نماز ، اللہ سے تعلق قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ، نماز قائم کرنے کی تلقین

مسلم گرلز اسوسی ایشن کا تعارف ِاسلام کورس ، محترمہ کبریٰ بیگم کا خطاب

حیدرآباد۔ 18 مئی (پریس نوٹ) نماز دین کا ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا : نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، تکلیف، دکھ اور رنج کے وقت مومنوں کیلئے یہی سب سے بڑا سہارا ہے۔ نبی کریمؐ نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: مومنو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ان خیالات کا اظہار محترمہ کبریٰ بیگم نے کرپا کامپلیکس، ملکاجگری میں مسلم گرلز اسوسی ایشن کی جانب سے جاری تعارف اسلام میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ نماز ایک مکمل عبادت ہے جو بدنی، قولی اور قلبی عبادت کا حسین امتزاج ہے۔ ایسی نماز جو سنت کے مطابق ادا کی گئی ہو، اس سے تمام کبیرہ اور صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اسی نہر میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہے تو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہے گا؟ صحابہ کرامؓ نے کہا: ’’جی نہیں! آپؐ نے فرمایا یہی حال پانچ نمازوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کے بدلے گناہ مٹا دیتا ہے۔ نماز گناہوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو ہجرت سے ایک سال قبل معراج پر بلاکرامت محمدیہ کیلئے 50 نمازوں کا تحفہ عطا کیا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نبی کریمؐ کو مشورہ دے کر اس میں کمی کروائی اور اس طرح پانچ نمازوں کو اُمت محمدیہ پر فرض کیا گیا لیکن اجر پچاس نمازوں کے برابر قرار دیا۔ نماز ہر بالغ مسلمانوں پر فرض عین ہے۔ چاہے حالت امن ہو یا خوف، گرمی ہو یا سردی، تندرستی ہو یا بیماری حتی کہ جہاد و قتال کے موقع پر بھی عین میدان جنگ کے وقت بھی اس کو موقوف یا ساقط نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نماز میں صرف زبان ہی اللہ رب العزت سے ہم کلام نہیں ہوتی بلکہ دل بھی اس کی بارگاہ میں تعظیم و محبت، خوف و خشیت اور امید و انابت کے آداب بجالاتا ہے۔

اسی لئے عقیدہ کے پہلو سے توحید پورے دین کا سرچشمہ ہے تو عمل کے پہلو سے نماز دین کی عملی بنیاد ہے۔ اس کا قیام دین کا قیام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں نماز کے معنی اللہ سے قریب سے قریب تر ہونے کے ہیں۔ نماز ایمان و کفر کے درمیان امتیاز کرنے والی علامت ہے اور بے حیائی و برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ ہے۔ نماز مومن کی پہچان ہے اور معراج بھی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ہمارے اور کافروں کے درمیان حد فاصل نماز ہے۔ یہی وجہ ہے تھی کہ کفر کی جانب منسوب ہونے کے ڈر سے منافقین بھی مسجد نبویؐ میں آکر نماز ادا کرتے تھے۔ نماز میں غفلت، کاہلی اور سستی سے کام لینے کو اللہ تعالیٰ نے منافقین کی نشانی قرار دیا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب منافقین نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کاہلی سے محض لوگوں کو دکھانے کے لئے اٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیامت کے دن حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا جس نے نماز درست طریقہ سے پڑھی وہ کامیاب و کامران ہوگا اور جس نے نماز بگاڑ کر پڑھی وہ ناکام و نامراد ہوگا۔ نماز نہ پڑھنے والوں کیلئے قرآن کریم میں جگہ جگہ وعیدیں نازل کی گئی ہیں کہ ان پر ہولناک عذاب طاری کیا جائے گا۔ بے نمازی کا انجام قارون، فرعون، ہامان اور ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ نبی کریمؐ کو اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں بھی نماز ہی کی زیادہ فکر تھی۔ وفات کے چند لمحے پہلے بھی آپؐ نے امت کو جو آخری وصیت کی وہ یہی تھی’’ مسلمانو! نماز اور اپنے غلاموں کا ہمیشہ خیال رکھنا، اس طرح نماز کی جتنی اہمیت ہے، اسی طرح اس کو ادا کرنے کی بھی اہمیت ہے۔ نبی کریم کا فرمان ہے۔ نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ والدین خود بھی نماز کو شوق و ذوق سے پڑھیں، نمازوں کی پابندی کریں ، خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں اور نماز کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں کو نماز کا عادی بنائیں۔ اس کے علاوہ ہر باشعور مسلمان مرد و خواتین اور لڑکے و لڑکیوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی نمازوں کی پابندی کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ قرب الٰہی کیلئیفرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اس کے علاوہ دونوں شہروں کے مختلف مقامات کے سنٹرس میں محترمہ راشدہ خاتون، محترمہ بشریٰ ندیم، محترمہ روحی خاں، محترمہ خیرالنساء بیگم، محترمہ شمیم بیگم، محترمہ سائرہ بیگم، محترمہ شاہین بیگم، محترمہ فاطمہ بیگم، محترمہ عائشہ تبسم و دیگر کارکنان نے مخاطب کیا۔ مزید تفصیلات کیلئے فون نمبر 66632673 پر ربط کریں۔