سوال : ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں پہلے سے جنازہ موجود تھا، میں نے چاہا کہ نماز جنازہ کے بعد اپنے کام کے لئے چلے جاؤں گا، بڑا افسوس ہوا کہ میت رکھی ہوئی ہے اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تکرار ہورہی تھی۔ بعض افراد خاندان کا کہنا تھا کہ مرحوم نے ایک اپنے عزیز کو نماز جنازہ پڑھانے کے لئے وصیت کی تھی، جبکہ وہ صاحب اس وقت موجودہ نہیں تھے، ان لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ صاحب آنے تک نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، تاہم مرحوم کے فرزند نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام صاحب کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دیدی، معلوم کرنا یہ ہیکہ اگر کوئی شخص انتقال سے قبل وصیت کرے کہ فلاں شخص اس کی نماز جنازہ پڑھائے تو کیا اس شخص کا ہی نماز جنازہ پڑھانا ضروری ہے یا اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
عبدالودود، ملے پلی
جواب : اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں وصیت کرے کہ بعد وفات وہ اس کی نماز جنازہ پڑھائے تو شرعی لحاظ سے ایسی وصیت کی تعمیل لازم نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 163 میں ہے ۔ وفی الکبری المیت اذا اوصی بأن یصلی علیہ فلان فالوصیۃ باطلۃ و علیہ الفتوی کذا فی المضمرات ۔
والدین کو برائی سے روکنا یا نہیں
سوال : میرے والد نہایت اچھے انسان ہیں، وہ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ان میں ایک خامی ہے کہ وہ کبھی کبھی شراب پیتے ہیں، مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ نمازوں کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے ۔ میں نماز پابندی سے پڑھتا ہوں۔ مجھے ڈر ہوتا ہے کہ ان کو شراب پینے اور نماز ترک کرنے کی وجہ سے آخرت میں عذاب ہوگا ۔ اس کے علاوہ دنیوی اعتبار سے وہ بہت اچھے انسان ہیں۔ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے میں ان کو سمجھا نہیں سکتا ۔ مجھے ڈر ہوتا ہے ۔ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
نام مخفی
جواب : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی لڑکا اپنے والدین میں غیر شرعی عمل کو دیکھے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں اس عمل کی برائی کو ظاہر کرے اور نہایت سنجیدگی اور نرمی سے ان کو اس عمل سے روکے لیکن ان کو شدت سے نہیں روکنا چاہئے ۔ اگر وہ بات قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان کے لئے اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 107 میں ہے : فان الامر بالمعروف والنھی عن المنکر فیہ منفعۃ من امرہ و نھیہ عن المنکر والاب والام أحق بأن ینفع لھما … لکن ینبغی ان لا یعنف علی الوالدین فان قبلا فبھا والا سکت و اشتغل بالا ستغفار لھما کذا فی نصاب الاحتساب۔
یہ کیسا پردہ ہے ؟ کیا اسے پردہ قرار دیا جاسکتا ہے ؟
سوال : دیکھا یہ جارہا ہے کہ مسلم خواتین اپنے ہاتھوں آپ آفت اور بلا میں پڑ رہی ہیں۔ خواتین کی اکثریت نے آپ اپنی ایک شریعت کی بنا ڈالی ہے ۔ ہمارا اشارہ ان پردے کی دعویدار خواتین کی جانب ہے جو ہمیشہ تبدیل ہوتے رہنے والے کرایہ دار مردوں سے پردہ نہیں کرتیں۔ محلے کے نوجوان بیٹوں کی دوستی کے نام پر بے دھڑک گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ کھلے بندوں گھر کے باہر نکل کر مسلم / غیر مسلم سودے والوں سے چکا چکا کر پرکھ پرکھ کر دیر تک سودا خریدتی ہیں۔ اہل محلہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کوئی پردہ نہیں۔ دور دراز جاتے وقت برقعہ اوڑھ لیتی ہیں ۔یہ کس قسم کا پردہ ہے اور کیا اسے شرعی پردہ قرار دیتے ہوئے ان خواتین کے غرور و فخر کو قبول کیا جاسکتا ہے ؟
مقصود احمد ، مہدی پٹنم
جواب : شریعت میں عورت پر ہر غیر محرم بالغ شخص سے پردہ کرنا لازم ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ احوال معاشرہ میں مسلم خواتین کی جانب سے کی جانے والی کوتاہی کی طرف نشاندہی ہے ۔ ہر مسلم خاتون کو مندرجہ در سوال صورتوں میں بھی پردہ کو ملحوظ رکھنا لازم ہے ۔ اگر اس میں وہ کوتاہی کریں تو عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔ مسلم خواتین کی کما حقہ پردہ سے بے اعتنائی سے بڑے بڑے مفاسد و خرابیاں مسلم معاشرہ میں جنم لے رہی ہیں۔ اس کے سدباب کے لئے جستجو کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
طلاق کے بارے میں شرعی احکام
سوال : میرے چچا زاد بھائی ایک سال پہلے لڑکی کو اپنی مرضی سے طلاق دے دیا اور قضائت کے دفتر جا کر کاغذات پر دستخط اور عدت وغیرہ کے پیسے بھی جمع کردیا تھا ۔ طلاق بھی لڑکی کو اسلئے دئے تھے کہ دونوں کے تعلقات اچھے نہیں تھے اور لڑکی نے کئی بار لڑکے سے کہا کہ میں تیرے ساتھ ایک سکنڈ زندگی نہیں گذار سکتی ۔ ایک وقت ہم سب لوگ بھی تھے پھر لڑکے سے کہا کہ میں خلع لینا چاہتی ہوں مگر وہ تمہاری مرضی سے خلع بھی نہیں ہوسکتا انہی دنوں میں لڑکی والے لڑکے کے خاندان کے لوگوں پر جہیز ہراسانی کیس ڈال دئے ۔ تھوڑے دن میں لڑکے کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا اور ہم لوگ جہیز میں کوئی چیز نہیں لئے ۔طلاق کے بعد اب لڑکی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ طلاق نہیں ہوا ، لڑکی کے ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں ۔ مہربانی فرما کر آپ ذرا جلد سے جلد جواب اخبار کے ذریعے معلوم کئے تو مہربانی ہوگی ۔ میری آپ سے التجا ہے کہ یہ آئندہ کے اخبار میں آپ کی رائے معلوم کیجئے کیونکہ لڑکا خود اپنی مرضی سے طلاق دیا ہے لڑکی جب کئی بار کہی کہ ایک سکنڈ زندگی نہیں گذار سکتی اسکے بعد لڑکے نے طلاق ہونے کے بعد کئی بار کہا ہے کہ اب میں اسکے ساتھ زندگی نہیں گذار سکتا اسکے سب لوگ گواہ ہیں ۔
نام ندارد
جواب : لڑکے نے جس وقت دفتر قضات میں اپنی زوجہ کو جتنی مرتبہ طلاق دیا اسی وقت بیوی پر اتنی ہی طلاقیں واقع ہوچکیں ۔ طلاقنامہ میں جس طلاق کا ذکر ہے وہ طلاق واقع ہوچکی ۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے بیوی کا طلاق کو قبول کرنا کوئی ضروری نہیں ۔ اس لئے لڑکی والوں کو طلاق نہ ہونے کا دعوی شرعاً درست نہیں ہے ۔
نوٹ :طلاق نامہ کی کاپی دفتر سیاست کو روانہ کی جائے تو طلاقنامہ کے مطابق شرعی احکام بیان کئے جائیں گے ۔
بھانجی کی لڑکی سے نکاح کرنا
سوال : مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک شخص کی شادی اس کی سگی بھانجی کی دختر سے قرار پائی ہے اور یہ شادی کو کچھ لوگ جائز کہتے ہیں۔ آپ جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں تاکہ صحیح واضح ہوجائے اور جو اسطرح کا مسئلہ بتائے اس پر کیا حکم ہے ؟ جواب جلد دیں، شادی کسی بھی وقت ہوسکتی ہے ؟
شاہد علی ، پرانا پل
جواب : حقیقی بھانجی اور اس کی لڑکی سے شرعاً رشتہ نکاح حرام ہے ۔ پس لڑکے کا حقیقی بھانجی کی لڑکی سے نکاح کرنا شرعاً درست نہیں۔ اگر نکاح ہوجائے تو فی الفور دونوں کو علحدہ کرنا لازم ہے۔ شرعی مسئلہ معلوم ہونے کے بعد ان کا نکاح کرنا ، تعلق زن و شوہر قائم کرنا شرعاً زنا ہے جو کہ حرام ہے ۔
کیا بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حق ہے
سوال : ایک مسئلہ دریافت طلب ہے کہ بیوی کو ان کے ماں باپ کی طرف جو مال و متاع حاصل ہوا۔ کیا اس پر اس کے شوہر کا حق پیدا ہوتا ہے یا نہیں ؟ جواب سے سرفراز فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔
صفت اللہ ، کنگ کوٹھی
جواب : بیوی کو اس کے والدین کی جانب سے دیا گیا مال و متاع نیز موروثی جائیدادمیں بیوی کو ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار ہے کیونکہ وہی اس کی مالک و مختار ہے اس کی زندگی میں اس کے مال و متاع میں اس کے شوہر کا کوئی حق نہیں۔
بدگمانی
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں پیار و محبت، اُلفت و شفقت کے بجائے نفرت، عداوت، بغض و مخالفت عام ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے بدگمانی کے شکار ہیں اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلامی نقطہ نظر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے واضح فرمائیں تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
اسمعیل خان، پرانی حویلی
جواب : اسلام نے مسلمانوں، اپنے دوستوں اور اپنے عزیزوں کے متعلق حسن ظن کا حکم دیا ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ دوسروں کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ کو کسی سے کوئی ایسی بات سننا گوارہ نہ تھی جس سے آپؐ کے دل میں اپنے کسی صحابی کے خلاف کوئی کدورت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا (الترمذی ، 710:5 حدیث 3896) ۔ آپ ﷺ کا ہمیشہ اس آیہ کریمہ پر عمل رہا : ’’یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم‘‘ (49 (الحجرات{{{{) : 12) ’’یعنی اے اہل ایمان (دوسروں کے متعلق) بہت بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض گمان محض گناہ ہیں‘‘۔ آپ ﷺ کا ارشاد تھا : ’’حسن ظن اچھی عبادت ہے‘‘ (ابوداؤد ، 366:5، حدیث 4993) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص حاضر ہوکر کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! میری بیوی کے ہاں سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے‘‘ (یعنی شک کا اظہار کیا) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تیرے پاس ایک کوہان والے اونٹ ہیں‘‘؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’ان کا کیا رنگ ہے؟‘‘ کہا : ’’سرخ‘‘ فرمایا : ’’کیا ان میں مٹیالے رنگ کے بھی ہیں؟‘‘ کہا : ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’وہ کہاں سے آئے؟‘‘ اس نے کہا : ’’شاید کسی رگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو‘‘ (یعنی کسی رشتہ دار کا رنگ لے لیا ہو) ، فرمایا : ’’اپنے ہاں بھی یہی سمجھ لو‘‘ (الترمذی ، 439:4 ، حدیث 2128) ، آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’تم خاص طور پر بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت ہی بُری بات ہے‘‘ (مسلم، البر، 4 : 1980) ۔ ’’بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے خواہ مخواہ بدظنی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی لپیٹ میں آنے سے کوئی شخص بھی نہیں بچ سکتا۔ آپ ﷺ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اسی بناء پر خود بھی بدگمانی سے بچتے اور دوسروں کو بھی بدگمانی سے بچنے کی تلقین فرماتے۔
اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ان موقعوں سے بھی بچو جن سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ عورت کو تنہا سفر کرنے یا کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کرنے سے روکتے تھے۔ (البخاری ، 453:3، النکاح ، باب 111، 112)
مدرسہ کی نوکری کی اہانت
سوال : چار دوستوں میں طنز و مزاح کے ماحول میں گفتگو چل رہی تھی اس میں دینی مدرسہ کے مولانا نے گفتگو میں کہا کہ میں مدرسہ کی نوکری کے متعلق انتہائی نازیبا کلمات کہا تو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اور یہ بھی کہا کہ میں مدرسہ کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ معلوم کرنا یہ ہے کہ اسمیں شرعی اعتبار سے کچھ عذر ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب : دینی مدرسہ کے مدرس نے مدرسہ کی توہین کی ہے۔ عام آدمی کو بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئے ۔ کسی مدرسہ کے استاذ کیلئے قطعاً موزوں نہیں۔ ایسا ہی ہے تو وہ خود فوری مدرسہ سے علحدہ ہو جائیں ۔ نیز ہر حال میں ان کو توبہ کرنا چاہئے۔