کے این واصف
انسان کیلئے نقل مکانی کا عمل انسانی تاریخ جتنا ہی پرانا ہے، ہر دور میں نقل مکانی کرنے والوں کے پاس ان کی اپنی وجوہات رہی ہوں گی لیکن پچھلی صدی میں غریب اور ترقی پذیر ممالک سے ہنرمند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی نقل مکانی کا سبب صرف آسودہ حالی حاصل کرنا اور ایک پرامن ماحول میں زندگی بسر کرنا رہا ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے اور جس طرح نقل مکانی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے اسی طرح اس موضوع پر مزید لکھا بھی جارہا ہے ۔ پچھلے دنوں اس موضوع پر دبئی کی حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم کا لکھا ایک مضمون ’’الجزیرہ‘’ میں شائع ہوا جس کا ترجمہ دیگر اخبارات نے بھی شائع کیا ۔ ہم یہاں اس مضمون کے چند اقتباسات قارئین کی نذر کرنا چاہیں گے ۔ شیخ المکتوم نے اپنے مضمون کا آغاز یوں کیا۔
’’1968 ء کی بات ہے جب میں مونز ملٹری کالج میں زیر تعلیم تھا ۔مجھے کسی تکلیف کے باعث ایک پرائیویٹ اسپتال سے رجوع ہونا پڑا۔ وہاں میرا معالج ڈاکٹر عربی زبان سے واقف تھا ۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی عرب ملک سے تعلق رکھتا ہے اور حال ہی میں برطانیہ نقل مکانی کی ہے ۔گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کہ برطانیہ میں ان کا پروگرام کیا ہے اور کب تک وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر نے جو جواب دیا وہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے ۔ اس نے کہا ’’میرا وطن وہ ہے جہاں میری روزی روٹی ہے‘’۔ یہ تیسری دنیا کے باشندوں کا عمومی حال ہے جو نہایت کربناک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکل حالات اور ابتر معاشی کیفیت وہ بنیادی سبب ہے جو عرب اور اسلامی ملکوں کے ہنرمندوں اور باصلاحیت افراد کو مغرب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کر رہا ہے ۔ وہ نہ صرف مغرب بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بہتر حالات ہوں ،وہاں جاکر بہتر مستقبل کی تلاش کرتے ہیں اور نیا وطن بساتے ہیں ۔
عرب ممالک اپنے بہترین وسائل صرف کر کے اپنے نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ یہ ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیت کے مالک افراد ملک کے بہتر مستقبل کا سامان بنیں گے ۔ مگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ابتر معاشی حالات کے باعث یہی ہنرمند اور باصلاحیت لوگ مغرب کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابتر معاشی حالات سے تنگ آکر جو لوگ مغرب کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں ان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ وہ اپنی صلاحیتوں ، اپنی استعداد اور اپنی ہنرمندی کا بہتر مصرف مغرب کو سمجھتے ہیں۔ ہم مغربی ممالک کو بھی قصوروار نہیں ٹھہراسکتے جنہوں نے اپنے صنعتی کار خانوں ، تجارتی مراکز ، اسپتالوں وغیرہ کے دروازے ان نقل مکانی کرنے والوں کیلئے کھول رکھے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی خاطر اعلیٰ صلاحیت رکھنے والوں کیلئے ایک محفوظ ٹھکانہ فراہم کرے۔
گلوبلائزیشن کے بعد دنیا ایک قریہ میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ حالات بدل گئے ہیں۔ ہنرمندوں اور باصلاحیت افراد نے اپنی نئی دنیا آباد کرنے کیلئے نئے ممالک دریافت کئے ۔ ا یک امریکی نجی دارے نے دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والوں کا جائزہ لے کر بتایا کہ اس سلسلے میں کونسے ممالک ایسے ہیں جو نقل مکانی کرنے والوں کی وجہ سے فائدے میں رہے اور کن ممالک کواس ضمن میں نقصان ہوا ۔ جب اس تحقیق کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں دنیا کے مستحکم اقتصادی ممالک میں امارات کا بھی شمار ہوتا ہے ، جہاں بڑی تعداد نقل مکانی کر رہی ہے ۔ اس فہرست میں برازیل ، ہندوستان ، جنوبی افریقہ اور سعودی عرب کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس فہرست میں سنگا پور ، جرمنی اور سوئٹزلینڈ بھی شامل ہیں جہاں دنیا بھر کے ہنرمند اور باصلاحیت افراد نقل مکانی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تحقیق کے مطابق نقل مکانی سے سب سے زیادہ نقصان اسپین ، برطانیہ ، امریکہ ، اٹلی اور آئرلینڈ کا ہوا جہاں بڑی تعداد میں ہنرمندوں نے نقل مکانی کی ہے۔
بہتر معیشت اور پرامن ماحول میں زندگی بسر کرنے کی خواہش میں ہندوستان سے بھی ہنرمندوں اور باصلاحیت افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ لمبے عرصے سے جاری ہے ۔ ہندوستان میں سستی اور اچھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مغربی ممالک کا رخ کرنا اور وہاں مستقل طور پر آباد ہوجانا تو برسوں سے جاری تھا ۔ پھر کم پڑھے لکھے لوگ بھی امریکہ منتقل ہونے لگے اور وہیں کے ہورہے ۔ پھر جب خلیجی ممالک کے دروازے کھلے تو لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی قافلوں کی شکل میں آئے، یہاں ملازمتیں حاصل کیں اور اسے اپنا وطن ثانی بنالیا ۔ آج صرف سعودی عرب میں تقریباً 30 لاکھ ہندوستانی برسرکار ہیں۔ اس طرح سعودی عرب دنیا کا وہ ملک ہوگیا جہاں سب سے بڑی تعداد میں ہندوستانی باشندے کام کرتے ہیں لیکن ان میں چھوٹی ملازمتیں کرنے والوں یا لیبر طبقہ کے افراد کی اکثریت ہے جو ایک دن وطن واپس آئیں گے، کیونکہ یہاں خارجی باشندوں کو قومیت نہیں دی جاتی ۔ مغربی اور دیگر ممالک میں بھی ہندوستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے لیکن ان کی اکثریت وہاں کی قومیت حاصل کئے ہوئے ہے۔ مختصر یہ کہ ملک سے باہر نکلنے کا مقصد صرف آسودہ حالی ہی نہیں بلکہ انسان ہمیشہ ایک پرامن ماحول میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ آج ہندوستان میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑی بڑی تنخواہوں پر نوجوانوں کو ملازمت فراہم کر رہی ہیں لیکن پھر بھی ان باصلاحیت نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کسی مغربی ملک میں ملازمت حاصل ہوجائے اور وہ وہاں جا بسیں۔ اس خواہش کا مقصد اپنوں سے دوری اختیار کرنا ، اپنی مٹی اور اپنے وطن سے عدم دلچسپی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پرسکون اور پرامن ماحول میں زندگی بسر کرنے کی تمنا ہوتی ہے ۔ یعنی انسان کی پہلی ترجیح پرامن ماحول ہے۔
’’اچھے دن آئیں گے‘‘ کے نعرے پر عوام نے اعتماد کی مہر لگائی۔ نئی حکومت آئی۔ حقیقی معنیٰ میں اچھے دن لانے میں تو وقت لگے گا لیکن ملک میں پرامن ماحول اور عوام کو ایک پرامن و پرسکون زندگی دینا زیادہ مشکل کام نہیں۔ صرف فرقہ پرستی ، دنگے فساد، بین مذہبی رنجشوں سے ملک کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری نئی حکومت واقعی اچھے دن دکھانے کے تئیں سنجیدہ ہے تو پہلے ملک میں ایک پرامن اور پرسکون ماحول پیدا کرے کیونکہ یہی چیز ملک کی ترقی اور اچھے دنوں کی ضامن ہوسکتی ہے نہ کہ فجر کی اذان پر پابندی عائد کرنا ، نصاب تعلیم کو نیا رنگ دینے کی کوشش کرنا ، آرٹیکل 370 کو ختم کرنا، اقلیتوں کے مراعات پر قدغن لگانا جیسے ایجنڈے ۔ ملک کے اقلیتوں کے ووٹ کی آپ کے پاس کوئی اہمیت نہیں، نہ سہی۔ مگر آپ کو ان کے وجود کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کیونکہ ملک کی اقلیتوں کو نظرانداز کر کے ترقی کا تصور ادھورا ہے ۔ نئی حکومت کو صرف اپنے ووٹ بینک کی حفاظت نہیں بلکہ ملک کی حفاظت اور ترقی کی فکر کرنی چاہئے ۔ ملک میں امن ہوگا تو ترقی ہوگی ۔ باہر کے ملکوں سے ہماری دولت واپس آئے یا نہ آئے ، کم از کم بڑے پیمانہ پر سرمایہ کار ملک میں اپنا سرمایہ تو لگائیں گے اور ہمارے ہنرمند اور باصلاحیت افراد ملک میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے تو ملک میں اچھے دن تو اپنے آپ ہی آئیں گے۔
knwasif@yahoo.com