کے این واصف
نقل مکانی کا عمل انسانی تاریخ جتنا ہی پراناہے ، نقل مکانی صرف نسلِ انسانی ہی نہیں چرند ، پرند بھی کرتے ہیں۔ نقل مکانی کا سبب ہمیشہ تلاشِ رزق ہی رہا ہے۔ وقت کے بدلتے نقل مکانی کے طریقے بدلے ہیں مگر اس کا مقصد ابتداء سے آج تک تقریباً وہی ہے لیکن آج کی نقل مکانی اور گزرے وقتوں کی نقل مکانی میں فرق یہ ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ بڑے گروپس کی شکل میں نقل مکانی کیا کرتے تھے۔ سینکڑوں افراد پر مشتمل گروپ جب نقل مکانی کرتا تھا تو اس گروپ میں عورت مرد ، بچے بڑے ، بوڑھے جوان سب شامل رہتے تھے اور ان کیساتھ ان کے پالتو جانور تک بھی ان کے ساتھ سفر کرتے ۔ کسی آبادی میں آفات سماوی کی وجہ سے اگرانسان کا گزارا مشکل ہوجائے ، جنگ و جدل کی وجہ سے علاقے میں رہنا دشوار ہوجائے تو لوگ نقل مکانی کا قصد کرتے اور بستیوں کی بستیاں دور دراز کے کسی اور مناسب اور محفوظ جگہ آباد ہوجاتے ۔ انسان کی زندگی میں اس کی زبان ، تہذیب ، رسم و رواج ، سماجی بندھن اور سب سے بڑھ کر خاندان اور رشتے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سینکڑوں افراد کا گروپ جب ا یک جگہ سے دوسرے جگہ جا بستا تھا تو انہیں نئی جگہ پر اپنے عادات و اطوار ، اپنی زبان ، اپنی تہذیب ، رسم و رواج عزیز و اقارب وغیرہ سے دوری یا انہیں کھونے کا احساس نہیں ستاتا تھا لیکن یہ احساس انفرادی یا ایک چھوٹی فیملی کے نقل مکانی کرنے سے انہیں یہ احساس بہت زیادہ ستاتا ہے۔
پرانے زمانے کی اجتماعی نقل مکانی کا دور ختم ہوا ۔ انسان نے زمینوں پر لکیریں کھینچ لیں۔ سرحدیں قائم ہوگئیں ۔ ملک بنے ، حکومتیں قائم ہوگئیں ۔ مگر انسان کے نقل مکانی کا سلسلہ نہیں رکا لیکن اب لوگ پہلے کی طرح بڑے گروپس میں نقل مکانی نہیں کرتے بلکہ لوگ حسب ضرورت اور انفرادی حیثیت میں حاصل موقع ہونے کی بناء پر نقل مکانی کرنے لگے ۔ جب 70 کی دہائی میں خلیجی ممالک میں ر وزگار کے دروازے کھلے تو یہاں بھی دنیا کے غریب ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ جتھوں کی شکل میں خلیج کے ان ممالک میں آ بسے ۔ کچھ ممالک سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں روزگار سے لگے ۔ خلیج کے ان عرب ممالک میں غیر عرب اور عرب ممالک سے لوگ آئے اور مختلف ممالک کے لوگ ایک بڑے اداروں اور کمپنیوں میں کام کرنے لگے ۔ جن کی زبانیں الگ ، تہذیبیں مختلف ، عادات واطوار جداگانہ لیکن ملازمت ایک جگہ تو ان کے بیچ ایک نیا کلچر پروان چڑھا۔ یہاں عربی کے بعد سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہے ۔ یہاں پر زبان کے بولنے والوں نے اچھی یا ٹوٹی پھوٹی عربی زبان ضرور سیکھی۔
خلیجی ممالک میں بسلسلہ روزگار آ بسنا ’’نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں‘‘ والا معاملہ ہے ۔ ان پچاس سالوں میں دنیا جہاں کے افراد نے ’’ٹیکس فری‘‘ پیسہ کمایا اور کروڑوں افراد آسودہ حال ہوئے ۔ اس کی وجہ ٹیکس فری آمدنی تھی ۔ مگر ٹیکس فری آمدنی کا یہ سلسلہ کوئی دو سال قبل ختم ہوا ۔ خلیج کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب نے مملکت میں مختلف قسم کے ٹیکس یا فیس عائد کردیں جس سے پریشان ہوکر لاکھوں لوگوں نے مملکت کو خیر باد کہہ دیا جس کی وجہ سے مملکت کے بازاروں کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ سڑکیں ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ خیر حالات کہیں بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ دنیا کا دستور ہے ۔ لہذا سعودی عرب میں بھی حالات نے کروٹ بدلی ۔ اب یہاں کے خارجی باشندے یا کوئی اور اب نہ حالات بدل سکتا ہے نہ وہ پچھلے دن واپس آسکتے ہیں۔ لہذا ہم خارجی باشندوں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ ہم حالات سے سمجھوتہ کریں اور نئی منزل کی تلاش کریں ۔ ویسے بھی ہجرت میں خیر ہے، یہ ہمارا یقین بھی ہے۔
خارجی باشندوں کی اکثریت نے صرف اپنے اہل و عیال کو وطن بھیج دیا ہے اور اب وہ یہاں تنہا رہ کر اپنی ملازمت جاری رکھیں گے ۔ جب تک ملازمت چلی چلائیں اور اسی دوران اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور یا کسی دوسرے ملک کو کوچ کریں یا وطن میں قدم جمانے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہاں برسوں گزارے بغیر کسی منصوبہ بندی کے ۔ شاید ان کے ذہن میں یہ کبھی نہیں آیا کہ انہیں یہاں سے ایک دن جانا پرے گا اور جائیں گے تو آگے کیا کریں گے ۔ بہرحال اب حالات کچھ بھی ہو جینا تو ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی ہے۔ لہذا اب اپنے وسائل کے مطابق اپنے مستقبل کا منصوبہ تیار کریں اور بوکھلاہٹ یا پریشانی کا شکار ہوئے بغیر حالات کا سامنا کریں۔
عثمانیہ الومنائی کی تنظیم جدید
عثمانیہ یونیورسٹی الومنائی اسوسی ایشن ریاض کی تنظیم جدید عمل میں آئی ۔ نئی کمیٹی نے ایک پروقار تقریب میں اپنی ذمہ داری کا جائزہ حاصل کیا ۔ اس تقریب میں ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی ، فرسٹ سکریٹری سفارت خانہ ہند ریاض نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ نو منتخب کمیٹی اس طرح ہے ۔ انجنیئر محمد مبین صدر، محمد شہباز فاروقی اور وینو مادھو نائب صدر ، تقی الدین میر جنرل سکریٹری ، سید عتیق اور سہیل صدیقی جوائنٹ سکریٹری ، محمد کلیم خازن ، اسلم خاں آئی ٹی انچارج ، اراکین عاملہ میں سلطان مظہرالدین ، ڈاکٹر مجیب خاں اور رضوان پاشاہ شامل ہیں۔
تقریب کا آغاز نوجوان حافظ و قاری عبدالواسع جاوید کی قراء ت کلام پاک سے ہوا ۔ شہباز فاروقی کے تعارفی کلمات کے سابق صدر محمد قیصر نے محفل کو مخاطب کیا ۔ انہوں نے اپنی میعاد کی کارکردگی پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نو منتخب کمیٹی مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور اسوسی ایشن کے اب تک کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھے گی۔ قیصر نے کہاکہ ہماری تنظیم خصوصی طور پر تعلیم کے محاذ پر کام کرتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ عرصہ میں جب ہندوستان کی وزیر خارجہ مسز سشما سوراج ریاض آئیں تھیں تو اسوسی ایشن کے وفد نے ان سے ایک خصوصی ملاقات کر کے خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانی بچوںکی تعلیم سے جڑے مسائل کی نمائندگی کی تھی ۔ مسز سوراج نے وفد کو ان مسائل کے حل کا تیقن دیا تھا ۔ محمد قیصر نے اپنے خطاب میں یہ تجویز بھی رکھی کہ یہاں ہندوستان کے مختلف جامعات کے طلبائے قدیم کی انجمنیں قائم ہیں، کیوں نہ ان تنظیموں کا ایک فیڈریشن قائم کیا جا ئے تاکہ قومی سطح پر اجتماعی نمائندگی کے ذریعہ ہمارے بچوں کے تعلیمی مسائل حل کئے جاسکیں۔ اسوسی ایشن کے مشیر انجنیئر عبدالحمید نے کہا کہ قوموں کا عروج و زوال تعلیم سے ہے ۔ ہمیں اپنی قوم میں تعلیمی ترقی پر سب سے زیادہ زور دینا چاہئے ۔ حمید نے بتایا کہ اسوسی ایشن مستحق طلباء کے تعلیمی اخراجات بھی اسپانسر کرتی ہے ۔ انہوں نے نئی کمیٹی کے اراکین کا تعارف بھی پیش کیا ۔ نو منتخب صدر انجنیئر محمد مبین نے کہا کہ اسوسی ایشن پچھلے دو سال میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہم اس سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے اپنی ساری توانائیاں بروئے کار لائیں گے ۔ مبین نے یہ بھی کہا کہ ہم دیگر یونیورسٹیز کی انجمنوں سے رابطے بڑھائیں گے اور باہمی تعاون سے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستانی سفارت خانے کی موجودگی کا مقصد کمیونٹی کے مسائل حل کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا بھی ہے لیکن ایمبسی کا اسٹاف اور اس کے وسائل محدود ہوتے ہیں اس لئے ہم ہمیشہ سماجی تنظیموں سے تعاون و مدد حاصل کرتے ہیں اور جب کبھی ایمبسی کو مدد کی ضرورت پڑی سماجی تنظیموں اور سماجی کارکنان نے ایمبسی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جس میں عثمانیہ الومنائی اسوسی ایشن ریاض ایک اہم نام ہے ۔ انہوں نے نو منتخب کمیٹی کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین دلایا اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ اس تقریب کا آخری حصہ ’’محفل لطیفہ گوئی ‘‘ تھا جس سے حاضرین بے حد محظوظ ہوئے ۔ کے این واصف نے اس محفل کی نظامت کی ۔ ڈاکٹر عزیز غازی ، محمد قیصر ، کے این واصف ، تقی الدین میر ، محمد ضغیم خاں ، سید وقارالدین ، محمد غضنفر علی خاں وغیرہ نے لطیفے پیش کر کے محفل کو زعفران زار کیا ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمن کے ہاتھوں سابقہ کمیٹی کے اراکین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں تہنیتی سپاس نامے پیش کئے گئے ۔ حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے ماہنامہ شگوفہ نے عثمانیہ الومنائی اسوسی ایشن کے سرپرست آرکیٹکٹ عبدالرحمن سلیم کی خدمات کے اعتراف میں ایک خصوصی شمارہ شائع کیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر حفظ الرحمن نے اس خصوصی شمارے کی رسم اجراء بھی انجام دی۔
جمعرات کی شب منعقدہ اس محفل میں ریاض کی تمام سماجی تنظیموں کے نمائندوں، ریاض میں موجود عثمانین کی ایک بڑی تعادد نے شرکت کی ۔ ایک مقامی ریسٹورینٹ میں منعقدہ اس تقریب کی نظامت محمد شہباز فاروقی اور تقی الدین میر نے انجام دی ۔ سید عتیق کے ہدیہ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔