نمازتراویح میں قرآن مجیدکی تلاوت

موجودہ حالات ومشاہدات کی روشنی میں ایک جائزہ

رمضان المبارک نزول قرآن حکیم کامہینہ ہے،اس مناسبت سے بطورشکرانہ پورے ماہ کے روزہ رکھے جاتے ہیں اور نمازتراویح میں کم سے کم مکمل ایک قرآن مجیدسناجاتا ہے جوسنت ہے۔پہلے صرف مساجدمیں نمازتراویح کا اہتمام ہواکرتاتھا اوراب مساجدکے علاوہ شادی خانوں اورشخصی رہائش گاہوں میں بھی اس کا انتظام ہونے لگاہے،پہلے بکثرت مساجدمیں پورے ماہ صیام میں ایک قرآن پاک نمازتراویح میں سنایا اورسناجاتاتھا۔کچھ عرصہ بعدہرعشرہ میں ایک قرآن مجیدپڑھا جانے لگا یہ سلسلہ آگے بڑھا توپھرپانچ شبی،سہ شبی شبینوں کا سلسلہ چل پڑا،پھرایک شبی شبینہ کا بھی رواج قائم ہوگیااوراب بعض حفاظ کی طرف سے نمازتراویح کی صرف پہلی رکعت میں روزانہ ایک قرآن مجیدکی تلاوت اورباقی رکعتوں میں چھوٹی سورتوں یا مختصرقرأت کے ساتھ تراویح کی تکمیل کے اعلانات ہونے لگے ہیں ۔ظاہرہے اس طرح کے اعلانات کو تفاخرہی پرمحمول کیا جاسکتاہے ورنہ اس طرح کے اعلان کی کیا ضرورت ،بالفرض نمازتراویح کی ایک رکعت میںروزانہ ایک قرآن مجیدکی تلاوت مقصودہو تواولاً اس کے جوازکی کیا شرائط ہوسکتی ہیں اس پرغوروخوض ہوناچاہئے،ثانیاً بجائے ایک رکعت میں پورا قرآن مجیدپڑھنے کے اس کوبیس رکعتوں میں تقسیم کرکے بھی پڑھاجاسکتاہے۔ پھرایک ہی رکعت میں پوری قرآن مجیدکی تلاوت’’ چہ معنی دارد‘‘۔حضورانورسیدعالم ﷺجیسی عظیم ہستی جوخالق کے بھی محبوب اورخلائق کے بھی محبوب ہیں،جن پرقرآن مجیدنازل ہوا کیا آپﷺنے ایک ہی رکعت میں حیات مبارکہ میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ہوکبھی تلاوت کی ہے؟ آیا حضرات خلفاء راشدین وصحابہ کرام یا تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کسی نے نمازتراویح کی ایک رکعت میں مکمل قرآن مجیدکی تلاوت کی ہو؟ یا ایسی کوئی فضیلت احادیث پاک میں واردہوئی ہے ؟ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے سامنے نہیک بن سنان اپنی رات کی نماز(تہجد)کا ذکرکرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے آج رات صرف ایک رکعت میں مفصلات یعنی سورہ ’’ق‘‘تا’’سورۃ الناس‘‘کی تلاوت کی ہے،یہ سن کرآپ نے ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے فرمایا پڑھنے میں اتنی جلدی کی ہوگی جیسے اشعارگنگنائے جاتے ہیں؟(بخاری:۷۷۵)انفرادی نمازہواورچارپاروں سے زائد ایک رکعت میں تلاوت کئے جائیں جس میں آداب قرأت کی رعایت نہ رکھی جائے توجب اس کا جوازنہیں ہے،توپھر نمازتراویح کی جماعت میں اس کی رعایت نہ رکھی جائے اس کے جوازکی کیا صورت ہوسکتی ہے؟یہی بات ایک شبی شبینہ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔الغرض پورے ماہ صیام میں نمازتراویح میں ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے بشرطیکہ تلاوت قرآن وارکان نمازسے متعلق شرعی سارے احکام وآداب کی رعایت رکھی جائے ۔ قرأت کا مستحب طریقہ یہ بتایا گیاہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیات تلاوت کی جائیں(ہندیہ:فصل فی التراویح: ۱؍۱۱۸) شرعی احکام وآداب کی رعایت رکھتے ہوئے رغبت وشوق سے تراویح میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید سننے کے لئے تیارہوں توپورے ماہ میں دوقرآن یا تین قرآن سننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ،خشوع وخضوع ودیگرنمازوقرأت کے آداب واحکام کی رعایت کے ساتھ پانچ شبی سہ شبی شبینہ کے اہتمام میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا افضل (ہندیہ:فصل فی التراویح)لیکن چونکہ اکثرحفاظ شرعی احکام وآداب کی رعایت نہیں رکھتے اس لئے علماء اس پرنکیرکرتے ہیں۔قرآن مجیدکی تلاوت اوراس کی سماعت خواہ نمازمیں ہوکہ بیرون نمازتقرب الی اللہ کا باعث ہے،جہاں قرآن مجیدکی تلاوت ہوتی ہے وہاں اللہ سبحانہ کی بے حدوحساب رحمتیں نازل ہوتی ہیں،ملائکۃ الرحمن ایسی مجالس میں حاضررہتے ہیں ،اللہ سبحانہ ایسے سارے حال وماحول پرسکینت نازل فرماتے ہیں(مسلم:۴۹۹۶) لیکن شرط یہ ہے کہ قرآن مجیدکی تلاوت وسماعت پورے آداب واحکام اور کوملحوظ رکھتے ہوئے سکون واطمینان کے ساتھ کی جائے۔تلاوت کرنے والے اور سامعین ہردوذوق وشوق ،رغبت وتوجہ کے ساتھ اس کا اہتمام کریں،عبادات میں اخلاص شرط ہے ،ریا،دکھاوا یا فخرومباہات مدنظر ہوتومحنت اکارت اجروثواب سے محرومی کا خطرہ ہے،نصوص قطعیہ اس پرواردہیں (شامی،کتاب الحضروالاباحہ)۔عام مشاہدہ یہ ہے کہ سہ شبی شبینہ،یک شبی شبینہ کا جہاں نظم ہووہاں سامعین پیچھے بیٹھے محوگفتگورہتے ہیں،منتظمین کہیں چائے وغیرہ اورکہیں کھانابنانے کے انتظام میں مشغول رہتے ہیں،کچھ اصحاب پیچھے بیٹھے انتظارمیں رہتے ہیں کہ کب امام صاحب رکوع کریں اورہم اس میں شامل ہوجائیں، یکرہ للمقتدی ان یقعد فی التراویح ،فاذا اراد الامام ان یرکع یقوم ،لان فیہ اظہارالتکاسل فی الصلام والتشبہ بالمنافقین(ردالمحتار:۲؍۴۹۹)،ظاہرہے یہ سارے احوال سستی وکاہلی ،بے رغبتی وعدم شوق کا مظہرہیں ، اس طرح کے اظہارتکاسل میں منافقین سے مشابہت ہے،ارشادباری ہے’’پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کیلئے جواپنے نمازسے غافل ہے اورجودکھاواکرتے ہیں‘‘(الماعون:۴۔۶) ’’منافقین جب نمازکیلئے کھڑے ہوتے ہیں توکاہلی وسستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اوران کا نمازکیلئے قیام کرنا لوگوں کودکھانے کیلئے ہوتاہے‘‘(النساء:۱۴۲)ظاہرہے جواخلاص نیت سے محرومی کی علامت ہے،اس مشابہت سے بھی اپنے آپ کوبچاناچاہئے۔یہودونصاری،کفارومشرکین کے اعمال وافکارمیں مشابہت ہی کی طرح منافقین کی عادات واطوارسے مشابہت اختیارکرنے پرسخت وعیدواردہے۔یہ احوال تومقتدیوں کے ہیں ،ایسی نمازتراویح کہ اکثرائمہ کرام سنن ومستحبات کی رعایت تودوررہی نمازکے فرائض وواجبات کا لحاظ بھی نہیں رکھ پاتے ،پھرنمازتراویح کا مقصودقرآن مجید کا صحت سے سنانا اورسننا ہے،اکثرحفاظ کرام اتنی تیزرفتاری سے تلاوت کرتے ہیں کہ الفاظ قرآن صحیح طورپرادانہیں ہوتے۔قرآن مجید کی تلاوت ،اس کے جملہ حقوق وآداب کی رعایت رکھتے ہوئے ہو،مخارج حروف ،اس کے صفات اورتلاوت کے ضروری قواعدملحوظ خاطررہیں،ہررکعت میں قرآن مجیدکا جوحصہ تلاوت کیاجائے اس میں تصحیح وترتیل کا ضرورخیال رکھاجائے،ارشادباری ہے’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘اورخوب ٹھہرٹھہرکرقرآن کریم کی تلاوت کیجئے،ترتیل کے لغوی معنی کسی شیٔ کو حسن وخوبصورتی سے منظم ومرتب کرنے کے ہیں ،اصطلاحی معنی یہ ہوں گے کہ آہستہ آہستہ سوچ سمجھ کرتلاوت کی جائے کہ تلاوت میں ہرگزتیزرفتاری ،عجلت وتعجیل نہ ہو۔ تلاوت میں ترتیل وتسہیل ہواورآیات کے معانی ومفاہیم میں غوروتدبربھی ہو(قرطبی:۲۱؍۳۲۲) شارحین نے اس سے یہ مسئلہ اخذکیا ہے کہ صرف قرآن کی تلاوت نہیں بلکہ تلاوت ترتیل کے ساتھ مطلوب ہے جس میں ہرہرکلمہ کے ادائیگی صحت اداوصحت تلفظ کے ساتھ ہو۔ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نمازمیں آپ ﷺ کی تلاوت وترتیل سے متعلق دریافت کیا،توانہوں نے تلاوت کی نقل کرکے بتایا جس میں ایک ایک حرف واضح تھا(ترمذی:۲۹۲۳)ترتیل میں حسن صوت بھی پسندیدہ ہے یعنی تلاوت میں صحت اداکے ساتھ طبعی خوش آوازی وخوش الحانی ملحوظ رہے، جس میں تصنع ،تکلف اوربناوٹ نہ ہو،حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کوحسن صوت کے ساتھ تلاوت کرتے دیکھا تویہ آیت تلاوت فرمائی اورفرمایا’’فداہ ابی وامی‘‘میرے ماں باپ اس پرقربان ہوںکہ اس نے ترتیل کے ساتھ تلاوت کی ہے(قرطبی:۲۱؍۳۲۳)چونکہ خاص طورپر نمازتراویح میں جبکہ سہ شبی، پنچ شبی یا ایک شبی شبینہ ہوتواکثرائمہ تراویح (حفاظ کرام)سے قرأت قرآن کے آداب کی رعایت اور نمازکے ارکان میں تعدیل کی تعمیل نہیں ہو پاتی ،

تعوذوتسمیہ ،رکوع وسجودکی تسبیحات وغیرہ بھی اکثرترک ہوجاتے ہیں جوباعث کراہت ہے (ہندیہ:۱؍۱۱۵) صاحب بہارشریعت لکھتے ہیں’’افسوس صدافسوس!اس زمانہ میں حفاظ کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے،اکثرتوایسا پڑھتے ہیں ’’یعلمون،تعلمون‘‘کے سواکچھ پتہ نہیں چلتا،الفاظ وحروف کھاجایا کرتے ہیں،جواچھاپڑھنے والے کہے جاتے ہیں انہیں دیکھئے کہ حروف صحیح ادانہیں کرتے‘‘(تراویح کا بیان:۴؍۳۲)یہ اوراس طرح کے مفاسدہیں جو اس کے جوازپرسوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ماہرین فن تجویدنے تلاوت قرآن کے چار مدارج بیان کئے ہیں(۱)ترتیل(۲)تحقیق(۳)حدر(۴)تدویر۔ترتیل کے معنی ہیں تلاوت کرتے ہوئے مخارج وصفات کی رعایت رکھی جائے ،خوش الحانی کوبھی پیش نظررکھا جائے،ٹھہرٹھہرکرعمدہ اندازمیں قرأت کی جائے کہ تلاوت کرنے والا اورسننے والے قرآن مجیدکے الفاظ ومعانی میں غوروتدبرکرسکیں اور مطالب ومفاہیم ان پرکھل سکیں،فرض نمازوں میں اس طرح کی تلاوت پسندیدہ ہے،پورے اطمینان وسکون کے ساتھ قرآن شریف کے الفاظ کی صحت ادا اوراس کے ضروری قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے خوش الحانی سے ایسی تلاوت کی جائے جس میں ترتیل سے زیادہ ٹھہراؤواطمینان ہواس کوتحقیق کہتے ہیں، قرأت قرآن شریف کی مجالس ومحافل میں تلاوت کا موقع ہوتواس طرح کی تلاوت مستحسن ہے۔تراویح کی نمازمیں ان دونوں طرح کے اہتمامات سے تاخیر کاقوی اندیشہ ہے موجودہ زمانہ میں جومصلیوں پرگراں ہے اس لئے قواعدتجویدکی رعایت رکھتے ہوئے عمدہ اندازمیں قدرے رواں تلاوت کی جاسکتی ہے اس کوحدرکہتے ہیں ۔نیزترتیل وحدرکی درمیانی کیفیت کے ساتھ بھی تلاوت کی جاسکتی ہے اس کوتدویرکہتے ہیں،یہ سارے طریقے درست وصحیح ہیں البتہ ترتیل ہرحال میں افضل ہے۔لیکن تلاوت ایسی کی جائے کہ الفاظ ہی سمجھ میں نہ آئیں یا حروف ایسے اداہوں کہ معانی ومفاہیم تبدیل ہوجائیں اس سے نمازکے فاسدہونے کا اندیشہ ہے (ہندیہ:۱؍۷۹) موجودہ حالات ومشاہدات کی روشنی میں نمازتراویح کا ایک سرسری جائزہ سپردقلم کیا گیاہے،اس پرسنجیدہ غوروخوض کیا جاکراصلاحی اقدامات کئے جانے چاہئے تاکہ قرآن مجیدکی تلاوت وسماعت سے اجروثواب حاصل ہو۔