نعرہ کی سیاست

اصول اور اقدار ماضی کے قصے
سیاست میں نعرے ہی نعرے بچے ہیں
نعرہ کی سیاست
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کے خلاف بی جے پی یا ہندوتوا کارکنوں کی ’ جئے شری رام ‘ نعرے کے ساتھ مہم کو ایک سازش کے تحت دیکھا جارہا ہے ۔ ممتا بنرجی کو حالیہ لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دینے کے حصہ کے طور پر اگر ایسا کچھ ہراسانی کا ماحول تیار کیا جارہا ہے تو ہندوستانی سیاست میں یہ ایک اور افسوسناک تبدیلی ہے ۔ ممتا بنرجی کے نام جئے شری رام نعرے والے 10 لاکھ پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کا فیصلہ کرنے والوں نے ہی کولکتہ کی سڑک پر ممتا بنرجی کو جئے شری رام کے نعروں کے ذریعہ ہراساں کیا ۔ پولیس کی موجودگی میں ہندوتوا بریگیڈ نے ایک ریاستی چیف منسٹر کو مذہب کی آڑ میں اس طرح ہراساں کیا ہے تو پھر عام شہریوں کا کیا حال کیا جائے گا ۔ مرکز میں بی جے پی کو بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار ملنے سے ہندوتوا نظریہ کے حامل ٹولے کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والی طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اب انہیں من مانی کرنے اور تشدد کے ساتھ ہراساں ماحول کو عام کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ بی جے پی نے اگر سیاست کو مذہب کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے تو یہ ہندوستانی سیاسی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے ۔ بلا شبہ ہر ایک پارٹی کا اپنا نعرہ ہوتا ہے ۔ ممتا بنرجی کو صرف جئے شری رام کے نعرہ سے ہراساں کرنے کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ انہیں میدان سیاست سے بھگانے پر مجبور کردیا جائے ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ہندوتوا بریگیڈ کے جواب میں ٹوئیٹ کیا کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کا اپنا نعرہ ہوتا ہے ۔ میری پارٹی کا نعرہ جئے ہند ، وندے ماترم ہے ۔ بائیں بازو کا نعرہ انقلاب زندہ باد ہے ۔ دیگر پارٹیوں کے مختلف نعرے ہیں ۔ ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ۔ یہی تمام مذاہب اور سماجی جذبات کا مظہر ہیں ۔ لیکن بی جے پی نے مذہبی نعرہ جئے شری رام کو اپنی پارٹی کا نعرہ بنالیا ہے اور اس کا یہ طرز عمل غلط ہے ۔ اس نے سیاست کو مذہب سے خلط ملط کردیا ہے ۔ دانستہ طور پر وہ نفرت کے نظریہ کو فروغ دینے کے لیے ایسی حرکتوں پر اتر آتی ہے ۔ نفرت کے سہارے تشدد اور توڑ پھوڑ و ہنگامہ برپا کرنے کی ہر گوشے سے مذمت کی جانی چاہئے ۔ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنی کامیابی کے نشے میں غنڈوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے ۔ سیاسی کارکنوں کے بھیس میں غنڈوں کو بدامنی پھیلانے ، ہنگامہ آرائی کرنے تشدد کے ذریعہ عام زندگی درہم برہم کرنے کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس عمل کو فوری روکدینے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کے ہر گوشے میں اس طرح کے واقعات ایک وبا کی طرح پھیلنے لگیں تو پھر عام شہریوں کا بھی جینا حرام ہوگا ۔ گمراہ کن یا بھٹکی ہوئی نظریاتی پالیسی کو زبردستی اور طاقت کے ذریعہ مسلط کرنے کی کوشش کے نتائج بھی بھیانک نکلتے ہیں ۔ مذہب کے نام پر اگر عوام کو منقسم کرتے ہوئے ایک مذہبی ہیجان برپا کیا جارہا ہے تو یہ خطرناک شروعات ہے جو آگے چل کر ہندوستان کے امن کو نقصان پہونچا سکتا ہے ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال کی حیثیت سے ممتا بنرجی کو ہندوتوا بریگیڈ کی جارحیت پسندی سے نمٹنے کا اختیار حاصل ہے لیکن لوک سبھا کی 42 نشستوں کے منجملہ 18 نشستوں کو کھودینے کے غم نے انہیں مضطرب کر رکھا ہے ، صرف 22 حلقوں سے ٹی ایم سی کامیاب ہوئی ہے اور وہ سیاسی شکست کو اپنی ذاتی شکست باور کرنے لگی ہیں ، اس لیے بی جے پی کارکنوں کو ان کی اس مایوسی کا فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے ۔ ویسے ایک ریاست کی سربراہ کی حیثیت سے انہیں اختیار ہے کہ وہ بدامنی پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں کیوں کہ کسی بھی پرامن ریاست میں سیاسی تشدد برپا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔۔