ڈاکٹر مجید خان
لوگ سمجھتے ہیں واقعات سے میں انہی کیسوں کے تعلق سے لکھتا ہوں جو نفسیاتی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں اور سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔ ماں، باپ اور اکلوتی لڑکی صبح کی دواخانہ کی گہما گہمی میں آتے ہیں۔ دواخانوں میں ڈاکٹروں کا انتظار کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوا کرتا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ جو پہلی دفعہ آئے تھے اس لئے میرے ماتحتین نے ابتدائی امتحانات مکمل کئے اور معلومات کے کتابچے ان کے حوالے کئے اور دوسرے دن ان کیلئے کئے۔ اسی دوران لڑکی کی کیفیت کی تفصیلات نفسیاتی امتحانات کے پیمانوں میں تولے گئے اور دوسرے دن ماتحت ڈاکٹر میری رائے کے منتظر تھے۔
شکایت ماں باپ کی یہ تھی کہ کالج میں پڑھنے والی لڑکی اب تعلیم سے متنفر ہونے لگی اور کالج جانا بند کردی تھی۔ دادا، دادی جو قدامت پسند تھے اور آجکل کی فیشن کرنے والی لڑکیوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور ان کو وہ اپنادشمن سمجھنے لگی تھی۔ نانا، نانی تو صرف اپنی بیٹی ہی پر جان نچھاور کرتے تھے۔ چند اور اہم خاندانی راز جن کا انکشاف ہوا، اس میں اہم بات یہ تھی کہ لڑکی ماں جو کافی کم عمر تھی، کسی خطرناک مرض میں کئی دنوں تک مبتلا رہی،مگر اللہ کے فضل سے مکمل شفاء اس کو نصیب ہوئی۔ کئی دنوں تک وہ بے ہوش رہی۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ آنکھیں کھولے گی، کیونکہ بے ہوش ہونے سے پہلے سب لوگوں کو علم تھا کہ وہ کسی بھی وقت بے ہوش ہوسکتی ہے اور اس کے بچنے کی امید کم تھی۔ اسی دوران شوہر نے اس کو طلاق بھی دے دیا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں نانا، نانی کی پوری ہمدردی اپنی لڑکی کے ساتھ تھی اور نواسی میں بغاوتی روش بڑھتی گئی۔ گھر کی چار دیواری میں رازداری کا یہ عالم تھا کہ کالج جانے والی لڑکی کو پتہ نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ بچی ماں کو بے انتہا چاہتی تھی اور والد سے بھی اس کو کوئی شکایت نہیں تھی۔ ماں بستر مرگ پر تھی اس کا بھی اس کو کوئی اندازہ نہیں تھا۔ والدین کا طلاق ہوگیا اور اس سے بھی اس کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ صرف اس سے ایک ہی بات کہی جاتی تھی کہ پابندی سے کالج جاؤ اور اچھی تعلیم حاصل کرو۔ یہ نصیحت زہر بنتی گئی۔
اس کے کانوں میں یہی الفاظ گونجتے رہے۔اس کو تعلیم اور کالج سے نفرت ہونے لگی تھی۔ سیل فون تھا مگر دوست نہیں، نہ وہ کسی کو فون کرتی نہ کوئی اس کو فون کرتا۔ اس لئے سوشیل نٹ ورک پر اپنے غصے کی بھڑاس نکالنے لگی۔ اس کی اسی عجیب حالت سے کلاس کی لڑکیاں واقف تھیں اور کرید کرید کر پوچھنے کی کوشش کرتی تھیں، مگر وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ اگر بولتی تو بھی کیا بولتی، وہ خود کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس کے بعد اچانک گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور وہ سہم گئی۔ وہ شادی کیلئے تیار نہیں تھی مگر اس کو یقین تھا کہ اس کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نانا، نانی کی مرضی ہی چلے گی۔ شادی کی تیاریاں جب مکمل ہوگئیں تو اس کو معلوم ہوا کہ شادی اس کی نہیں بلکہ اس کی ماں کی ہورہی ہے۔ یہ اس کی زندگی کا تیسرا دھکہ تھا۔ مگر سخت مزاج نانا اور نانی مسلسل تعلیم اور کالج جانے پر ہی زور دیا کرتے ، لیکن اس کو تعلیم اور کالج سے نفرت ہوگئی تھی اور نانا، نانی کی نافرمانی میں اس کو بڑا سکون محسوس ہوتا تھا۔ اس کا کوئی ہمراز نہیں تھا اور اس کی اسے کوئی فکر بھی نہیں تھی کیونکہ اگر ہمدرد ہو بھی تو کیا خاک سمجھائے گی۔ اتنی کم عمر میں اپنے تحت الشعور سے کیسے وہ واقف ہوسکتی تھی۔ غصہ اور ضد ہی اس کے حربے تھے، جسے وہ خوب استعمال کرتی تھی۔ ماں کی شادی میں شرکت کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ اس کو اتنا اطمینان ضرور ہوا کہ شادی کی بلا اس پر نہیں آئی۔
مگر اس کے بعد اس نے دیکھا کہ سوتیلا باپ بہت ہمدرد تھا اور اس لڑکی کا خاص خیال رکھتا تھا گوکہ وہ اس کے سامنے بھی نہیں آتی تھی مگر وہ اس کے لئے تحفے تحائف لے کر آیا کرتا تھا۔ اسے جو انجانے طور پر اُس سے عداوت ہوگئی تھی وہ دور ہونے لگی، اب اس گھر میں اس کو یہی اجنبی شخص ہمدرد نظر آنے لگا۔لیکن اس دوران جب وہ بھی تعلیم اور کالج جانے پر اصرار کرنے لگا تو اس کو بھی اپنا مخالف سمجھنے لگی۔
نیا شوہر صحیح معنوں میں اس خاندان کیلئے ایک فرشتہ ثابت ہوا، وہ حالات کو سدھارنا چاہتا تھا مگر حل اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔جب وہ بے چارہ اس نفسیاتی منجدھار میں پھنس گیا تو اس کو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے مشورے پر سب مل کر مجھ سے ملنے آئے۔ چیدہ چیدہ معلومات حاصل ہوئیں مگر ان کو ایک جگہ مربوط کرتے ہوئے ایک معنی خیز نتیجہ اخذکرنا اور پھر ان کی روشنی میں لڑکی کے سخت رویہ کو سمجھنا ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے۔
تینوں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، ماتحتین منتظر ہیں کہ میں نسخہ لکھوں گا۔ مگر میں کیا خاک کوئی زندگی کا نسخہ تجویز کرسکتا تھا۔ میں ان تینوں کی زبانی علحدہ علحدہ تفصیلات سننا چاہ رہا تھا تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ ان کے دگرگوں حالات زندگی کس طرح فرداً فرداً اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان تینوں سے علحدگی میں بات کرنا ضروری تھا مگر پہلے کس سے بات کی جائے وہ طئے کرنا تھا۔ماں بے چاری جان لیوا مرض سے صحتمند ہونے کے باوجود ذہنی طور پر مجروح رہے گی۔ لڑکی تو نہ صرف نادان بلکہ یہ ماننے کیلئے بھی تیار نہیں تھی کہ اس کا کوئی حل طلب مسئلہ ہے۔ سوتیلاباپ ہی مناسب شخص نکلا۔ اس نے غیر جذباتی انداز میں سمجھایا کہ لڑکی کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتی، اس کو یہ نہیں معلوم کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ اس سے زندگی کے اہم واقعات چھپائے گئے۔ ماں کا طلاق ہورہا ہے اس کا اس کو علم نہیں تھا۔ ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں گھری ہوئی ہے اس سے چھپایا گیا۔ والدہ کی دوسری شادی ہورہی ہے یہ بات بھی آخری وقت تک نہیں بتائی گئی۔وہ اس کو دھوکہ سمجھ رہی تھی اس لئے اتنا سخت باغیانہ رویہ اختیار کرچکی تھی۔ اس کے بعد تینوں کو اکٹھا بٹھا کر ان کے حالات زندگی پر غور کیا گیا۔ علانیہ یہ بات کھل کر سامنے آنے لگی کہ لڑکی کے ساتھ کافی زیادتی ہوئی ہے اور اس کا باغیانہ رویہ بالکل واجبی ہے۔ جب لڑکی نے یہ دیکھا کہ ہم اس کی طرف داری کررہے ہیں تو اس کا جارحانہ موقف کم ہوتا نظر آیا۔ میں نے کہا کہ کوئی بھی آپ کو زبردستی نہیں پڑھا سکتا۔ آپ ایک سال تعلیم ترک کرد، اور اگر آپ کا دل چاہے تو آپ فاصلاتی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، آپ کو کوئی بھی زبردستی کالج نہیں بھیجے گا۔ آپ اپنے مستقبل پر غور کیجئے اور آپ جو مناسب سمجھتی ہیں وہ کیجئے، اس میں عجلت کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم صرف غصے کا علاج کریں گے اور وہ بھی آپ کی مرضی کے بغیر نہیں۔ اس کے لئے وہ راضی ہوگئی۔