۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ نواب صاحب گذشتہ حیدرآباد کی آخری نشانی تھے ۔
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں