نفرت پر مبنی نظریات اور بڑھتی عدم رواداری

رام پنیانی
سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے جلوس ارتھی کے دوران سوامی اگنی ویش پر اُس وقت بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر حملہ کیا گیا جب وہ ارتھی کے جلوس میں شامل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ حملہ آوروں نے جو وہاں موجود ہجوم کے بعض ارکان تھے، سوامی جی کو دیکھتے ہی ان کے خلاف نعرے بلند کئے اور پھر انھیں زدوکوب کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ ان کی پگڑی اُچھالی گئی۔ سوامی جی کو نیچے گرادیا گیا۔ حملہ آور سوامی کو زدوکوب کرتے ہوئے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ اور دیش دروہی واپس جاؤ (ملک کے غدار واپس جاؤ) کے نعرے لگارہے تھے۔ اس واقعہ سے ایک ماہ قبل بھی جھارکھنڈ کے پوکور میں سوامی اگنی ویش کو بی جے پی کی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے مبینہ طور پر بُری طرح زدوکوب کیا تھا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ ان کی جان بھی جاسکتی تھی۔ وہاں بھی سوامی اگنی ویش کی پگڑی اُچھالی گئی۔ ان پر لاتوں گھونسوں کی بارش کی گئی یہاں تک کہ ان کے لباس کو تار تار کردیا گیا۔ بی جے پی قائدین نے سوامی اگنی ویش پر حملہ کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی مدافعت کی اور حملہ آوروں کی مدافعت میں سوامی جی کا ایک ویڈیو گشت کروایا جس میں وہ (اگنی ویش) وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے اُس بیان کے لئے شدید تنقید کا نشانہ بنارہے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ قدیم ہندوستان میں پلاسٹک سرجری کی جاتی تھی اس ضمن میں مودی جی نے بتایا تھا کہ ایک بچے کی گردن پر ہاتھی کے سر کی پیوندکاری کی گئی یا کوروں کی پیدائش اسٹیم سل ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ سوامی اگنی ویش نے نیپال اور ڈھاکہ میں پوجا کرنے پر بھی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کی تھی۔

امرناتھ یاترا اور مورتی پوجا پر بھی حملہ کرتے ہوئے اگنی ویش نے برفانی بابا کے حوالے سے بتایا تھا کہ برف کا شیو لنگ بننا ایک فطری کیفیت ہے جو SATALACTITE اور STALAGMITE کے جمع ہونے کا ایک فطری عمل ہے اور جب لنگ بننے کے لئے یہ ڈپازٹس ناکافی ہوتے ہیں تو اُسے لنگا کی شکل دینے کے لئے برف ڈالنا پڑتا ہے۔ اس طرح سوامی اگنی ویش نے کمبھ میلہ پر بھی شدید تنقید کی۔ اس میلہ کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ وہاں جمع ہونے سے ان کے سارے گنال دھل جاتے ہیں لیکن سوامی اگنی ویش اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ کمبھ میلے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اُس انتہائی آلودہ پانی میں نہانے سے گناہ نہیں دھلتے بلکہ وہ تو نئی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔

بحیثیت مجموعی سوامی کئی ایک سماجی تحریکوں کا حصہ رہے ہیں جن میں بندھوا مزدور مورچہ (بندھوا مزدوری کے خلاف پہل) جس کے لئے انھوں نے عالمی سطح کے بندھوا مزدوروں کی جدید شکل کے خاتمہ کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ یہ تحریک اقوام متحدہ کی زیرسرپرستی چلائی جاتی ہے۔ سوامی جی بچیوں کے مادر شکم میں قتل اور ستی کی رسم کی مخالفت کرنے والی تحریکوں سے بھی جڑے رہے ہیں۔ وہ آریہ سماج کی تنظیم کا ایک طویل عرصہ سے حصہ رہے ہیں۔ ان کی سماجی خدمات کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا چنانچہ سال 2004 ء میں انھیں رائٹ لائیولی ہوڈ (جسے نوبل انعام کا متبادل کہا جاتا ہے) عطا کیا گیا۔ اسی سال سوامی اگنی ویش کو راجیو گاندھی سدبھاؤنا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کئی ایسے مسائل ہیں جن پر کوئی بھی ان سے اتفاق نہیں کرسکتا جیسے ہندوازم سے متعلق انکی تشریح۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوازم صرف ویدک دور کے لئے مخصوص تھا۔ اس کے باوجود ان کا سماج کے کمزور اور پچھڑے طبقات کے مسائل سے مسلسل جڑے رہنا کافی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بندھوا مزدوروں کی شکل میں جدید غلامی، ستی کی رسم، مادر شکم میں بچیوں کے قتل کے خلاف تحریکیں شروع کی ہیں۔
زعفرانی لباس زیب تن کرنے والے سوامی ہندو قوم پرست بریگیڈ کے کارکنوں اور حامیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان پر یہ حملہ دراصل معقولیت پسند ڈاکٹر دابھولکر کے قتل سے شروع ہوئے سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔ ڈاکٹر دابھولکر کے قتل کے بعد کامریڈ گوئند پنسارہ کو موت کی نیند سلادیا گیا پھر کرناٹک میں ڈاکٹر کلبرگی اور گوری لنکیش کے سینوں میں گولیاں اُتاری گئیں۔ جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں عدم رواداری بڑھتی جارہی ہے جو کوئی بھی حکمراں طبقہ کے خلاف اظہار خیال کرتا ہے اس کی پالیسیوں کو حدف تنقید بناتا ہے۔ اسے نشانہ بنایا جارہا ہے اور خاطیوں کو بربریت کے لئے آزادی دی گئی ہے۔ انھیں اس قسم کی ملک دشمن سرگرمیوں کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے قائدین ان کی ستائش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس بزدلانہ نوعیت کے نفرت پر مبنی جرائم سے وہ دور ہوسکتے ہیں۔

ذرہ تصور کیجئے کہ ایک زعفرانی لباس زیب تن کیا ہوا سوامی ہندوستان کے ایک سابق وزیراعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے آخری دیدار کے لئے آتا ہے جہاں اس کی نہ صرف توہین کی جاتی ہے بلکہ اسے شدید زدوکوب کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ غنڈے فرضی قوم پرستی اور مذہب کے نام پر جھوٹے فخر و فریب کے نشہ میں دھت ہیں۔ اقتدار کی حامل طاقتوں کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ایسے میں حقیقی خاطی و مجرمین وہ لوگ ہیں جو ان غنڈوں کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ ان کے ہر ناجائز کام کی ستائش کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس آئیڈیالوجی کو پھیلارہے ہیں، فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا نظریہ نسل پرستی پر مبنی ہے۔ وہ اپنے نظریہ کو اعلیٰ اور دوسروں کی آئیڈیالوجی کو کمتر جانتے ہیں۔ مخالفین کے نظریات ان کی نظروں میں ملک دشمن اور مذہب دشمن ہیں۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہندو مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے۔ تنوع جس کا جز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اکثر مذاہب کے ایک بانی اور ایک مقدس کتاب ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان میں کئی فرقے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوبارہ پیدائش کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پینٹا کوسٹلس فرقہ بھی عیسائیوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں سنی شیعہ فرقے ہوتے ہیں۔ قادیانی بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (انھیں مسلمان، مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے)، دوسری طرف بدھ ازم، جین ازم، سکھ ازم میں بھی فرقہ بندی پائی جاتی ہے۔
اس کے متضاد ہندو ازم کا کوئی ایک بانی نہیں ہے۔ کوئی ایک مقدس کتاب نہیں ہے۔ مذہبی رہنماؤں یا رسوم و رواج کا ایک نمونہ یا پیٹرن نہیں ہے۔ اس میں برہمن ازم، تانترا، ناتھ، سدھانتا، شائیوا، وشنو اور بھگتی وغیرہ جیسی روایات ہیں۔ تنوع ہندو مذہب کا جز ہے۔ ہندوؤں میں سوامی دیانند سرسوتی نے آریہ سماج کی بنیاد ڈالی اور اپنے اس نظریہ کا اعلان کیاکہ ہندوازم اصل میں ویدوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جبکہ مورتی پوجا ہندوؤں کے بعض فرقوں کا ایک حصہ ہے۔ ہندوازم میں مظاہرہ پرستی پر مبنی عبادت بھی پائی جاتی ہے۔ تثلیث پرستی سے لے کر اصنام پرستی اور اصنام پرستی سے لے کر ناستک (دہریت) بھی ہندو ازم میں پائے جاتے ہیں۔

سوامی اگنی ویش پر ہندو قوم پرستوں کے حامیوں کے تازہ حملے حقیقی ہندوازم میں پائے جانے والے رواداری کے اقدار کے مغائر ہیں بلکہ یہ سب کچھ سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہندوؤں کو متحرک کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ان کی حرکات کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اُمید کرتے ہوئے کہ موجودہ حکومت سوامی اگنی ویش جیسے سماجی مصلح اور سیاسی جہدکار کو سکیورٹی فراہم کرے گی کوئی بھی یہ توقع کرسکتا ہے کہ معقولیت پسند مفکرین و دانشوروں کے قتل کا سلسلہ جو دابھولکر کے قتل سے شروع ہوا تھا اپنے اختتام کو پہنچے گا کیوں کہ خاطیوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے اور قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔ ہندوستانی قوم نے اُس وقت راحت کی سانس لی جب ان سماجی مصلحوں کو قتل کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا (سوامی اگنی ویش اور عمر خالد کو قتل کرنے کا منصوبہ ناکام ہوا) ایسے میں اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ یہ قاتل ٹولہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز دبا نہ سکے۔