نواب شاہ عالم خاں صاحب مرحوم آبروئے تہذیب دکن و فکر و آگہی کے روشن چراغ

نسیم احمد
نواب شاہ عالم خاں صاحب مرحوم 23 اکتوبر کو ساری قوم کو روتا چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ رات کے1½ بجے ان کے انتقال کا اعلان ہوا، لیکن یہ خبر شہر حیدرآباد میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ صبح اخبارات میں تدفین کا وقت عصر کی نماز بتایا گیا، لیکن حیدرآباد میں نواب صاحب کے چاہنے والوں کا ایک ہجوم صبح ہی سے ان کے دولت خانے برکت پورہ پر جمع ہونا شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً چار ہزار لوگ بلالحاظ مذہب و ملت و عمرجمع ہوگئے۔ ٹھیک عصر کی نماز سے کچھ دیر پہلے نواب شاہ عالم خاں صاحب مرحوم بڑی شان سے روایتی انداز میں اپنے سات بیٹوں کے مضبوط کاندھوں پر سوار گلاب کے پھولوں سے لدے ہوئے جنازے میں اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک عجیب اُداسی کا ماحول تھا۔ ہر ایک کی آنکھ میں آنسو اور ہر ایک آزردہ۔
دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی تشکیل میں تاریخ کا ہاتھ ہوتا ہے اور کچھ ایسی جو اپنے ہاتھوں سے تاریخ تشکیل کرتی ہیں۔ نواب صاحب مرحوم کا شمار ایسی ہستیوں میں تھا جن کو ’’تاریخ گر‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ نواب صاحب مرحوم ایک سیکولر ذہنیت اور روشن خیالات والے انسان کی حیثیت سے اپنے معاشرہ میں ایک اعلیٰ ممتاز اور منفرد مقام رکھتے تھے۔ نواب صاحب مرحوم حیدرآباد کی روایتی تہذیب و ثقافت، شرافت و صداقت اور علم و حکمت کے علم بردار تھے۔ ان کی شخصیت میں غرور، تکبر اور انانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر ملنے والے سے بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ ان کے انداز تحاظب میں بڑی مٹھاس اور اپنائیت ہوتی تھی۔ ان کی مردانہ وجاہت سے بھرپور پرکشش پیکر میں ایک بانکپن تھا۔ شائستگی اور انکساری ان کے لب و لہجہ کی پہچان تھی۔ ان کی پروقار اور قابل تعظیم شخصیت کی خوشبو آج بھی ہمارے معاشرہ میں مہک رہی ہے۔ نواب صاحب مرحوم ایک ایسے چشمہ فیضان تھے جن کا فیض ہر قلمکار، ادیب، شاعر، مصور اور فنکار اور صلاحیت والے نوجوانوں کے لئے مسلسل جاری رہتا تھا۔ ان کا دل بڑا کشادہ تھا۔ ادبی اور ثقافتی اداروں کی خاموشی سے مالی امداد کرتے تھے اور ان کی تہذیبی اور علمی کاموں میں سرپرستی فرماتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب مرحوم کو دنیوی مال و متاع سے بھی بہ کثرت نوازا تھا، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے اس تحفہ کو ہمیشہ اس رب العزت کی ایک امانت سمجھ کر بڑی فراخدلی سے حاجت مندوں میں بانٹنے میں آگے آگے رہے اور دینی و ملی خدمات انجام دیتے رہے۔ نواب صاحب مرحوم کا مقصد حیات اور سارا فلسفہ یہی تھا کہ قوم کے کسی فرد کے آنکھ میں آنسو نہ رہیں۔ کسی کا چہرہ مضمحل نہ ہو۔ کسی کا دل اُداس اور مایوس نہ ہو اور معاشرہ کا ہر فرد بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہے۔
نواب صاحب مرحوم کے ان خوابوں کی تعبیر ان کی زندگی میں پوری ہوئی۔ کئی اداروں، کالجوں اور مدرسوں کے سربراہ تھے۔ ان میں قابل ذکر انوارالعلوم کالج، مدرسہ اعزہ اور نواب شاہ عالم خاں انجینئرنگ کالج ہے۔ آزادی کے بعد اقلیتی ادارے بے معنی اور بے فیض ہوگئے تھے۔ مسلمان معاشی بحران سے گذر رہے تھے۔ اقلیتی طبقہ کا 90% تعلیم سے دور ہونے لگا تھا۔ ملک بہت بہت ہی نازک دور سے گذر رہا تھا۔ ایسے آزمائشی وقت میں نواب شاہ عالم خاں مرحوم اور جناب وزارت رسول خاں مرحوم نے کئی تعلیمی ادارے قائم کرکے مسلمانوں کو تعلیم کی ضرورت اور اہمیت سے نہ صرف آشنا کروایا بلکہ حیدرآباد اور اس کے اطراف کے ضلعوں میں مسلمانوں کو وقت کی اہم ضرورت جدید تعلیم سے جوڑنے میں مدد دی۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان اداروں سے نکلے ہوئے ہزاروں طلباء اور طالبات ساری دنیا میں مختلف شعبہ جات میں نمایاں مقام بناکر اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نواب صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے نواب محبوب عالم خاں صاحب موجودہ صدر انوارالعلوم کالج کی قیادت میں انوارالعلوم کالج اور دیگر اداروں نے ملک کے ایک مثالی، منظم اور مستحکم اداروں کی شکل میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے۔ نواب صاحب مرحوم کو باغبانی کا بہت شوق تھا اور پھولوں سے پیار تھا۔ پھولوں میں انہیں گلاب بڑا پسند تھا۔ ان کا یہ شوق انڈیا روز سوسائٹی‘‘ کو قائم کرنے کا محرک ثابت ہوا۔ ان کے دوسرے صاحبزادے نواب احمد عالم خاں صاحب نواب صاحب مرحوم کی صدارت میں اس سوسائٹی کو عالمی سطح پر پھولوں کی بہترین اور منفرد مقام اور شناخت دلانے میں کامیاب رہے۔ سال میں ایک دفعہ دنیا کے کسی نہ کسی شہر میں پھولوں کی عالمی نمائش ہوتی ہے جس میں دنیا بھر کے انجمنیں حصہ لیتی ہیں۔ ایسی کئی نمائشوں میں انڈیا روز سوسائٹی کو پھولوں کی افزائش نسل میں حذف اور نئی ایجادات کے سلسلے میں انعامات اور اسناد سے نوازا گیا۔ اس طرح کی ایک نمائش حیدرآباد میں بھی منعقد کی گئی تھی جس میں دنیا کے تمام پھولوں کی انجمنیں شریک ہوئی تھیں۔ اس نمائش میں تقریباً 500 بین الاقوامی مندوبین اور 2000 ہندوستانیوں نے شرکت کی تھی۔ نواب صاحب مرحوم کے گھر کی خاص وصف اور روایت کے مطابق ان کی نگرانی اور زیرسرپرستی اور نواب احمد عالم خاں صاحب کی شخصی دلچسپی اور معیاری انتظام کے تحت ایک شاندار عصرانہ دیا گیا تھا جس میں کم از کم ہمہ قسم کے 100 ڈیشس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی مہمان اس افسانوی ضیافت اور حیدرآباد کی وضع دار تہذیب کی خوشگوار یادیں لے کر حیدرآباد سے رخصت ہوئے۔
نواب صاحب مرحوم اپنے وقت کی تاریخ اور ایک صدی کی اہم دستاویز تھے۔ ادبی طور پر پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ علم و ادب کا ایک وسیع سمندر تھے۔ جن کے فہم و اِدراک کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ جتنی بہترین اُردو جانتے تھے۔ اتنی ہی ان کی انگریزی قابل رشک تھی۔ کئی معیاری مشاعروں اور ادبی جلسوں کی صدارت فرمائی۔ سامعین، شعراء اور ادیب ان کے صدارتی کلمات کا بے چینی سے انتظار کرتے۔
اردو ادب میں غزل کے بڑے شیدائی تھے۔ دوسری طرف ہندوستان کی کلاسیکل سنگیت سے انہیں بڑی رغبت تھی۔ ان کے دولت خانے پر ہندوستان کے نمائندہ کلاسیکل فن کاروں کا پروگرام منعقد کیا جاتا تھا۔