نفرت سے تو پیار بڑھانا اچھا ہے

رشیدالدین

تلنگانہ کی صورت میں ملک کی 29 ویں ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ اب محض رسمی کارروائی باقی ہے جو کہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی پوری کریں گے۔ مسلسل ناانصافیوں اور پسماندگی کے خلاف 58 برسوں سے جاری تحریک کو آخرکار کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طویل جدوجہد میں سینکڑوں نوجوانوں کی قربانیاں شامل ہیں جنہوں نے دوسروں کے تابناک مستقبل کیلئے اپنی جان قربان کردی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آندھراپردیش کی تقسیم کا بل منظور کرلیا گیا اور نئی ریاست کا خواب حقیقت میں تبدیل ہونے کو ہے۔ نئی ریاست کے ساتھ عوام نے اپنے خوابوں کو وابستہ کرلیا ہے اور آنکھوں میں امید کی کرن کے ساتھ سنہرے مستقبل کے بارے میں نوجوان نسل مطمئن نظر آتی ہے۔ یقیناً ہر کسی کو تابناک مستقبل کا خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ خواب اسی وقت پورے ہو پائیں گے جب قیادت دیانتدار ہو۔ 15 ویں لوک سبھا کے آخری اجلاس کے آخری ایام میں بل پیش کیا گیا اور اس کی منظوری کے مرحلہ تک دونوں ایوانوں میں جو شرمناک واقعات پیش آئے اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔

ووٹ اور سیٹ کی سیاست نے پارٹیوں کو سیاسی مقصد براری کے کھیل میں اس قدر اندھا کردیا تھا کہ ان کی حرکتوں نے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو شرمسار کردیا ۔ جہاں تک علحدہ ریاست کے قیام کے سلسلہ میں عوامی مطالبہ کا سوال ہے، اس کے حق بجانب ہونے سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں حکومت اور بل کی تائیدی جماعتوں کے رول کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ تلنگانہ عوام کو ان کا جائز حق دینے سے زیادہ سیاسی مقصد براری کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ کانگریس ہو کہ بی جے پی یا پھر ریاست کی دیگر جماعتیں ہر کوئی دونوں علاقوں کے عوام کو خوش کرنا چاہتے تھے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے مسابقت نے ایک طرف کانگریس اور بی جے پی کو متحد کردیا تو دوسری طرف غیر کانگریس اور غیر بی جے پی جماعتوں پر مشتمل تیسرے محاذ کی امکانی تصویر بھی دکھائی دے رہی تھی۔

ایسی جماعتیں جن کا آندھراپردیش کی سیاست میں کوئی خاص رول نہیں، وہ تشکیل تلنگانہ کے خلاف تلگو دیشم کے ساتھ کھڑی نظر آئیں جن میں سماج وادی پارٹی ، ترنمول کانگریس ، بائیں بازو کی جماعتیں ، ڈی ایم کے ، آسام گن پریشد، جنتا دل یونائٹیڈ اور بعض دوسری علاقائی جماعتیں شامل ہیں۔ امکان ہے کہ عام انتخابات سے قبل یہ محاذ ابھر سکتا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو جو تقسیم آندھراپردیش کو روکنے کیلئے بی جے پی پر کچھ زیادہ ہی مہربان دکھائی دے رہے تھے، ہوسکتا ہے کہ اب تیسرے محاذ میں اہم رول ادا کریں گے ۔ بہرحال تلنگانہ بل کی منظوری سے متعلق سرگرمیوں میں سیاسی کھیل اور عام انتخابات کی تیاری کچھ زیادہ ہی دیکھی گئی۔ یہ محض اتفاق ہی ہے کہ ادھر راجیہ سبھا میں تلنگانہ بل کی منظوری کی سرگرمیاں جاری تھیں تو دوسری طرف الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ ان سرگرمیوں کے دوران سیاسی جماعتوں نے آئندہ کیلئے اپنے حلیفوں کا انتخاب شروع کردیا ہے اور پارٹیوں کے درمیان خط فاصل کھچ گئی ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست نے ملک کو یہ منظر بھی دکھایا ، جب پارلیمنٹ میں ’’راہول۔مودی بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ عوامی بھلائی سے متعلق کئی قوانین ایسے تھے جن کی پیشکشی پر اہم اپوزیشن بی جے پی نے اعتراض جتاتے ہوئے حکومت کو بل متعارف کرنے سے روک دیا ۔

پارلیمنٹ میں کئی بل 5 تا 10 برسوں سے منظوری کے منتظر ہیں۔ خواتین تحفظات بل 2010 ء میں راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا لیکن لوک سبھا میں یہ بل ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا گیا۔ اسی بی جے پی نے جاریہ سیشن میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کو راجیہ سبھا میں پیش ہونے سے روک دیا لیکن ایسی کیا بات ہوگئی کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے مسئلہ پر بی جے پی نے کانگریس سے ہاتھ ملانے میں بھی عار محسوس نہیں کی ۔ دراصل بی جے پی جنوبی ہند میں قدم جمانا چاہتی ہے اور اسے تلنگانہ میں ماحول سازگار دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس نے بھی بل کی منظوری کیلئے بی جے پی کے در پر حاضری دی۔ یہ سب کچھ تلنگانہ اور اس کے عوام سے محبت اور ہمدردی کے سبب نہیں تھا بلکہ وہ دونوں ریاستوں میں اپنا موقف مستحکم اور ووٹ بینک مضبوط کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی مجبوری ، اقتدار کی بھوک اور ووٹ بینک سیاست کے لئے پارٹیاں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔

نئی دہلی میں اروند کجریوال کی زیر قیادت عام آدمی پارٹی حکومت کو گرانے کیلئے کانگریس اور بی جے پی نے کس طرح کھل کر اتحاد کیا اسے دنیا بھر نے دیکھا ہے۔ اروند کجریوال بیک وقت مودی اور راہول گاندھی کیلئے خطرہ ثابت ہورہے تھے لہذا جن لوک پال بل کے مسئلہ پر حکومت کے خلاف دونوں پارٹیاں متحد ہوگئیں۔ اگر عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں رکاوٹ پیدا ہوگی تو کوئی عجب نہیں کہ تیسرے محاذ اور عام آدمی پارٹی کو اقتدار میں شمولیت سے روکنے یہ دونوں ایک دوسرے کی تائید کیلئے تیار ہوجائیں۔ بی جے پی نے سیما آندھرا سے انصاف کا ڈرامہ کرتے ہوئے بعض نام نہاد اور غیر اہم ترمیمات پیش کیں اور حکومت نے زبانی طور پر انہیں قبول کرلیا ۔ اس طرح دونوں نے سیاسی اغراض کے اس کھیل میں دونوں علاقوں کے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کی ہے۔ دونوں پارٹیوں نے موقع پرست سیاست کو اختیار کیا اور انہیں عوام ، عوامی مسائل اور علاقہ کی پسماندگی سے کوئی مطلب نہیں۔ اس سلسلہ میں ٹی آر ایس سربراہ چندر شیکھر راؤ کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ جب تک علحدہ ریاست تشکیل نہ پاجائے عوام کو چوکس رہنا چاہئے ۔

انتخابات سے عین قبل تلنگانہ بل کی منظوری کیلئے کانگریس کی دوڑ دھوپ خود اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ یہ محض وعدہ کی تکمیل کا معاملہ نہیں بلکہ سیاسی مقصد براری کا حصہ ہے۔ کانگریس اور مرکزی حکومت کی عدم سنجیدگی اور نااہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ گزشتہ 10 برسوں میں تینوں علاقوں کے عوام تو کجا خود کانگریس قائدین میں اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جاسکا۔ کانگریس اپنے سیما آندھرا قائدین کو تقسیم کے حق میں قائل کرنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بل کی منظوری کیلئے اسے بی جے پی کی مدد پر انحصار کرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خوشگوار اور برادرانہ ماحول میں ریاست کو تقسیم کیا جاتا۔

دونوں علاقوں کے عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات، تلخیوں اور دوری کے لئے یقینی طور پر کانگریس ذمہ دار ہے۔ بل کی منظوری کے ساتھ ہی کانگریس ، بی جے پی اور ٹی آر ایس میں تقسیم ریاست کا کریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے ۔ کانگریس نے وعدہ وفا کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کی تائید کے سبب دونوں ایوانوں میں بل منظور ہوسکا۔ ٹی آر ایس کی دلیل ہے کہ گزشتہ 14 برسوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں دونوں پارٹیاں علحدہ تلنگانہ کی تائید پر مجبور ہوئی ہیں۔ اگر وہ تحریک نہ چلاتی تو ریاست کی تقسیم کا سوال ہی نہ اٹھتا۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بارے میں بھلے ہی کوئی دعویداری پیش کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز نے دیانتداری سے نہیں بلکہ نیم دلی سے ریاست تقسیم کی ہے۔ کمزور اور نقائص سے پر بل پیش کیا گیا ، اس پر بی جے پی کی تائید سیاسی مجبوری تھی۔ حیدرآباد دارالحکومت کے ساتھ مکمل تلنگانہ ریاست کے بجائے شرائط اور پابندیوں کے ساتھ نئی ریاست دی جارہی ہے۔ ایک دو نہیں بلکہ دس برسوں کیلئے حیدرآباد کو مشترکہ دارالحکومت کے طور پر برقرار رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ 10 برس کوئی معمولی وقفہ نہیں ، اس دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مرکز کا یہ اقدام سیما آندھرا عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے ۔ مشترکہ دارالحکومت کی صورت میں حیدرآباد کی ترقی یقیناً متاثر ہوگی ۔ کیونکہ سیما آندھرا حکومت یہاں کے وسائل سے استفادہ کرے گی لیکن ترقی میں شریک نہیں ہوگی۔ شرائط کے ساتھ نامکمل تلنگانہ کے ذریعہ تلنگانہ عوام کو نئی ریاست کی مکمل خوشی سے محروم رکھا گیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے موجودہ طریقہ کار کو برقرار رکھا گیا ۔ مشترکہ دارالحکومت اور لاء اینڈ آرڈر پر گورنر کو اختیارات کا مسئلہ دستوری ترمیم کا متقاضی ہے۔ مکمل ریاست اور اپنی حکمرانی کیلئے تلنگانہ عوام کو کیا مزید دس برس تک انتظار کرنا پڑے گا ؟ ریاست کی تقسیم کے بعد تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس کس طرح دونوں ریاستوں میں برقرار رہیں گے ؟ بی جے پی جو آندھراپردیش میں کمزور ہے، وہ کس طرح سیاسی فائدہ اٹھا پائے گی ؟ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ٹی آر ایس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ کانگریس میں انضمام یا مفاہمت ۔ ریاست کی تقسیم اور نظم و نسق کو باٹنے کا عمل کب تک پورا ہوگا ؟ کیا تلنگانہ عوام کے خواب پورے ہوں گے جو انہوں نے گزشتہ 50 برسوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے ہیں ؟ ان تمام سوالات کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا اور آئندہ عام انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کے ذرریعہ یہ واضح کردیں گے کہ ان کا حقیقی ہمدرد کون ہے؟ ریاست کی تقسیم کے بعد عوام کی ترقی کے بارے میں دونوں علاقوں کے قائدین اور جماعتوں کی سنجیدگی کا بھی امتحان ہوگا۔ کرن کمار ریڈی نے ابتداء ہی سے تلنگانہ کی مخالفت کی اور اپنے اصولی موقف کے تحت اقتدار اور عہدہ کی قربانی دیدی ۔ انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ ان کے کتنے ساتھی ان کا ساتھ دیں گے۔ اپنے اعلان کے مطابق انہوں نے باوقار انداز میں عہدہ کو خیر باد کہہ دیا۔ کرسی اور اقتدار کی لالچ کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا کہ کل تک ان کی جئے جئے کار کرتے ہوئے اطراف دکھائی دینے والے قائدین چیف منسٹر کے عہدہ کی لالچ میں ہائی کمان اور گورنر کے پاس پہنچ گئے۔ اب جبکہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے عوام کو نفرت کے بجائے محبت کے ساتھ دونوں ریاستوں کی ترقی میں حصہ ادا کرنا چاہئے۔ منظر بھوپالی نے کچھ اس طرح مشورہ دیا ہے ؎
پیار کو جتنا باٹو بڑھتا جاتا ہے
نفرت سے تو پیار بڑھانا اچھا ہے