ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے
میر عثمان علی خاں آصف سابع کی علم و ادب سے گہری دلچسپی نے انہیں علمی و ادبی کتابوں کا قدر دان بنا دیا تھا۔ انہوں نے بیش قیمت و نادر مخطوطات کے بہتر تحفظ کے لئے کئی بار فرامین جاری کئے تھے۔ وہ کسی مصنف کی کتاب پر حوصلہ افزائی کے لئے مالی مدد دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی، علمی، ادبی اور تحقیقی تصانیف کی تیاری، تکمیل اور اشاعت کے پراجکٹوں کے لئے منصوبہ بند انداز میں بڑی فیاضی کے ساتھ رقومات منظور کیا کرتے تھے۔ اس پالیسی پر عمل آوری کی وجہ سے تصانیف کی تیاری، تکمیل اور اشاعت کے کام باقاعدگی کے ساتھ انجام پاتے تھے۔ انہوں نے عالموں اور ادیبوں کے نام اہم علمی و ادبی خدمات پر علمی وظیفے جاری کرنے کے احکام دیا کرتے تھے۔ کتابوں کی قدردانی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ آصف سابع ممتاز عالموں اور ادیبوں کو کتابیں تصنیف کرنے کے لئے تاحیات وظیفہ تصنیفی مقرر کیا کرتے تھے۔ اس مضمون میں جن تین مشاہیر علم و ادب کے لئے تاحیات وظیفہ تصنیفی منظور ہوا تھا، اس بارے میں آرکائیوز کے ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد پیش کیا جارہا ہے۔
اُردو کی مایہ ناز اور تاریخی شخصیت علامہ شبلی نعمانی ریاست حیدرآباد سے طویل عرصہ تک کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ رہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے تصنیف ’’حیات شبلی‘‘ میں شبلی اور حیدرآباد کے بارے میں اہم معلومات تفصیلی طور پر فراہم کی ہیں۔ اس کے علاوہ چند ایسے مضامین بھی قلم بند کئے گئے ہیں، جن سے حیات شبلی کے ان گوشوں پر مزید روشنی پڑتی ہے جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ سلیمان ندوی کی تصنیف ’’حیات شبلی‘‘ اور متذکرہ بالا مضامین میں شبلی کی حیدرآباد میں آمد، یہاں ان کے اعزاز میں منعقدہ جلسوں اور ان میں انہوں نے جو تقریریں کی تھیں، ان کی تفصیلی روداد ملتی ہے۔ حیدرآباد کے علمی و ادبی ماحول اور پس منظر کا بھی تذکرہ ملتا ہے اور شبلی نعمانی کی حیدرآباد میں آمد نے یہاں کی علمی اور ادبی فضاء پر جو خوشگوار اثرات چھوڑے تھے، ان کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کے عالموں، شاعروں اور اعلیٰ عہدیداروں سے شبلی کے تعلقات اور حیدرآباد کی درس گاہ دارالعلوم کے جامع نصاب کی ترتیب اور تیاری کے لئے شبلی نعمانی کی خدمات کا تفصیلی بیان بھی ملتا ہے۔ سلیمان ندوی کی کتاب ’’حیات شبلی‘‘ اور متذکرہ بالا مضامین میں حیدرآباد سے شبلی نعمانی کے نام جاری کردہ وظیفہ تصنیفی، بعدازاں اس میں اضافہ اور حیدراباد کے صیغہ ترجمہ علوم و فنون ملازمت کے بارے میں جو مواد دستیاب ہے، وہ نہ تو مربوط ہے اور نہ ہی پوری طرح درست۔
اس مضمون میں شبلی نعمانی کے نام جو وظیفہ تصنیفی جاری ہوا تھا اور جس میں بعدازاں اضافہ کیا گیا تھا، اس کے بارے میں آندھرا پردیش آرکائیوز کے ریکارڈ میں موجود متعلقہ حل سے اخذ کردہ مواد پیش کیا جارہا ہے۔
سید علی بلگرامی نے سروقار الامراء مدارالمہام کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی کہ مشہور عالم شبلی نعمانی پروفیسر علی گڑھ درس و تدریس ترک کرکے اپنا سارا وقت تالیف و تصنیف میں صرف کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کے نام وظیفہ تصنیفی مقرر فرمایا جائے۔ وہ جو کتابیں تصنیف کریں گے، وہ سرکار آصفیہ کے نام سے موسوم ہوں گی۔ اس پر وقار الامراء نے یہ احکام دیئے۔ فی الحال ’’سو روپئے کلدار جاری کئے جائیں، آئندہ ان کی تصنیفات دیکھنے کے بعد اضافہ کیا جائے گا، اس طرح ایک سو روپئے کلدار 4 ربیع الثانی 1314ھ م 13 ستمبر 1896ء سے شبلی نعمانی کے نام منظور ہوئے۔
شبلی نعمانی نے تقریباً 17 سال بعد وظیفے میں اضافے کے لئے میر عثمان علی خاں آصف سابع کے نام درخواست پیش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ مدت تک علی گڑھ میں پروفیسر رہے۔ ریاست حیدرآباد سے 1314ھ میں ایک سو روپئے کلدار وظیفہ اس شرط پر مقرر ہوا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر تمام وقت تصنیف و تالیف پر صرف کریں اور ان کی تمام تصنیفات سلسلہ آصفیہ کے نام موسوم کی جائیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ سید وظیفہ میں یہ درج ہے کہ تصانیف حال کے بعد وظیفے میں اضافہ کیا جائے گا۔ وہ اس وقت سے اب تک اس کام میں مصروف ہیں، اور ان کی بہت سی تصنیفات شائع ہوچکی ہیں جن کی ایک ایک جلد بارگاہ خسروی میں پیش کی جاتی ہے۔ تقرر وظیفہ کو 17 سال ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اضافے کے متعلق کوئی گزارش پیش نہیں کی تھی لیکن اب مختلف اسباب سے اس گزارش کے لئے مجبور ہیں۔ شبلی نعمانی نے جو اپنی سات تصانیف پیش کی تھیں، ان کی فہرست درخواست کے ساتھ منسلک کی گئی تھی۔
شبلی نعمانی کی درخواست پر میر یوسف علی خاں سالار جنگ سوم مدارالمہام (وزیراعظم) نے ایک عرضی داشت مورخہ 13 ذیقعدہ 1331ھ) 14 اکتوبر 1913ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ مولانا کی ذات بہ لحاظ علم و تحقیق ہندوستان میں منقسم ہے اور ان کا سارا وقت تالیف و تصنیف میں صرف ہوتا ہے۔ ان کو جو سند سرکار سے عنایت ہوئی تھی، اس میں اضافہ کا وعدہ درج ہے۔ اس لئے ماہوار حالیہ کے علاوہ دو ہزار روپئے کلدار یعنی تین سو روپئے کلدار انہیں تاحیات جاری کئے جائیں تو بعید از قدر دانی نہ ہوگا۔ سالار جنگ کی سفارش کو منظوری حاصل ہوئی اور اسی روز آصف سابع کا یہ فرمان جاری ہوا۔ ’’شمس العلماء شبلی نعمانی کو اطلاع دی جائے کہ ان کی تصانیف کے چند نسخے جو عرض داشت امروز کے ساتھ گزرانے گئے ہیں۔ ان کو میں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا ’’اور تمہاری رائے کے مطابق ان کی موجودہ ’’ماہوار میں جو ایک سو روپئے کلدار ہے اور دو سو روپئے کا اضافہ کرکے آئندہ تین سو کلدار ماہانہ تاحیات مقرر کیا جائے‘‘۔
شبلی نعمانی تین سو روپئے کلدار ماہوار وظیفے سے زیادہ مدت تک اشعار نہ کرسکے۔ وظیفے میں اضافہ 14 اکتوبر 1913ء کو منظور ہوا تھا اور علامہ 18 نومبر 1914ء کو اس جہان فانی سے رُخصت ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند حامد نعمانی کی تحریری نمائندگی پر تین سو روپئے کلدار شبلی نعمانی کے قائم کردہ ادارہ ’’دارالمصنفین‘‘ کے نام جاری کردیئے گئے۔
بلند پایہ عالم، صاحب طرز ادیب، ممتاز صحافی اور مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریا بادی کی ریاست حیدرآباد سے وابستگی بڑی طویل رہی۔ آصف سابع نے فرمان 25 شوال 1335ھ م 14 اگست 1917ء کے ذریعہ جامعہ عثمانیہ کا سر رشتہ تالیف و ترجمہ قائم کرنے کے احکام دیئے۔ اسی فرمان کے ذریعہ جن چھ مترجمین کے تقرر کی منظوری دی گئی تھی، ان میں عبدالماجد دریا بادی بھی شامل تھے۔ فلسفہ و منطق کی کتابوں کے مترجم کی حیثیت سے تین سو روپئے ماہوار پر تقرر ہوا تھا، لیکن وہ صرف گیارہ ماہ بعد ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔ دارالترجمہ سے مستعفی ہونے کے عبدالماجد دریابادی نے علمی وظیفے کے اجراء کی درخواست دی جس پر انہیں تاحیات وظیفہ جاری کیا گیا۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ میں محفوظ ایک مثل سے اس بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ان معلومات کے بموجب ان کی درخواست پر حبیب الرحمن شروانی نے یہ تجویز لکھی کہ انہیں تاحیات سوا سو روپئے وظیفہ جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس تجویز پر اظہر جنگ نے لکھا کہ یہ وظیفہ حسب ذیل شرائط کے ساتھ دیا جاسکتا ہے۔
(1) سال میں کم از کم کسی مضمون کی ایک کتاب لکھ کر اسے سلسلہ آصفیہ سے معنون کیا جائے۔
(2) اشاعت سے قبل کتاب کا کچا خاکہ دارالترجمہ کو روانہ کیا جائے تاکہ مذہبی نقطہ نظر سے تنقیح ہوسکے۔
(3) جب کتاب شائع ہوجائے تو اس کے دس نسخے گزرانے جائیں۔ اگر احیاناً عبدالماجد کو ایک مرتبہ چند روز کے لئے حیدرآباد طلب کرنا ضروری خیال کیا گیا تو اس کو ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔
اس کارروائی کے سلسلے میں عبدالماجد دریا بادی کو حیدرآباد طلب کیا گیا اور انہوں نے حبیب الرحمن نے شروانی کے سامنے متذکرہ بالا شرائط کے نیچے شرائط بالا مجھ کو منظور ہیں لکھ کر دستخط ثبت کئے۔ اس کارروائی کے تکمیل پانے کے بعد آصف سابع کا حسب ذیل فرمان مورخہ 27 شعبان 1337ھ م 12 مئی 1919ء جاری ہوا۔
’’عبدالماجد بی اے کے وظیفہ سے متعلق جو شرائط بذریعہ صدرالصدور طئے ہوئے ہیں۔ اس کی نقل اطلاعاً منسلک ہے۔ اس ماہ شعبان 1337ھ (مئی 1919ء) سے عبدالماجد کے نام ان ہی شرائط سے ایک سو پچیس روپئے کلدار کا وظیفہ تاحیات جاری کیا جائے۔ اس کی اطلاع عبدالماجد صاحب بی اے کو بذریعہ صدر الصدور دی جائے۔
ریاست حیدرآباد سے عالموں اور ادیبوں کو کتابیں تصنیف کرنے کے لئے تاحیات وظیفہ تصنیفی جاری کئے جانے کے علاوہ اُن کی تصانیف کی طباعت کے لئے بھی امداد جاری کی جاتی تھی۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی کتابوں کی طباعت کی خاطر مالی امداد منظور کرنے کے لئے درخواست روانہ کی تھی۔ اس درخواست پر صیغہ تعلیمات نے سفارشی عرض داشت پیش کی جس پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 27 شوال 1351ھ م 23 فروری 1932 کے ذریعہ مولانا عبدالماجد کو کتابوں کی طباعت کے اخراجات ایک ہزار تین سو روپئے کلدار، ایصال کرنے کے علاوہ آئندہ ان کی کتابوں کی چھپائی کے اخراجات بھی ادا کرنے کے احکام دیئے۔
ریاست حیدرآباد کی جانب سے کتابیں تصنیف کرنے کے لئے جو وظیفے جاری کئے گئے تھے، ان میں حالات اور گرانی کی مناسبت سے اضافہ کرنے کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ مولاناعبدالماجد نے وظیفے میں اضافہ کے لئے درخواست پیش کی۔ ان کی درخواست پر کونسل کی سفارش کے مطابق آصف سابع نے فرمان مورخہ 17 محرم 1366ھ م 10 ڈسمبر 1946ء کے ذریعہ مولانا عبدالماجد کے 125 روپئے کلدار میں 75 روپئے کلدار کے اضافے کی منظوری دی۔
ریاست حیدرآباد کی ہند یونین میں شمولیت کے بعد بھی مولانا عبدالماجد کا وظیفہ جاری رہا اور وہ آخر وقت تک یہ وظیفہ پاتے رہے۔ اس بارے میں وہ اپنی خود نوشت ’’آپ بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ستمبر 1948ء میں سلطنت آصفیہ کا قلع قمع ہوگیا اور لپیٹ میں میری پنشن بھی آگئی ۔ 1950 میں حکم آیا پنشن بند ! دہلی سے مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیمات نے میری حمایت میں بڑا زور لگایا اور بار بار اجراء پنشن کے لئے لکھا ، کامیابی نہ ہوئی ۔ آخیر میں دہلی جا کر پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا ، ان بیچارے نے بھی میری حمایت کی جب کہیں جا کر جون 51 ء میں پنشن دوبارہ کھلی ، مگر دو سو سے گھٹ کر سواسو پر آگئی ۔ دوچار سال بعد میں نے اسے یو پی اسٹیٹ میں منتقل کرالیا اور اب یہیں لکھنؤ کے خزانے سے ہر ماہ ملتی ہے‘‘ ۔
ریاست حیدرآباد میں جن مقامی شخصیتوں کی قدر افزائی کی گئی ان میں سے ایک شخصیت حکیم سید شمس اللہ قادری کی ہے جنھیں آصف سابع نے قابل قدر علمی خدمات کے صلے میں ایک بڑی رقم عطیے کے طورپر اور کتابیں تصنیف کرنے کے لئے تاحیات وظیفہ مقرر کیا تھا ۔اس کے علاوہ ان کی کتابوں کی طباعت کے لئے بھی رقمی امداد منظور کی تھی۔
شمس اللہ قادری محقق اور مورخ کی حیثیت سے بلند پایہ مقام رکھتے ہیں ۔ فارسی ، اردو زبان و ادب ، تاریخ ، آثار قدیمہ اور مسکوکات ان کے خاص موضوعات تھے ۔ ان موضوعات پر انھوں نے بکثرت مضامین لکھے اور مقالے تحریر کئے جن میں بیشتر کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ اردو زبان کے قدیم دور کو روشناس کرانے کے لئے انھوں نے جو خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں ۔ ان کے مقالے ’’اردوئے قدیم‘‘ کو تحقیق کا بلند کارنامہ مانا گیا ۔ وہ ایک سہ ماہی رسالہ ’’تاریخ‘‘ بھی نکالتے تھے۔ اس رسالے کے اکثر مضامین تاریخ پر ہوتے تھے ۔ اس رسالے میں ان کے مضامین کے علاوہ دیگر مصنفین کے مضامین بھی شائع کئے جاتے تھے ۔ ان کے وسیع مطالعے اور تحقیق کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا سلیمان ندوی ، مولانا عبدالحق اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی جیسی شخصیتیں ان سے مشورہ اور استفادہ کیا کرتی تھیں ۔
شمس اللہ قادری نے اپنی ادبی اور علمی خدمات کے صلے میں یکمشت مالی امداد اور کتابیں تصنیف کرنے کے لئے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام درخواست دی جس میں انھوں نے اپنی ادبی ، علمی و تحقیقی خدمات کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد دس ہزار روپے یکمشت اور چار ہزار روپے ماہانہ منظور کرنے کی استدعا کی ۔ اس درخواست پر سرنظامت جنگ صدر المہام سیاسیاست اور سراکبر حیدری صدر المہام فینانس کی سفارشات اور کونسل کی سفارشی قرارداد کو ایک یادداشت میں درج کرکے صدراعظم مہاراجا کشن پرشاد نے اسے آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا ۔ اس پر آصف سابع کا حسب ذیل مورخہ 23 مارچ 1930ء جاری ہوا ۔ ’’کونسل کی رائے منظور کی جاتی ہے ۔ حسب حکم حکیم شمس اللہ قادری کو پانچ ہزار روپے یکمشت اور بطور جملہ تصانیف یکم آڈر 1339 ف سے دیڑھ سو ماہوار ان کے نام تاحیات اس شرط سے جاری کی جائے کہ ان کے علمی کارناموں کی نگرانی جامعہ عثمانیہ کی جانب سے کی جائے گی اور آئندہ ان کی تصانیف کی اشاعت کے موقع پر منجانب گورنمنٹ امداد دینے کی نسبت لحاظ کیا جائے گا ۔
متذکرہ بالا فرمان کی تعمیل میں شمس اللہ قادری کو پانچ ہزار روپے یکمشت اور کتابوں کی تصنیف کے لئے دیڑھ سو روپے ماہوار وظیفہ جاری کردیا گیا ۔ چونکہ فرمان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کی تصانیف کی اشاعت کے موقع پر امداد دینے کی نسبت حکومت کی جانب سے لحاظ کیا جائے گا اس لئے شمس اللہ قادری نے ایک درخواست پیش کی کہ انھوں نے چار کتابیں تذکرۂ مصنفین دہلی ، نظام التواریخ ، تحفتہ المجاہدین اور مورخین ہند اپنے ذاتی مصارف سے شائع کی ہیں جن پر ان کے آٹھ سو روپے صرف ہوئے ہیں ۔ اس لئے ان کی استدعا ہے کہ ان کتابوں کی طباعت کے مصارف انھیں دئے جائیں ۔ اس درخواست پر متعلقہ عہدہ داروں اور کونسل کی سفارت پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 25 محرم 1352 م 21 مئی 1933 ء کے ذریعے کتابوں کی طباعت کے مصارف آٹھ سو روپے ادا کرنے کی منظوری دی ۔
چند سال بعد شمس اللہ قادری نے ایک اور درخواست پیش کی جس میں انھوں نے لکھا کہ ان کی عمر 61 سال ہوچکی ہے اور اب وہ کسی اور تصنیف کے لئے مواد اکٹھا کرنے ، اس کو ترتیب دینے اور کتاب کی صورت میں مدون کرنے کی محنت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں چونکہ ان کے نام وظیفہ تاحیات جاری ہوا ہے جسے مجبوری اور معذوری کی حالت میں تادم آخر جاری رہنا چاہئے ۔ بوجہ پیرانہ سالی کام کرنے سے مجبور قرار دے کر جامعہ عثمانیہ کی نگرانی برخاست کی جائے ۔ وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ نے اس درخواست پر رائے دی کہ انھوں نے اب تک جو کچھ بھی کام کیاہے اس کے صلے میں ان کی پیرانہ سالی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو غیر مشروط وظیفہ تاحیات دیا جائے تو مناسب ہوگا ۔ اگزیکیٹو کونسل نے وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ کی رائے سے اتفاق کیا ۔ اس بارے میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 13 جون 1946 ء جاری ہوا تھا اس کا متن درج ذیل ہے ۔
’’کونسل کی رائے کے مطابق سید شمس اللہ قادری کی پیرانہ سالی کے مدنظر ان کی ماہوار پر شرط تالیف و تصنیف جو قائم ہے وہ برخاست کردی جائے‘‘ ۔